Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو افسانہ : بھوک : افسانہ نگار - فرخندہ ضمیر

افسانہ : بھوک

افسانہ نگار ۔۔ فرخندہ ضمیر(اجمیر)

جمعرات کے دن قبرستان۔پھولوں، اگربتّیوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔اِس بے حِسی کے عالم میں بھی ابھی کچھ لوگوں کے دلوں میں اپنے مرحومین کے لئے محبّت قائم تھی۔ چند قبریں اپنی محرومی پر ماتم کناں ویران پڑی تھیں، کوئ ان پر دو پھول چڑھانے والا بھی نہیں تھا۔

میں قبرستان کے گیٹ کے سامنے گا ڑی میں بیٹھی تھی، میرے شوہراپنے عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے گئے تھے۔میں گیٹ سے ہی اپنے والد کی قبر پر نظر ڈال لیتی اور باہر سے ہی فاتحہ پڑھ لیتی تو دل کو بڑا سکون ملتا۔ والد کی محبت وشفقت کو یاد کر میری آنکھیں بھر آئیں۔وہ روشن لمحہ جاوداں ہو گئے۔ وہ نورانی چہرہ آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ دل میں خلش سی ہوئی۔ کہاں سے دیکھوں انکو۔ایک جھلک ہی دکھ جائے۔

اچانک سنّاٹے کو چیرتی ہوئ کرخت آواز نے خیالات منتشر کر دئے۔

"میں کہتا ہوں، میری امانت واپس کر۔"
" نہیں کرتا بے دو سال بعد تجھے تیری امانت یاد آئی ہے۔بہت دیر ہو گئ۔اب تو منہ دھو لے۔"

میری نگاہ قبرستان میں سامنے بنی ایک جھونپڑی پر پڑی۔ تو دیکھا قبرستان کا فقیر منگو شاہ اور ایک لنگڑا آدمی آپس میں تو تو میں۔ میں کر رہے تھے۔اور کچھ ہی فاصلہ پر ایک عورت خاموشی سے بیٹھی تھی، ایک بچّہ گود میں اور ایک پاس ہی مٹّی میں کھیل رہا تھا۔

" یہ لے پانچ ہجار اور میری بیوی واپس کر "
"ہائیں "۔ میرے کان کھڑے ہو گئے۔ تجسّس ہواکہ معلوم کروں ماجرا کیا ہے؟، لیکن انکے بیچ جانا کچھ معیوب سا لگا۔اور میں الجھی الجھی سی گھر آگئ۔ ذہن میں اُسی جملہ کی بازگشت ہوتی رہی۔اور اپنے آپ سے سوال کرتی رہی؟
" کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔شاید میں نے غلط سنا ہو۔"
پہلے دن کسی واقعہ کا اثر زیادہ رہتا ہے۔ پھر میں بھی زندگی کی گہما گہمی میں اس بات کو بھول گئی۔

کچھ ہی دن بعدامریکہ سے چچا جان اور انکی فیملی آ گئ چچا جان آتے ہی ہمیشہ کی طرح اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے سب کو لیکر گئے۔۔ میں اور چچی جان گاڑی میں ہی بیٹھی رہیں۔ قبرستان کے گیٹ سے ہی قبریں نظر آ رہی تھیں۔ آج قبرستان کے مردے بہت مسرور ہونگے کہ جمعرات سے پہلےہی انھیں کسی نے یاد کیا ورنہ ہو حق کا عالم رہتا، یا کبھی کبھی سنّآٹے کو چیرتی ہوئ منگو کے بچّوں کی آوازیں آتیں۔ ہو بہو اپنے باپ سے مشابہ تھے، بڑے بڑے کان، چھوٹے چھوٹے ہاتھ پیر، ایک بالشت کا قد۔ کالا موٹا منگو بڑا ہی کریہہ شکل تھا اسکے اعمال کی پھٹکار چہرے سے عیاں ہوتی تھی۔ نہ جانے کہاں کہاں سے آئے دن نئ، نئ عورتوں کو لے آتا اور انھیں گاڑی پر بٹھا کر بھیک مانگتا تھا۔ یہ ہی ایک عورت ایسی تھی جسے منگو کے ساتھ اتنے دنوں سے دیکھا جا رہا تھا۔ اس سے وہ بھیک نہیں منگواتا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی کہ ایسے غلیظ انسان کے ساتھ بھی کوئ عورت رہ سکتی ہے۔

ایک دم قبرستان کے ویرانے میں گالی گلوچ کی آوازیں آنے لگیں۔

"کیا لعنت ہے انسان قبرستان میں سکون سے فاتحہ بھی نہیں پڑ سکتا۔" میرے شوہر اور چچا جان بڑبڑاتے ہوئے دروازے سے باہر آئے۔

منگو اور لنگڑا آدمی آپس میں نبرد آزما تھے۔" سالے تو نے میری بیوی واپس نہ کی تو جیل بھجوا دونگا۔"

ہاہا ! یہ منہ اور مسور کی دال۔ بہت دیکھے ہیں تیرے جیسے۔"

ہائے یہ بیوی ایسے مانگ رہا ہے۔ جیسے کوئ بے جان اشیاء ہو۔

"انکا کیا مسئلہ ہے؟"۔بیوی کے نام پر میرے شوہر بھی حیران تھے۔

"آؤ دیکھتے ہیں۔ "چچا جان بھی تجسّس سے یہ کہتے ہوئے انکے قریب چلے گئے۔ کچھ اور راہ گیر بھی رک گئے تھے۔
انھیں دیکھتے ہی وہ لوگ کھڑے ہو گئے۔ میرے شوہر کو زیادہ تر لوگ جانتے تھے کیونکہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔
لنگڑا آدمی میرے شوہر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔

"صاب آپ ہی انصاپ کرو، یہ میری بیوی واپس نہیں کر رہا ہے۔"

ہم نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایسا مقدمہ تو آج تک میرے شوہر کی بینچ میں نہیں آیا ہوگا!
"قصہّ کیا ہے؟"میرے شوہر نے استفسار کیا۔

"ابے کھیراتی ان سے کیا کہتا ہے۔جا ساری دنیا میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاّ میرے پر کوئ اثر نہی ہونے والا۔تجھ پر ہی دنیا ہنسے گی۔" منگو نے چھوٹے چھوٹے ہاتھ نچا کر رعونت سے کہا۔

"پوری بات بتاؤ " میرے شوہر نے استفسار کیا
خیراتی اپنا دکھڑا سنانے لگا۔

خیراتی ان گلیوں اور سڑکوں پر رل رلاکر بڑا ہواتھا۔وہ کس کی اولاد ہے اس نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔بس اس کا دل چاہتا اس کا ایک گھر ہو جب وہ حمّالی کرکے گھر آئے تو کوئ مسکراتا ہوا نرم گرم وجود اس کا استقبال کرے۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر کھلائے، لیکن اسے کون بیٹی دیتا۔منگو شاہ اس کا دوست تھا۔خیراتی نے اپنی دلی خواہش کا اظہار منگو سے کیا۔منگو نے اسے بہت سبز باغ دکھائے۔

"تو 20 ہجار جمع کرلے پھر تیری سادی میں کرا دونگا۔"

منگو نے کان سے بیڑی نکال کر سلگاتے ہوئے کہا۔
"سچ ! ارے یار منگو میں تیرا احسان جندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ " خیراتی نے منگو کے پیر دباتے ہوئے چاپلوسی سے کہا۔۔ منگو نے ایک سٹّہ کھینچا اور دھنواں چھوڑتے ہوئے کہا۔

"لیکن یار تو کیوں اپنے پیروں میں بیڑیاں ڈالنا چاہتا ہے۔ مجھے دیکھ کیسے عیس کرتا ہوں " منگو نے خباثت سے آنکھ دبا کر کہا۔

"یار تیرے جیسی کسمت میری کہاں۔مجھے تو بس ایک ہی دلا دے۔اسی پر گجارا کر لونگا۔" خیراتی نے حسرت سے کہا۔
شادی کے لئے۔خیراتی اور بھی زیادہ حمّالی کرنے لگا۔آنے والی زندگی کے حسین خواب دیکھتے ہوئے یہ بوجھ اسے بھاری نہی لگتا۔ایک گھر کا خواب جو پورا ہونے والا تھا۔خیراتی کے پاس رقم جمع ہو گئ۔ وہ خوشی خوشی منگو کے پاس گیا۔

" یار منگو پیسے جمع ہو گئے۔ " خیراتی کی آرزوؤں سے روشن آنکھیں منگو کی رضامندی کی منتظر تھیں۔

"اچھا کل چلتے ہیں۔توبھی کیا یاد رکھے گا۔" منگو نے ایسے کہا جیسے کہیں کا شاہ ہو۔

"منگو یار سچ میں تو بادساہ ہے بادساہ"۔"خیراتی نے چاپلوسی سے کھیسیں نپورتے ہوئے کہا۔۔

منگو کا سینہ اور بھی تن گیا۔ گلے میں پڑے لال رومال میں بڑے انداز سے گرہ لگائی۔

خیراتی کا خوشی کے مارے برا حال تھا۔ باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔لمبی ٹھوڑی کچھ اور لٹک گئ۔

دوسرے دن وہ ایک ایسے شہر میں پہنچ گئے۔جہاں درو دیوار سے غربت برس رہی تھی۔مسافر خانے میں خیراتی کو بٹھا کر منگو باہر چلا گیا۔کچھ دیر بعد لوٹا تو اسکے ساتھ تہبند اور بنیان پہنے ایک منخنی سا آدمی تھا۔

"یہ سادی کا دلال ہے۔اس کو پیسہ دے دے یہ تیری سادی کرائے گا۔"

خیراتی نے خوشی خوشی بنیان کے اندر کی جیب سے پیسے نکال کر دے دئے۔ وہ آدمی انھیں ایک گھر میں لے گیا۔ ننگ دھڑنگ بچّہ گھر کے سامنے کھیل رہے تھے۔پسلیاں باہر نکلی ہوئیں، پیٹ کمر سے لگے ہوئے۔۔ کم خوراکی کا شکار۔

کنڈی کھٹکھٹانے پر ایک مسکین صورت آدمی نازل ہوا۔ گالوں کی ہڈّیاں زیادہ ہی نمایاں تھیں۔چہرے پر خشخشی داڑھی تھی۔ وہ ان تینوں کو اندر لے گیا۔ تینوں ایک پھٹی دری پر بیٹھ گئے۔ایک مریل سی سانولی لڑکی پانی لیکر آئ۔ دلال نے آنکھ سے خیراتی کو اشارہ کیا۔خیراتی بنا پلک جھپکائے دیکھتا رہا۔ خوشی سے باچھیں کانوں تک چر گئیں۔

"پسند ہے ؟" منگو نے کان میں سرگوشی کی۔
کالی گوری سب چلے گی۔ مجھے تو بس گھر والی چاہئے " خیراتی نے مسرور لہجہ میں کہا۔

"لو بھائ مبارک ہو۔تمھاری لڑکی خیراتی کو پسند آگئ۔"دلال نے اس مسکین صورت آدمی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
"کتنے پیسہ "

۲۵" پچّیس ہجار "لڑکی کے والد نے سپاٹ لہجہ میں کہا۔ خیراتی کا چہرہ یکدم سیاہ پڑ گیا۔ منگو نے دلال کے کان میں سرگوشی کی۔ خیراتی کو کچھ سنائ نہی دیا۔ خواب بکھرنے لگے۔ ساحل پر آکر بھی منزل دور تھی۔ منگو نے خیراتی کو تسلّی دی اور اپنی جیب سے ۵ پانچ ہزار روپے نکال کر دلال کے ہاتھ میں رکھ دئے۔ خیراتی کا چہرہ کھِل گیا۔ منگو کے لئے اسکےدل میں تشکّر کے جزبات ابھر آئے۔اس نے منگو کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ گلا بھر آیا۔اس کے پاس شکریہ کے الفاظ نہیں تھے۔

دلال اور لژکی کے والد ایک کونے میں چلے گئے۔ دونوں نے کچھ باتیں کیں۔ پھر دلال نے ان روپیوں میں سے کچھ اپنی جیب میں رکھے۔اور مسکراتا ہوا خیراتی سے بولا۔

"مبارک ہو خیراتی شام کو تمھارا نکاح ہے۔"
نکاح کے بعد شبراتن انکے ہمراہ آگئ۔ راستہ کا خرچہ سب منگو نے اٹھایا۔خیراتی کا دل منگو کے پیر دھو دھو کر پینے کو چاہ رہا تھا۔ " یار ہو تو ایسا"

راستہ بھر خیراتی شبراتن کو نظر بھر بھر کر دیکھتا رہا لیکن شبراتن بے حِس سی بیٹھی رہی۔اسٹیشن پر اتر کر خیراتی نے منگو کا شکریہ ادا کیا۔

"یار منگو میں تیرا بہت احسان مند ہوں۔اپنی کھال کی جوتی بھی بنا کر پہناؤں تو کم ہے تیری وجہ سے میرا گھر بس گیا۔" خیراتی نے شبراتن کا ہاتھ پکڑا اور جانے لگا۔

منگو کے چہرے پر خبیث مسکراہٹ عود کر آئی۔ لپک کر شبراتن کا ہاتھ خیراتی کے ہاتھ سے چھڑا لیا۔

" میری جان ! منگو نے کبھی کچّی گولیاں نہیں کھیلیں۔ پہلے میرے پانچ ہجار روپے دے اور اپنی بیوی لے جا۔ تب تک یہ میرے پاس گروی ہے۔"

خیراتی اس افتاد پر ہکاّ بکّآ کھڑا رہ گیا۔شبراتن حیرانی اور پریشانی سے دونوں کو کو دیکھنے لگی۔ خیراتی ہاتھ جوڑ کر منگو سے التجا کرنے لگا۔

"ایسا جالم مت بن منگو۔ میں تیرے پیسہ جلد لوٹا دونگا۔میری بیوی دیدے یار۔"
"منگو نے گھاٹے کا سودا کبھی نیں کیا۔اس ہاتھ پیسہ دے اُس ہاتھ بیوی لے " منگو نے مکّاری سے کہا۔

خیراتی نے بہت منّت سماجت کی لیکن منگو پر کچھ اثر نہ ہوا۔ منگو سے ٹکّر لینا خیراتی کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ بھول گیا تھا کہ منگو تو پکّآ بدمعاش ہے۔اس نے منگو کو یار سمجھ لیا تھا۔ خیراتی کی آنکھوں میں امنگوں اور ارمانوں کی جو قندیلیں روشن ہوئ تھیں، وہ بجھ گئیں۔ شکستہ سا اپنی کھولی میں آگیا۔

بیچارہ اپنی بیوی کو حاصل کرنے کے لئے دن رات حمّالی کرتا۔ تپتی دھوپ، حد سے زیادہ محنت۔ایک دن چکّر کھا کر گر پڑا اور پیر ٹھیلے کے پہیّہ کے نیچے آکر زخمی ہو گیا۔ کئ مہینوں تک کام پر جانے کے قابل نہیں رہا۔ بھو کوں مرنے کی نوبت آگئ۔آخر کار وہ بھی ہاتھ پھیلا کر سڑک پر آگیا۔ لیکن یہاں بھی منگو کا دبدبہ تھا سارے فقیروں سے اسکا کمیشن بندھا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا اسے بھی دینا پڑا۔

آئے دن احسان جتانے آجاتا۔
"کھیراتی میرا احسان مان کہ تیری بیوی سے بھیک نہی منگواتا۔ رانی بناکر بٹھا رکھا ہے"

خیراتی خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ پیسہ کسی صورت جمع نہیں ہو رہا تھا۔ پانچ ہزار روپے جمع ہونے میں دو سال لگ گئے۔ جس دن ۵ہزار روپے جمع ہوئے اسی دن وہ منگو کے پاس اپنی بیوی مانگنے چلا گیا۔ورنہ منگو اتنا مردود تھا کہ اس۔ کو اپنے گھر کے آس پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتا تھا۔

شبراتن کی گود میں ایک بچہّ تھا اور ایک مٹیّ میں کھیل رہا تھا۔ شبراتن کو دیکھ کر اسکے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ بہت کمزور لگ رہی تھی۔
خیراتی نے منگو کے سامنے پیسہ رکھتے ہوئے کہا۔
"اب میری بیوی واپس کر "
"ابے کس کی بیوی کیسی بیوی،

اب تو یہ میرے بچّوں کی ماں ہے۔" منگو نے خیراتی کہ منہ پر اسکے پیسہ مارتے ہوئے کہا۔ خیراتی کے اتنی جدّوجہد اور محنت کے بعد جمع کئے ہوئے نوٹ فضا میں بکھر گئے۔
تب سے بیچارہ خیراتی اپنی بیوی کو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔

خیراتی نے دلگیر انداز میں اپنی روداد سنائ "صاب دیکھئے اس کی بے ایمانی میری بیوی ہجم کر گیا۔"ہم لوگ دم بہ خود کھڑے رہ گئے۔ انسان کو غریبی کیا سے کیا بنا دیتی ہے ساری اخلاقی قدریں دم۔توڑ دیتی ہیں۔ میں سوچتی رہ گئ۔

"صاب آپ ہی انصاپ کرو کہ اس نے پیسہ دینے میں اتنی دیر کیوں لگائ ! دریا سامنے ہو تو آدمی پیاسہ کیسے رہ سکتا ہے !" منگو کی چندی آنکھیں خباثت سے چمک رہی تھیں۔ میرے شوہر کیا جواب دیتے۔ایسا عبرت ناک مقدمہ تو آج تک انکے سامنے نہیں آیا۔ مجھے شرمندگی ہو رہی تھی گویا ساری عورت ذات کی تزلیل ہو رہی ہو اور یہ عورت ایسی بے حِس مجسّمہ کی طرح بیٹھی تھی گویا یہ رام کہانی اسکی نہیں کسی اور کی ہو۔ ہم سب سر جھکائے خامشی سے چلے آئے۔

لیکن مجھے کسی پل قرار نہیں تھا۔ عورت کیا اتنی سستی شہ ہے کہ قدیم زمانے سے جنس کی طرح بازاروں میں بیچی اور خریدی جاتی رہی۔ کبھی کوئ یدھشٹر اسے داؤں پر لگا دیتا ہے تو دریودھن اسکا چیر ہرن کرتا ہے۔وہ تفریح طبع کا سامان تو نہیں۔تخلیق کی اہم ذمّداری سونپ کر جنّت اس کے قدموں میں رکھ دی گئ۔ پھر وہ اتنی حقیر کیسے ہو گئ ؟آخر شبراتن کیا سوچتی ہے، داؤ پر لگنے کے باوجود اس کا اطمینان اور خموشی حیران کن تھی۔

میں دوسرے دن ہی اس کے پاس پہنج گئ۔ منگو خبیث نہیں تھا۔ شبراتن نے دزدیدہ نظروں سے دیکھا، اور چارپائ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں کھرّی چارپائ پربیٹھ گئ اور اپنے پاس شبراتن کو بٹھا کر نرمی سے پوچھنے لگی۔

" کل خیراتی اور منگو کو تمھارے لئے لڑتے دیکھا، لیکن مجھے حیرت ہے کہ تم خاموش تماشائی کی طرح بیٹھی دیکھتی رہیں" کچھ لمحوں بعد وہ سکون سے بولی۔

"تو کیا کریں ہم!جو دو روٹی دے گا اسی کے ہو رہیں گے۔"
میں حیرت سے اس کا منہ تکتی رہ گئ۔

"کیا تمھیں احساس نہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے کتنا بڑا گناہ ہے۔"

"بی بی جی گناہ اور ثواب کے بارے میں تب سوچیں جب پیٹ بھرا ہو، ہمارے لئے تو سب سے پہلے پیٹ کی بھوک مٹانا ہے۔"

"بھوک تو جانور بھی مٹاتے ہیں پھر انسان اور جانور میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔"

"آپ نے کبھی غریبی اور بھوک مری دیکھی ہے۔؟اتنی بڑی بڑی باتیں کرنا بھول جاتیں۔"

میں لاجواب سی ہو گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے