اردو کا نیر تاباں : ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی
از قلم : ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتا
سرزمین بہار پر بےشمار ادبی شہ پاروں نے جنم لیے، جن میں سے ایک معروف علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی بھی ہیں۔ ان کی ولادت یکم مارچ 1984 کو ہوئی۔ ان کا آبائی وطن ضلع سیتامڑھی کے وایا پریہار اور تھانہ بیلا کے تحت " پرسا " گاؤں ہے۔ ان کے والد الحاج مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی اور والدہ اختری خاتون ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ ضیاء العلوم السلفیہ میں حاصل کی۔ پھر مدرسہ احمدیہ سلفیہ بیرگنیاں، سیتامڑھی سے اکتساب علم کیا۔
موصوف نے جامعہ امام ابن تیمیہ چندنبارہ، مشرقی چمپارن سے عربی میں عالمیت وفضیلت کی اسناد حاصل کررکھی ہیں۔ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ سے بھی مولوی، عالم اور فاضل کی ڈگریاں بھی لے رکھی ہیں۔ ماشاءاللہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔ انہوں نے دینی علوم کے حصول کے بعد عصری علوم کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔ ایم اے (اردو) بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسٹی مظفر پور سے کیا جس میں انہیں امتیازی کامیابی ملی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی سے کی ہے ۔ ان کے ایم فل کے نگراں معروف ادیب و ماہر اقبالیات پروفیسر توقیر احمد خاں تھے جبکہ پی ایچ ڈی کے نگراں مشہور قلمکار، فنکار و ڈراما نگار پروفیسر محمد کاظم تھے۔
بلاشبہ ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی اردو زبان و ادب اور صحافت کے افق پر نیر تاباں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کئی اعتبار سے ممتاز ہے۔ وہ بیک وقت حافظ قرآن، عالم دین، شعلہ بیاں مقرر، بے باک صحافی، صاحب طرز ادیب، اچھے فکشن نگار، بہترین مبصر، معتبر ناقد و محقق ہیں۔ ساتھ ہی نہایت خلیق اور ملنسار انسان بھی ہیں۔ جو ان سے ایک مرتبہ مل لیتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی وادبی دنیا میں لوگ انہیں سرآنکھوں پر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی نے کبھی بھی تضیع اوقات نہیں کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی وہ ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں منہمک رہے۔ جامعہ امام ابنِ تیمیہ سے فراغت کے بعد مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ، بہار میں درس وتدریس کے فرائض انجام دینے میں مشغول ہو گئے۔ ڈاکٹر علامہ محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ جو دنیا ئے عرب وعجم کی مایہ ناز ہستی کی حیثیت رکھتے تھے، جن کے سینکڑوں تلامذہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، جنہوں نے تفسیر، حدیث، سیرت، فقہ اور دوسرے علوم و فنون میں درجنوں کتابیں تصنیف اور تالیف کیں، جنہوں نے جامعہ امام ابنِ تیمیہ جیسی مرکزی درسگاہ قائم کی، جہاں کے فارغین عرب و عجم میں پھیلے ہوئے ہیں، اتنی عظیم شخصیت کے عزیز تلمیذ ہونے کا انہیں شرف حاصل ہے۔ کچھ دنوں تک وہ ان ہی کی آفس ریاض سعودی عرب میں ان کی معیت و صحبت میں رہے اور علمی، ادبی، تخلیقی، تالیفی و تصنیفی خدمات انجام دیں، مگر دہلی یونیورسٹی، دہلی میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے لیے منتخب ہونے پر وہ وہاں سے رسرچ اسکالر کی حیثیت سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے دہلی آگئے، جہاں بھارت سرکار کی طرف سے پانچ برسوں تک انہیں وظیفہ ملا - اس دوران انہوں نے جتنا دل یونائیٹڈ کے سینئر لیڈر و ایم ایل سی ڈاکٹر خالد انور کے ساتھ دہلی میں ان کے اخبار روزنامہ" ھمارا سماج " میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر صحافتی خدمات انجام دیں۔اس کے علاوہ روزنامہ" اخبار مشرق " دہلی میں صحافی محمد وسیم الحق، روز نامہ "جدید خبر" دہلی میں معصوم مرادآبادی اور روز نامہ " عزیز الہند" نوئیڈا میں عزیز برنی کے ساتھ بھی انہیں صحافتی خدمات انجام دینے کی سعادت حاصل ہے۔
فی الحال وہ قو می تنظیم، پٹنہ میں سینئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اردو صحافت کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار نبھارہے ہیں۔ قومی تنظیم میں " اردو زبان و ادب ایڈیشن " بھی نکال رہے ہیں جو اپنی نوعیت میں بے مثال ہے۔ ڈاکٹر موصوف پٹنہ کے پھلواری شریف میں واقع ایک پلس ٹو اسکول مدرس انٹرنیشنل اکیڈمی اور بی ایڈ کالج مدرس انٹرنیشنل ٹیچرس ٹریننگ اکیڈمی میں بھی بخوبی فریضئہ درس وتدریس انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے پانچ کتابیں لکھ رکھی ہیں، جن میں سے تین شائع ہو چکی ہیں۔
ان کتابوں میں ایک " اردو صحافت کے فروغ میں مدارس کا حصہ"، دوسری " 1980 کے بعد اردو میں خود نوشت سوانح نگاری" اور تیسری" 1980 کے بعد اردو میں سوانح نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ" شامل ہیں جبکہ دو کتابوں کے مسودے طباعت کے لیے تیار ہیں۔ ملک و بیرون ملک کے اخبارات اور رسائل وجرائد میں تین سو سے زیادہ ان کے مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی نے دہلی اردو اکاڈمی، دہلی، غالب اکیڈمی، دہلی، بہار اردو اکادمی پٹنہ، اردو ڈائریکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکرٹیریٹ، راج بھاشا حکومت بہار اور دیگر اکادمیوں اور تنظیموں کے زیر اہتمام منعقدہ سیمیناروں میں شرکت کی ہے۔ موصوف کو ان کے دیرینہ علمی، ادبی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے، جن میں المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ سے ان کی کتاب " اردو صحافت کے فروغ میں مدارس کا حصہ" پر "اجمل فرید ایوارڈ" بھی شامل ہے۔
ادھر چند برسوں میں انہوں نے بہت ساری ادبی و علمی کتابوں پر گراں قدر تبصرے، تحقیقی، تنقیدی، علمی و ادبی مضامین قلمبند کئے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی افسانے بھی تحریر کئے ہیں، جن کی اردو دنیا میں قابلِ رشک پذیرائی کی جا رہی ہے۔ پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر ابنِ کنول، پروفیسر محمد کاظم، مشتاق احمد نوری، پروفیسر جاوید حیات اور پروفیسر منظر اعجاز اور راشد احمد جیسے نامور ادباء ودیگر کئی محبان اردو نے انہیں اردو کے افق پر ابھرتا ہوا ایک درخشندہ ستارہ ہونے کی باتسلیم کی ہے۔ ذیل میں ڈاکٹر سراج اللہ تیمی صاحب کی کتاب " اردو صحافت کے فروغ میں مدارس کا حصہ" سے چند اقتباسات پیش ہیں جن میں مذکورہ بالا شخصیات نے اعتراف کیا ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 22 پر محترم راشد احمد، معاون ایڈیٹر " قومی تنظیم " پٹنہ یوں رقمطراز ہیں: " برادرم ڈاکٹر محمد سراج اللہ نے صحافت کے فروغ اور معیار بندی میں مدارس کے کردار پر تحقیق کرکے بڑا کام کیا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے"۔ اسی کتاب کے صفحہ 20 پر ایس، ایم، اشرف فرید صاحب چیف ایڈیٹر روزنامہ " قومی تنظیم " پٹنہ، اپنے تاثر میں لکھتے ہیں: " ڈاکٹر محمد سراج اللہ ایک ادیب وخطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی بھی ہیں۔ ان کی علمی، ادبی اور صحافتی خدمات سے اردو دنیا واقف ہے۔" اسی طرح پروفیسر علیم اللہ حالی سابق صدر شعبہ اردو مگدھ یونیورسٹی " میرا تاثر " کے عنوان سے اپنی تقریظ میں لکھتے ہیں : " ڈاکٹر محمد سراج اللہ نے اپنے لیے جو راہ اپنائی ہے وہ اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس موضوع پر بہت کم کام ہوا ہے۔انہوں نے دینی مدارس، ان کے وابستگان اور فارغین کی صحافتی خدمات کا مطالعہ پیش کرکے یقینا ایک بڑی کمی پوری کرنے کی کوشش کی ہے"۔
ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی اردو کی خدمات نہایت بے لوث ہوکر انجام دے رہے ہیں، اللہ کرے یہ سلسلہ تاحیات جاری رہے اور انہیں اس کے لیے خوشگوار مواقع فراہم ہوتے رہیں۔میں آسمان اردو زبان و ادب اور صحافت کے اس نیر تاباں کو ان کی ادبی اور صحافتی خدمات کے لئے لیے صمیم قلب سے پرخلوص مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔ سراج اللہ بھائی کا قلم صحافت میں پوری طرح رواں دواں ہے اور وہ خاموشی سے بغیر کسی نمود و نمائش کے اپنے قلم کا جوہر دکھاتے رہیں جن کے لیے مصرعہ صادق آتا ہے
بارش کی علامت ہے جب ہوتی ہے ہوا بند
امید کرتی ہوں کہ ان شاءاللہ اردو کے اس در نایاب اور نیر تاباں کی چمک سے آسمان اردو زبان و ادب اور صحافت ضرور جگمگائے گا۔ میں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ سراج اللہ بھائی کو صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے! (آمین) اور شاعر کا یہ شعر ان کی نذر کرتی ہوں
دائم رہے قائم یہ تیرا جہد مسلسل
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
Mobil- 9088470916 Emai muzaffar.naznin.93@gmail.com
0 تبصرے