کفایت شعاری تقویٰ کی علامت
کنجوسی اور فضول خرچی کے درمیان میانہ روی سے خرچ کرنے کو کفایت شعاری کہتے ہیں۔کفایت شعاری میں زندگی ہے جبکہ فضول خرچی میں موت۔ کفایت شعاری میں برکت ہے فضول خرچی میں نحوست۔ کفایت شعاری اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے جبکہ فضول خرچی شیطانی عمل ہے اور تباہی کا باعث۔ قرآن میں فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔یہ کوئی معمولی جملہ نہیں ہے لیکن لوگ اپنی لاپرواہی سے ہر دن شیطان کے بھائی بن رہے ہیں۔ یہاں تک کہ فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بھی ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: ’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“۔ ( الاعراف، 7 : 31)
زندگی جیسے بھی گزاری جائے گزر جائے گی لیکن کیسے گزاری، آخرت میں اس کی پرشش ضرور ہوگی۔ آج ہر فرد کو اپنی زندگی میں بیجا ہونے والے خرچ کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔اس مہنگائی کے دور میں بھی مزین مکان بنانے کا دور چل پڑا ہے اپنے اور پرائے میں سینکڑوں لوگوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے۔ مضبوط مکانات کو توڑ کر لوگ محلوں کی تعمیر کو اپنی زندگی کا مقصد بنا چکے ہیں، الا ماشاءاللہ ۔کفایت شعار لوگ متوازن ذہن کے ہوتے ہیں اور وہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے۔
ترجمہ : ’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے‘‘۔
(بنی اسرائيل، 17 : 29)
کفایت شعاری زندگی گزارنے کا ایک خاص عمل
حقیقت میں کفایت شعاری زندگی گزارنے کا ایک ایسا عمل ہے، جو پریشانی کے دنوں میں ہماری مددگار بن کرکم خرچ میں جینا سکھاتی ہے، لیکن عام طور پر اِس کی اہمیت سے ہم واقف نہیں ہیں۔
یاد رکھیں اپنی آمدنی بڑھانا جتنا مشکل عمل ہے، اُس سے زیادہ دشوار اِس کو سلیقے سے خرچ کرنا ہے۔ اپنے گھر اور خاندان کی اقتصادی صورتِ حال کو منظم رکھ کر فضول خرچی نہ کی جائے، اسی کا نام کفایت شعاری ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے“۔
(مشکوۃ المصابیح، ج2، ص227، حدیث: 5067)
اس کی تشریح اس طرح ہے کہ خوشحال وہی شخص رہتا ہے، جسے کمانے کے ساتھ خرچ کرنے کا بھی طریقہ آتا ہو، کیونکہ کما نا تو سب کو آتا ہے لیکن خر چ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔(مراۃ المناجیح ملخصاً، 634/6)
ایک اور حدیث میں ہے:
” قیامت کے دن ہر فقیر اور مالدار اس کی تمنا کرے گا کہ( کاش) دنیا میں اسے صرف ضرورت کے مطابق رزق دیا جاتا۔
( سنن ابن ماجہ کتاب الزھد، باب القناعۃ، 4/442،حدیث: 235
بہت کم ایسے افراد ہونگے جو اپنی خواہشوں اور ضرورتوں کو دباکر کفایت شعار زندگی گزارتے ہیں، جن کے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہوتا ہے اور وہ اِس کے بعد بھی اپنی بیجا خواہشات کو دباتے ہیں اور حقداروں پر خرچ کرتے ہیں، ایسے لوگ سماج میں ہمیشہ سے کم رہے ہیں۔یاد رہے کہ ضروری اخراجات کو کم کرکے پیسہ جمع کرنا کفایت شعاری ہر گزنہیں ہے۔آج ہم ایسے لوگوں کو نمونہ بنا چکے ہیں جن کی زندگی کا معیار بلند ہے، خواہ اُس نے مال ودولت کے حصول اور خواہشات کی تکمیل کے لئے کوئی بھی غلط طریقہ اپنایا ہو۔
گھر کا قوام اگرچہ مرد ہوتا ہے لیکن اگر اُس کی بیوی سلیقہ مندی اور کفایت شعاری سے گھر چلائے تو گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے لیکن اس کے برعکس کسی گھر کا نظام چلانے والی بدسلیقہ یا فضول خرچ خاتون ہوتو اُس گھر میں ہمیشہ پریشانی قائم رہتی ہے۔کہیں مرد کفایت شعار ہے تو فضول خرچ بیوی نے گھر کو جہنم بنا رکھا ہے کہیں اس کے برعکس بھی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ ویسے بھی بیوی اور بچوں کی بیجا خواہشات کو پوری کرکے مرد جہنم خرید رہا ہے۔ فضول خرچی مال سے برکت کو ختم کرکے پیسے کی حلاوت کو برباد کر دیتی ہے۔ مال کی فراوانی کو برکت نہیں کہتے ہیں بلکہ مال کی قوت و صلاحیت کو برکت کہتے ہیں۔مال میں اللہ کی برکت شامل ہو تو کم آمدنی میں بھی سارے جائز کام آسانی سے نمٹ جاتے ہیں ۔
کفایت شعار انسان اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے
قرآن كريم میں اللہ اپنے نیک بندوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان فرماتا ہے۔
ترجمہ : ” اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہيں۔
(سورہ الفرقان : آیت 67)
کفایت شعاری خوش حال زندگی کی ضمانت
کفایت شعاری خوش حال زندگی کی ضمانت ہے اور شاہ خرچی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی فضول خرچی سے دامن بچاکر صبر، شکر، قناعت اور کفایت شعاری کی تعلیم دی گئی ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا یا بہترین کاوشوں کے بعد میسر آنے والے وسائل کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہے۔
کفایت شعاری کے بارے میں اقوال
کفایت شعاری کے بارے میں دانشوروں اور مفکروں کے بعض اقوال بھی مشہور ہیں مثلاً معروف انگریز مفکر "سوفٹ" کا کہنا ہے کہ کفایت شعاری سب سے بڑی دولت ہے۔ "شیخ سعدی" کا قول ہے کہ جس نے کفایت شعاری کو اپنایا، اُس نے حکمت ودانائی سے کام لیا۔"علامہ امام غزالی" نے بھی کہا ہے کہ کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہے۔
موجودہ حالات میں جہاں ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے تو دوسری طرف ویسے لوگ زیادہ پریشان ہیں جو اپنی زندگی میں میانہ روی سے محروم اور بے اعتدالی کا شکار ہیں۔ عیاشی کا سامان زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ’’اسٹیٹس‘‘ برقرار رکھنے کی ہوس زور پکڑنے لگی ہے۔ جبکہ افراط و تفریط، انتہاپسندی اور بے اعتدالی وہ معاشرتی اور اخلاقی خامیاں ہیں، جنہیں کبھی اور کہیں بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابل تعریف قرار دیا گیا ہے۔ افراط و تفریط اور بے اعتدالی چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو اور کسی بھی کام میں ہو، اس کے نتائج اور اثرات نقصان دہ اور مایوس کن ہوتے ہیں۔
یعنی خرچ کرنے میں ایسے کنجوس بھی نہ بنو کہ اپنے گھر والوں کو بھی جائز ضرورتوں سے محروم رکھو اور اتنے سخی بھی نہ ہو کہ سارا مال ایک دن میں خرچ کر ڈالو اور پھر سوال کرتے پھرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’خرچ کرنے میں میانہ روی کرنا نصف معیشت ہے۔‘‘ اسی بے اعتدالی اور افراط و تفریط سے انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی افراد قرض کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی ذہنیت کے لوگ آج قسطوں ( EMI پر سامان لینا ) میں سامان لے کر اپنی نسلوں کو قرض میں مبتلا کر رہے ہیں ۔ اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔ضرورت کی کوئی انتہا نہیں ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگر ہم محنت سے پیسہ کماتے ہیں تو کفایت شعاری سے کام لیں اور خوش خرم زندگی گزاریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں قناعت پسند زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
سرفراز عالم، عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373
0 تبصرے