Ticker

6/recent/ticker-posts

افسوس کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے

افسوس کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے

مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ،

7061674542

جہالت ایک تاریکی ہے جس کو چراغ یا کسی دیگر آلات روشنی سے دور نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس تاریکی کو دور کرنے کا واحد راستہ علم ہے، یوں اگر کہ لیا جائے کہ دنیا کے تمام اندھیروں کو یکجا کیا جائے اور جہالت کی تاریکی کو اس کے مد مقابل رکھا جائے تو فتح جہالت ہی کی ہوگی، کیوں کہ دیگر اندھیروں کیلیے قسم قسم کے الات روشنی ہے جس سے انسان اس اندھیر نگری میں بھی راہ پاسکتا ہے، اور اپنے منزل کی اور رواں دواں ہوسکتا ہے، لیکن جہالت کی تاریکی ایک ایسا دلدل ہے جہاں پھنسا ہوا انسان کامیابی کی تمام امیدیں بھول جاتا ہے، دنیا کے قدموں میں گرا پڑا رہتا ہے اور حیات مستعار حیوانیت کا لباس پہنے ملک عدم کا راہی ہوتا ہے پھر آگے کی منزلوں کا فیصلہ قدرت کے ہاتھوں ہوتا ہے۔


ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں اس میں جہالت کا تصور ہی نہیں ہے ہمارے مذہب کا آغاز ہی علم سے ہوا، چناچہ اگر ابتداء مذہب کی تاریخ پڑھیں تو حکم خداوندی، پیغام خدا وندی، پیام خداوندی،علم تھا، صاحب وحی سے کہا جارہا ہے (اقرأ)۔۔۔ پڑھئے۔۔ گویا یہ اشارہ تھا کہ دنیا میں اپنا وجود ثابت کرنے کیلیے سب سے پہلے علم درکار ہے بعدہ دیگر احکامات تم پر لاگو کیا جائے گا۔

زبان رسالت نے بھی اس کی گواہی دی اور پرزور انداز میں اس کی تاکید کی باقاعدہ مدینہ میں صفہ کے نام سے ایک تعلیم گاہ کا انتظام کیا گیا جسمیں تعلیم و تعلم کے علاوہ اور کوئی دوسرا مشن نہیں تھا، اور پھر مکمل شریعتِ اسلامیہ کی بنا ہی تعلیم بر قائم کی گئی۔


ساری حقیقتیں بالکل جگ ظاہر ہیں بس کمی افراد کی ہے، کامیابی کا ہار گلے میں ڈالے ہر شخص چکر کاٹ رہا در در کی ٹھوکریں کھارہا ہے در بدر بھٹکتا پھررہا ہے لیکن جو اصل کامیابی کی بنیاد ہے اسی سے بے خبر ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ پیٹ غذا سے بھرتا ہے لیکن اس سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسری چیزوں کی جستجو میں سرگرداں ہے اور پھر۔۔ بھوک بھوک کی رٹ لگائے پھررہے ہیں۔

زندگی کے گردو پیش کا جائزہ لیں تو ذلت و نکبت کا تاج ہمارے سروں پر ہے اور دنیا اپنے پیروں سے سر پر سجائے تاج کو ٹھوکر ماررہی ہے، احساس زیاں جاتا رہا غلامی ہی کو کامیابی سمجھ کر زمانے کے پاؤں تلے زندگی کا سہرا ڈال دئیے ہیں اور اسی میں مست و مگن ہیں۔


ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ ھم دنیا کے ٹھوکر میں رہیں، محکومی کی زندگی بسر کریں، ذلت کا خوگر ہوں،غلامی کا سہرا ہو، بلکہ ہم حاکم تھے، کامیابی قدم بوسی کیلیے قطاروں میں کھڑی رہتی، عزت و تکریم کا تاج ہمارے سروں پر تھا، دنیا جھک کر سلام کرتی تھی یہ اس وقت تھا جب زندگی تعلیم کی روشنی سے دمکتی تھی، علم کی روشنی زندگی کے گوشے گوشے سے نمودار ہوتی تھی جس سے بستیوں کی بستیاں منور ہو جاتی تھیں،۔ آج جب منہ موڑا تو نتیجہ سامنے ہے اور سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسی قوم تعلیم سے محروم ہے جس کے دین و شریعت کا آغاز ہی علم سے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ بقول اقبال

افسوس کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقرأ سے ہوا تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے