Ticker

6/recent/ticker-posts

گجرات انتخابی نتیجہ منظر پس منظر

گجرات انتخابی نتیجہ منظر پس منظر


یہ پارٹی پوری طرح سسٹم پر قابض آچکی ہے

محمد قمر الزماں ندوی

گجرات الیکشن کے نتیجہ پر تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے اندازسے تجزیہ کیا ہے اور ابھی بھی اس پر تجزیے آرہے ہیں۔ اس جیت پر بہت تعجب نہیں ہے، کیونکہ بی جے پی پوری طرح سسٹم پر قابض ہوچکی ہے، پورے ہندوستان میں تو نہیں، لیکن چند ریاستیں ایسی ہیں کہ وہاں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اب اس پارٹی کو وہاں جیت کے لیے بہت محنت کی ضرورت نہیں پڑے گی، سرمایہ دار طبقہ اس پارٹی کے حق میں مہربان ہے، پنجی پتی طبقہ اس پارٹی کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہے، ملک کی اکثیریتی آبادی کی ذہنیت ہندوتوا عناصر کی آئیڈیولوجی کی طرح ہوچکی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، خرید و فروخت اور چھل کپٹ کے ذریعہ حکومت حاصل کرنا، یا مسلم دشمنی کے ذریعہ اقتدار تک پہنچنا اس پارٹی کا وطیرہ ہے۔ مذھبی جنون اور ہندو مسلم منافرت کا افییم اس طرح پلا دیا گیا ہے کہ موروبی میں مچھو ندی ایک بڑا سانحہ ہوا، جس میں ایک سو چالیس لوگوں کی ہلاکت ہوئی، لیکن موروبی سانحہ میں اپنوں کی ہلاکت کو بھی لوگوں نے بھلا دیا اور اسی پارٹی کو ساتویں بار اقتدار کی کرسی تک پہنچا دیا۔


گجرات الیکشن کے نتیجہ کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بےروزگاری اور مہنگائی اور موروبی جیسا حادثہ اس پارٹی کو پریشانی میں نہیں ڈال سکتی، کیونکہ خود موروبی اسمبلی حلقہ سے بھاجپا کا امیداوار ۵۹,۲۱ فیصد ووٹ سے کامیاب ہوا۔

اس کے علاوہ گجرات میں بی جی پی کی جیت کی چند اہم وجوہات تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ہیں۔

کانگریس نے اور خاص طور پر راہل گاندھی نے اس الیکشن میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی، وہ بھارت جوڑو یاترا میں لگے رہے، جس کا فائدہ بہت ممکن ہے، آگے اس کو مل سکتا ہے۔

ریاست میں کانگریس کی کمزور قیادت رہی، کانگریس نےاس کمزوری کو یاتو محسوس نہیں کیا، یا پھر اسے ابھار نہیں سکی۔

گجرات میں بی جی پی کی جیت کی اہم وجہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا گجرات سے تعلق ہے۔ گجرات کے ووٹرز ہندو مسلم سب کے ذہن میں یہ بات ضرور تھی کہ یہ اپنے ہیں اور اگر انہیں اپنے صوبے میں شکست ہوتی ہے تو اس وقت ملک میں گجرات کا جو چرچہ، شہرہ اور معاشی و سیاسی حیثیت ہے، وہ ختم ہوجائے گی۔

ایک وجہ بی جے پی اور اس کے لیڈروں کی سخت محنت، جد وجہد اور جفاکشی ہے، کانگریس اس میں بہت پیچھے ہے۔ بھاجپا سنگھٹن مضبوط ہے، یہاں پارٹی اصل ہے، نیتا بعد میں۔ اس پارٹی کا ہر لیڈر پوری طاقت جھونک دیتا ہے، اور سنگ کی معاونت اور پشت پناہی تو اس پارٹی کو حاصل ہے ہی۔

ایک وجہ عام آدمی پارٹی کی موجودگی بھی رہی، اس سے بی جے پی کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بھاجپا کے کیڈر ووٹرز اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، جبکہ کانگریس کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد مفت ریوڑروں کے چکر میں عام آدمی پارٹی کے پاس چلی گئی۔

لیکن گجرات میں اس پارٹی کی جیت اور بعض دیگر جگہوں پر ہار سے یہ عندیہ اور اشارہ بھی صاف ہے کہ وزیراعظم اعظم کا جادو صرف گجرات میں چل سکا ہے، دوسری جگہ نہیں، اس لیے بی جے پی سکون اور چین میں نہیں ہے، پریشانی صاف دکھ رہی ہے کہ منظر نامہ اب کچھ بدلا بدلا سا ہے۔ اگر چہ گجرات کے ریکارڈ کامیابی نے زعفرانی پارٹی کی ساکھ کو سنبھال دیا ہے۔ جہاں اس پارٹی نے ۱۹۸۵ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی نمایاں کامیابی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، جس میں مادھو سنگھ سولنکی کی قیادت میں کانگریس نے ۱۴۹ / سیٹیں حاصل کی تھی،پچپن اشاریہ کچھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس بار بھاجپا نے ایک سو چھپن سیٹیں جیت کر اس ریکارڈ کو ختم کردیا، البتہ ووٹ فیصد کا ریکارڈ آج بھی کانگریس ہی کے نام ہے،بی جے پی کو تقریبا باون فیصد ووٹ ملے ہیں، دوسری طرف بہت جلد بھاجپا مغربی بنگال میں ماضی میں قائم سی پی ایم کا بھی ریکارڈ ختم کردے گی، بس کچھ ہی پیچھے ہے۔


بہرحال گجرات کے نتیجہ نے یہ ثابت کردیا کہ اگر بھاچپا یہاں کچھ بھی محنت نہ کرے، تو بھی آئندہ گجرات کے ووٹرز بلا کسی تردد اور غور و فکر کے وہ ہندوتوا کے نام پر زعفرانی پارٹی کو ہی جتائے گی، چاہے تجارت، معیشت کمزور ہی کیوں نہ ہوجائے اور بے روزگاری ان لوگوں کی کمر ہی کیوں نہ توڑ دے۔ اس ذہنیت کو بدلنے کے لیے دیگر پارٹیوں کو اور سیکولر عوام کو کتنی محنت کرنے پڑے گی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غور کیجئے کہ حالات کس رخ پر پہنچ گئے ہیں سوچ اور ذہنیت کتنی بدل چکی ہے۔

مشہور صحافی جناب پرواز رحمانی صاحب ایڈیٹر ہفتہ روزہ دعوت حیدر آباد نے موجودہ نتائج پر جو تبصرہ کیا ذرا اس کو بھی پڑھ لیجئے۔

حکمراں پارٹی میں یہ تبدیلی محسوس ہوتا ہے کہ بی جےبی جے پی یعنی آر ایس ایس نے اب لڑائی جھگڑوں، فسادات اور تخریبی کاموں سے براءت اور لاتعلقی ظاہر کرنا ترک کر دیا ہے۔اب وہ ان کاموں کا اعتراف اور اظہار علانیہ کرتی ہے۔

شاید وہ سمجھ گئی ہے کہ جب وہ ان کاموں کا اقرار کرتی تھی اس وقت بھی اس کے مخالف اس کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تھے اور حمایتی تو اس کے ان کاموں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ اب شاید (بزعم خود) اس کے حامیوں کی تعداد اتنی ہوگئی ہے کہ اسے دوسروں کی پروا نہیں رہی۔ اسے یہ بھی یقین ہوگیا ہے کہ اس کے حمایتی اس کے اصل ایجنڈے کو سمجھ چکے ہیں، اب انہیں کسی فریب کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا وہ نسل کشی اور دنگوں کا اقرار فخر کے ساتھ کرنے لگے ہیں۔ تازہ ثبوت وزیر داخلہ امیت شاہ کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ضلع کھیڑا کے مہودھا میں ایک انتخابی جلسے میں دیا کہ ’’کانگریس کی حکومت کے دور میں فسادی آزاد تھے، بات بات پر دنگے کرتے تھے، کانگریس ان کی حمایت کرتی تھی لیکن 2002میں ہم نے انہیں سبق سکھا دیا ہے چنانچہ اب گجرات میں مکمل امن و چین ہے‘‘۔
’’اچھے کام‘‘ پر ووٹ

گویا گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ٹرین میں آتشزنی فسادات بھڑکانے کے لیے کی گئی تھی پھر فسادات کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور یہ نسل کشی مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے کی گئی۔ امیت شاہ کا یہ بیان گواہی دے رہا ہے کہ مسلم مخالف فسادات ریاستی حکومت نے کروائے تھے اور ان میں بی جے پی (آر ایس ایس) کا پورا ہاتھ تھا۔ مسلمانوں کی نسل کشی کو سبق سکھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور یہ سبق سکھایا ہے بی جے پی اور اس کی ریاستی سرکار نے جس کے وزیر اعلیٰ مودی تھے۔ گجراتیوں کو فرقہ واریت اور مسلم دشمنی بی جے پی نے اچھی طرح سکھادی ہے۔ انہیں فرقہ وارانہ میل ملاپ اور سماجی یکجہتی سے اب کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے ریاست کے گزشتہ کئی انتخابات میں رپورٹروں نے کئی شہروں میں کئی گروپوں سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ریاست میں تو اگرچہ روزگار بہت کم ہے، عام لوگوں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے، مہنگائی بھی بڑھی ہے لیکن وہ ووٹ بہرحال بی جے پی (مودی) کو ہی دیں گے۔ کئی لوگوں نے وجہ بھی بتائی کہ مودی ’’ایک کام‘‘ بہت اچھا کر رہے ہیں، اور سبھی جانتے ہیں کہ وہ ’’اچھا کام‘‘ کیا ہے۔

اب کیا ہونا چاہیے

وزیر داخلہ نے مہودھا میں اسی ’’اچھے کام‘‘ کا حوالہ دے کر ووٹ مانگے ہیں۔ اس ’’اچھے کام‘‘ کا ذکر ایک بار ایک بڑے ٹی وی چینل نے بھی کیا تھا۔ چند سال قبل ایک سنسنی خیز رپورٹ میں اس چینل نے گودھرا کے کچھ فسادیوں کو پیش کیا تھا جنہوں نے برملا اظہار کیا کہ انہوں نے مسلم کش فساد میں حصہ لیا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ کس طرح دنگوں میں حصہ لیا تھا، کس کس طرح بے گناہ انسانوں کو مارا تھا اور ان دنگوں کے بعد گجراتیوں پر مسلم مخالف رنگ کس طرح چڑھ گیا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ مودی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے آخری دور میں گجرات میں جو سدبھاونا یاترا نکالی تھی وہ کسی شہر میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ بس مسلم علاقوں میں مسلمان اور کچھ دلت برادری کے لوگ شامل ہوتے رہے۔ یعنی گجراتی اس سلسلے میں اب مودی سے بھی سننے کو تیار نہیں۔ اس لیے کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ گجرات میں کانگریس کتنا بھی زور مار لے، جیتے گی بی جے پی ہی۔ اس کے ساتھ الیکشن کمیشن اور سرکاری ایجنسیاں بھی تو ہیں۔ بہرحال امیت شاہ کے بیان سے یہ قانونی نکتہ تو ابھرتا ہے کہ دنگے بی جے پی نے کروائے تھے چنانچہ عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔

نوٹ۔ مضمون نگار کی رائے سے قارئین کا اتفاق ضروری نہیں ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے