Ticker

6/recent/ticker-posts

انسانی زندگی پر ماحول اور صحبت کا اثر

خطاب جمعہ۔۔۔۲/ دسمبر

”صرف ماحول و معاشرہ ہی کیا انسان پر آب و ہوا اور مٹی و علاقہ کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں نیز خورد و نوش اور ستر ولباس پر بھی علاقہ اور آب و ہوا کے آثار نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر جگہ علاقہ، مٹی اور آب و ہوا کی الگ الگ تاثیر رکھی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ وہ تو بدیع السماوات و الارض ہے۔ اس کی خلاقی اور صناعی محیر العقول ہے۔“

انسانی زندگی پر ماحول اور صحبت کا اثر


محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ

حضرات دوستو اور بزرگو!
مثالوں اور تشبیہات و تمثیلات سے اگر کسی بات کو سمجھایا جائے تو بات زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے مثالوں اور تشبیہات کی مدد سے محسوسات کے ذریعہ غیر محسوس باتوں کو اور جانی اور دیکھی ہوئی حقیقتوں کے ذریعہ انجانی اور ان دیکھی حقیقتوں کو اس طرح سمجھایا ہے کہ عام آدمی بھی اسے سمجھ لے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحول کی اہمیت اور اس کے اثرات کو ایک مثال کے ذریعہ سے سمجھایا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انما مثل الجلیس الصالح و الجلیس السوء کحامل المسک و نافخ الکیر فحامل المسک اما ان یحذیک و اما ان تبتاع منہ و اما ان تجد من ریحا طیبۃ و نافح الکیر اما ان یحرق ثیابک و اما ان تجد ریحا خبیثۃ(مسلم کتاب البر و الصلۃ و الآداب)


نیک و بد ہم نشیں اور دوست کی مثال اسی طرح ہے جیسے مشک والا اوربھٹی پھونکنے والا،پس مشک والا یا تو تجھے مشک کا تحفہ دے دے گا یا تو اس سے مشک خریدے گا، یا پھر کم از کم اس کے پاس بیٹھنے سے تجھے عمدہ خوشبو تو سونگنے کو ملے گی ہی،اور بھٹی پھونکنے والا یا تو تیرے کپڑوں کو جلا دے گا اور یا ( کم از کم) اس کے پاس بیٹھنے سے تجھے بدبو سونگھنا پڑے گی۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو مثال دے کر سمجھایا ہے کہ انسانی زندگی میں ماحول و اطراف،اچھے برے لوگوں کی صحبت و ہم نشینی اور گردو پیش کا بڑا اثر پڑتا ہے، انسان جس ماحول میں رہتا ہے ویسے ہی اثرات اس کی زندگی پر پڑتے ہیں، انسان اگر میدانی اور ہم وار علاقہ میں رہتا ہے یا شہری اور متمدن ماحول میں رہتا ہے تو اس کی زندگی میں بھی وہ اثرات نمایاں رہتے ہیں۔ عموما وہاں کے لوگوں کا ذہن معتدل اور ہموار ہوتا ہے، ان کے اندر ضد، ہٹ دھرمی،شدت و سختی اور اجڈ پن نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو لوگوں پہاڑی، غیر ہموار اور جنگلی علاقوں میں رہتے ہیں یا دیہات میں رہتے ہیں تمدن اور مدنیت سے ان کا سابقہ نہیں پڑتا ان کے اندر گنوار پن،سختی اور شدت زیادہ ہوتی ہے، ذہنی اور فکری اعتدال سے عموماً وہاں کے لوگ محروم ہوتے ہیں۔ ایک حدیث شریف سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من سکن البادیۃ فقد جفا، جو دیہات کا رہنے والا ہوتا ہے یعنی دیہاتی آدمی وہ سچ مچ سخت مزاج اور ضدی ہوتا ہے۔


شروع شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بدوی صحابی ملنے آتے تھے ان کی گفتگو اور ان کا انداز کلام سخت ہوتا تھا، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کیمیا اثر نے ان کی زندگی اور ماحول میں ایک انقلاب برپا کر دیا پھر وہی صحابی دوسروں کے لئے اسوہ اور نمونہ بن گئے۔

معلوم یہ ہوا کہ انسان پر ماحول کا زبردست اثر پڑتا ہے۔ جو خارجی عوامل انسان پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر دو ہیں ایک ماحول دوسرا تعلیم۔ تعلیم کے اثرات انسانی زندگی میں کس قدر نمایاں ہیں یہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں خاندان کا اگر ایک بچہ پڑھ لکھ کر کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ بڑا بن جاتا ہے تو صرف گھر اور خاندان ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں میں تبدیلی اور انقلاب آجاتا ہے۔


دوسری چیز ہے ماحول: ماحول کے اصل معنی تو ہیں گرد و پیش کے،لیکن ماحول کامطلب یہ ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان رہتا ہے،فکر و نظر اور عملی زندگی میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کو ایک مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پانی کی اصل فطرت ٹھنڈا ہونا ہے،وہ نہ صرف خود ٹھنڈا ہوتا ہے،بلکہ دوسرے کو بھی ٹھنڈک پہنچاتا ہے لیکن جب سخت گرمی، لو اور تپش کا موقع ہوتا ہے اور دھوپ کی حدت و شدت اور اس کی تمازت بڑھ جاتی ہے تو پانی بھی گرم ہو جاتا ہے اور پینے والوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔ اسی طرح انسان پر ماحول کا اثر پڑتا ہے۔ اگر اس کو نیک،شریف اور بااخلاق لوگوں کا ماحول میسر آتا ہے تو اس کی فطری صلاحیت، تقوی اور نیکی پروان چڑھتی ہے اور اس کی خوبیاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے پانی میں برف ڈال دیا جائے کہ اس سے اس کی ٹھنڈک اور بڑھ جاتی ہے۔ اور پھر یہ پانی پیاسوں کے لئے اکسیر بن جاتا ہے۔ اور اس کے برعکس اگر انسان کو ماحول غلط ملے تو وہ خراب ہوجاتا ہے اور اس کے اندر جو خوبیاں ہوتی ہیں وہ بھی بتدریج ختم ہوجاتی ہیں۔ اس کی مثال اس صاف و شفاف پانی کی ہے جس کے اندر کسی نے گندگی ڈال دی ہو۔


یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ انسان فطرتاً نیک ہوتا ہے اس کی فطرت میں بنیادی طور پر خیر ہی کا غلبہ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شخص سچائی،عدل،انصاف،دیانت داری،مروت اور شرم و حیا کو قابل تعریف سمجھتا ہے اور ان اوصاف و کمالات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے،اس کے مقابلے میں جھوٹ، ظلم، خیانت بے حیائی و بے مروتی بخل اور لچڑ پنی کو ناپسند کرتا ہے۔ ایک آدمی اگر جھوٹ بولتا ہے لیکن کوئی دوسرا اس کو جھوٹا کہہ دے تو اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اپنے کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان بے حیائی کا کام کرتا ہے لیکن اپنے عمل پر پردہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ یہ در اصل فطرت کی آواز ہے۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام پر پیدا ہوتا ہے یعنی خدا کی فرمانبرداری کے مزاج پر پیدا ہوتا ہے،لیکن اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ ( مسند احمد: ۱۸۱۷)

معلوم یہ ہوا کہ خارجی حالات کی وجہ سے بہت دفع انسان اپنی اصل فطرت سے ہٹ جاتا ہے اور وہ فطرت کے خلاف چیزوں کو اختیار کرنے لگتا ہے بلکہ کر لیتا ہے۔

انسانی زندگی پر ماحول و معاشرہ اور صحبت کا اثر

ماحول و معاشرہ (خاندان و قبیلہ) اور سوسائٹی کا اثر انسانی زندگی پر بہت گہرا اور دیر پا ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عموما انسان ماحول اور معاشرے ہی کی پیدا وار ہوتے ہیں، بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سوسائٹی اور اپنے ماحول و اطراف سے بلند ہوکر فکر و عمل کی صلاحیت رکھتے ہوں، عام طور پر ماحول اور معاشرے کا جو رنگ،ڈھنگ اور آہنگ ہوتا ہے اور سوسائٹی میں جو رسم و رواج اور طرز معاشرت اور زندگی گزارنے کا طور و طریقہ ہوتا ہے افراد بھی شعوری و غیر شعوری طور پر اسی رنگ ڈھنگ میں رنگ جاتے ہیں اور اسی قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔


انسان پر گھر سے باہر کے ماحول میں سب سے زیادہ جن کا اثر پڑتا ہے وہ دوست و احباب اور ساتھی ہوتے ہیں۔ مشاہدہ یہی ہے کہ انسانی زندگی اور اس کے کردار و اخلاق پر سب سے گہرا اثر ہم عمر ساتھیوں اور دوستوں کا پڑتا ہے، ساتھیوں کی ذہنیت اور پسندیدگی و ناپسندیدگی کا معیار،ان کے رجحانات و میلانات انسان پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : المرء علی دین خلیلہ،فلینظر حدکم من یخالل (ترمذی )

آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوٹوک الفاظ میں متنبہ فرمایا: ایاک و قرین السوء کنت بہ تعرف ( ابن عساکر) تم برے ساتھی سے بچو کیوں کہ تم بھی اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔


صرف ماحول و معاشرہ ہی کیا انسان پر آب و ہوا اور مٹی و علاقہ کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں نیز خورد و نوش اور ستر ولباس پر بھی علاقہ اور آب و ہوا کے آثار نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر جگہ علاقہ، مٹی اور آب و ہوا کی الگ الگ تاثیر رکھی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ وہ تو بدیع السماوات و الارض ہے۔ اس کی خلاقی اور صناعی محیر العقول ہے۔

مجھے یہاں بچپن کی سنی ہوئی ایک کہانی یاد آرہی ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جب ماحول اور آب و ہوا کے اثرات پر گفتگو چل رہی ہے تو اس کا بھی ذکر کردوں۔

ایک بار ایک مسلم بادشاہ جنگی مہم پر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ نکلا،مہم پر نکلنے سے پہلے حسب عادت اپنی والدہ سے ملنے اور دعائیں لینے گیا، والدہ نے ڈھیر ساری دعائیں دیں اور نصیحت و وصیت بھی کی اور خاص طور پر تلقین کی کہ بیٹا ! نماز کی پابندی کرنا اور فجر کی نماز کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرنا۔


بادشاہ اپنے لاؤ لشکر اور فوجیوں کے ساتھ نکلا اور جب اس علاقہ اور شہر تک پہنچ گیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا تو پہلی رات جب وہ خیمہ میں سویا ہوا تھا فجر کی نماز قضا ہوگئی یا تاخیر سے ادا کی۔ اس کو بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ والدہ کی نصیحت پر پہلے ہی دن عمل نہیں کرسکا وہ بہت مضطرب اور پریشان ہوا اور ذہن میں یہ بات آئی کہ یہاں کی مٹی میں کوئی ایسی تاثیر تو نہیں ہے؟ سال دو سال کے بعد جب بادشاہ مہم فتح کرکے اور علاقہ پر قابض ہو کر دار الحکومت لوٹا تو اپنے ساتھ انہوں نے وہاں کی تھوڑی سی مٹی بھی لے لی۔ واپسی پر والدہ سے ملاقات کی اور مہم اور لڑائی کی پوری تفصیلات سنائی اور پہلے ہی دن فجر کی نماز قضا ہونے یا تاخیر سے ادا کرنے کا بھی ذکر کیا۔ والدہ کی خدمت سے فارغ ہوکر انہوں نے چپکے سے وہ مٹی ماں کے تکیہ کے نیچے رکھ دی اتفاق دیکھئے کہ اس دن ان کی والدہ کی نیند بھی دیر سے کھلی اور بالکل اخیر وقت میں فجر کی نماز پڑھ سکیں، صبح کو بادشاہ جب والدہ جان سے ملنے گیا تو ماں بولی بیٹا ! آج میری بھی آنکھ دیر سے کھلی اور کسی طرح فجر ادا کر سکی۔ بادشاہ نے تکیہ کے نیچے سے وہ مٹی اٹھائی اور والدہ کو دکھائی کہ یہ اس مٹی کی تاثیر ہے۔ میں یہ مٹی وہاں سے اپنے ساتھ لایا تھا۔


اس واقعہ کی صداقت اور حوالہ پر مت جائیے بچپن کا سنا ہوا ایک واقعہ تھا جو موضوع سے ہم آہنگ تھا اس لئے اس کو ذکر کر دیا۔ لیکن یہ تو درست ہے کہ ماحول،خاندان اور آب و ہوا نیز مٹی کے اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔ ماحول و معاشرہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن و حدیث میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ انسان اچھے ماحول میں رہے اور خراب ماحول سے اپنے کو بچائے۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور تم راست گو اور راست عمل لوگوں یعنی سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔ یا ایھا الدین امنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین ۔( توبہ ۹۱۱)


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد صحابۂ کرام کو حکم دیا اور تمام مسلمانوں پر یہ ضروری اور لازم کیا کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئیں چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ اس حکم کے ملتے ہی حجاز بلکہ جزیرۃ العرب کے طول و عرض سے صحابہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے اور یہیں مقیم و آباد ہو گئے۔ لیکن جب فتح مکہ کا موقع آیا تو ایسا نہیں ہوا کہ پورا مدینہ خالی ہوگیا ہو بلکہ مدینہ کا تحفظ خطرہ میں نہ پڑ جائے، اس لیے بہت سے بوڑھے بچے عورتیں اور جوان مدینہ ہی میں رہے۔ علماء4 کرام نے لکھا ہے کہ ہجرت کے حکم کی بنیادی وجہ اور سبب یہی تھا کہ لوگوں کو ایک معیاری اسلامی، دینی اور ایمانی ماحول ملے۔ انہیں پاکیزہ معاشرہ نصیب ہو، وہ لوگوں کو دیکھ کر دین و ایمان کو سیکھ سکیں اور اس ماحول میں رہ کر اعلی اور عمدہ اخلاق کا نمونہ پیش کرسکیں۔ دین اور دنیا کو شریعت کے مطابق کیسے برتیں اس کو جان سکیں۔ یہ ماحول ہی کا اثر تھا کہ جہاں کے لوگ ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، بے حیائی و بے شرمی اور شراب و کباب کے لئے مشہور تھے،جو چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر برسوں جنگ کرتے تھے، جہاں بعض خاندان اور قبیلے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے اور جہاں لوگ اپنی اولاد کو انتقام لینے کی وصیت کرتے تھے، انہوں نے ایک ایسا پاکیزہ و ایمانی معاشرہ اور ایسی بلند سوسائٹی کا نقشہ چھوڑا کہ انبیاء کرام کے سوا زمین کے سینے پر اور آسمان کے سائے میں اس کا کوئی نمونہ نہیں ملتا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بافیض صحبت اور ماحول کا ہی اثر تھا۔ ( مستفاداز: بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟ )


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز سے اور مختلف طریقوں پر ماحول سازی اور معاشرے کو دینی،ایمانی اور اسلامی بنانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف یہ حکم دیا کہ نیک لوگوں سے تعلق رکھو، ان کی صحبت اختیار کرو۔ نیک لوگوں کو اپنے دسترخوان پر بلاو اور دوستی اور دوست کے انتخاب میں نیکی اور شرافت کو بنیاد بناو یعنی نیک لوگوں سے دوستی کرو، وہیں اس کے لئے کہ گھر کا ماحول بھی پاکیزہ اور دینی و ایمانی رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرض نمازوں کے علاوہ دوسری نمازیں سنت و نوافل گھر میں پڑھو۔ فقہاء اور اہل علم اس کو افضل بتایا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے : فصلوا ایھا الناس فی بیوتکم فان افضل صلاۃ المرء فی بیتہ الا المکتوبۃ (بخاری شریف حدیث نمبر ۷۲۹۰) اے لوگو! ان نمازوں کو اپنے گھر میں پڑھا کرو اس لئے کہ پنجگانہ نماز چھوڑ کر انسان کی سب سے بہتر نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اور ارشاد منقول ہے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو،اس کو قبرستان نہ بناو ( مسلم شریف حدیث نمبر ۷۷۷)


فقہاء کرام نے بھی کتب فقہ میں یہ بات لکھی ہے کہ فرض نمازوں کے پہلے اور بعد میں جو سنتیں ہیں انہیں گھر میں ادا کریں۔ و الافضل فی السنن القبلیۃ و البعدیۃ اداؤھا فی المنزل۔ ( حاشیہ الطحطاوی ۱/ ۰۲)

غور کیجئے کہ مسجد سے زیادہ محترم، قابل تقدیس اور پاکیزہ جگہ کون سی ہو سکتی ہے اور نماز جیسی مہتم بالشان عبادت کے لئے کون سی جگہ اور مقام ہے جو اس سے زیادہ موزوں اور مناسب ہو،اس کے باوجود آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن و نوافل کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی وجہ جو بالکل صاف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے گھر کا ماحول دینی بنے گا بچے اور گھر کے دیگر افراد بڑوں کو نماز پڑھتے ہوئے اور دعا و تسبیحات میں دیکھیں گے تو وہ بھی نماز پڑھیں گے، بچے بڑوں کی نقل اتاریں گے اور بچپن ہی سے نماز کی اہمیت اور عظمت ان کے دل میں بیٹھ جائے گی اور گھر کا ماحول بھی نماز والا ماحول بنا رہے گا۔


اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خاص طور پر اس کی ترغیب دی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کیا کریں چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ بلکہ اس میں تلاوت کیا کرو خاص کر سورہ بقرہ کی۔جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔

گھر کے اندر تلاوت کا ماحول بنانے سے ماحول پاکیزہ بنتا ہے اور اس طرح دینی ماحول بنانے میں قرآن مجید کی تلاوت بہت مفید اور موثر ہوتی ہے۔ بچے کے ذہن میں یہ بات بیٹھتی ہے کہ گھر کے اندر تلاوت کرنا عبادت اور ثواب کا کام ہے اس لئے ہمیں بھی تلاوت کرنی چاہیے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے اندر ذکر کرنے کی فضیلت بیان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مثل البیت الذی یذکر اللہ فیہ،و البیت الذی لا یذکر اللہ فیہ مثل الحی و المیت۔ ( مسلم شریف حدیث نمبر ۹۷۷)


جس گھر میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور جس گھر میں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ شخص کی ہے۔ اسی طرح شریعت نے اس بات کو بہتر قرار دیا اور پسند کیا کہ گھر میں بھی کوء خاص جگہ نماز کی ادائیگی کے لئے ہو۔ اگر نماز پڑھنی ہو تو کوشش کرے کہ وہیں نماز پڑھے۔ حدیث اور فقہ کہ کتابوں میں اس جگہ کو مسجد البیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ماحول کو بگاڑ و فساد سے بچانے کی تدبیر کے طور پر شریعت کے اس حکم کودیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے مکان یا زمین کے پڑوس میں مکان یا زمین فروخت کی جائے تو پڑوسی کو اس میں حق شفعہ حاصل ہوتا ہے،اگر پڑوسی وہی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو،جو قیمت دوسرا دے رہا ہے تو اس کو پڑوسی کے ہاتھ ہی بیچنا واجب ہے۔

نوٹ۔ اس خطاب جمعہ کو زیادہ سے زیادہ ائمہ و خطباء حضرات تک شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے