Ticker

6/recent/ticker-posts

جو خدا کے لیے ہو جاتا ہےخدا اس کے لیے ہو جاتا ہے

اتر سکتے ہیں، گردوں سے قطار اندر، قطار اب بھی

جو خدا کے لیے ہو جاتا ہےخدا اس کے لیے ہو جاتا ہے

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ

قرآن مجید کی جب یہ آیت نازل ہوئی "من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا۔۔" کون شخص ہے ایسا،جو قرض دے اللہ کو اچھا قرض، الخ جس میں ایک بلیغ عنوان میں خیرات و صدقات اللہ کو قرض دینے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس بلیغ عنوان میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ یہاں دو گے اس کا بدلہ آخرت میں ایسا یقینی ہوکر کر ملے گا، جیسے کسی کا قرض ادا کیا جاتا ہے۔۔ ایک جاہل یا معاند یہودی نے اس کو سن کر یہ الفاظ کہے "ان اللہ فقیر و نحن اغنیآء" بیشک اللہ محتاج ہے اور ہم لوگ غنی اور بے نیاز ہیں۔۔ تو اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کی گستاخی پر غصہ آیا اور یہودی کے ایک طمانچہ رسید کیا، یہودی نے رسول ﷺ سے شکایت کی، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، لتبلون فی اموالکم و انفسکم۔۔ جس میں مسلمانوں کو بتلایا گیا کہ دین کے لیے جان و مال کی قربانیوں سے اور کفار و مشرکین اور اہل کتاب کی بد زبانی کی ایذاوں سے گھبرانا نہیں چاہیے، یہ سب ان کی آزمائش ہے، اور اس میں ان کے لیے بہتر یہی ہےکہ صبر سے کام لیں اور اپنے اصل مقصد تقویٰ کی تکمیل میں مصروف رہیں، ان کی جواب دہی کی فکر نہ کریں۔ ( معارف القرآن جلد ٢/ تفسیر سورہ آل عمران)

اسی آیت مبارکہ کے پس منظر اور شان نزول کو کچھ فرق کیساتھ صاحب روح البیان نے یوں بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی' عنہ ایک روز چلتے پھرتے مدینے میں یہودیوں کے محلے میں پہنچ گئے۔

وہاں ایک بڑی تعداد میں یہودی جمع تھے۔
اس روز یہودیوں کا بہت بڑا عالم "فنحاس" اس اجتماع میں آیا تھا..صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فنحاس سے کہا

"اے فنحاس ! اللہ سے ڈر اور اسلام قبول کرلے.. اللہ کی قسم ! تو خوب جانتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں۔

تم یہ بات اپنی تورات اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہو.."اس پر فنحاس کہنے لگا.. "وہ اللہ جو فقیر ہے' بندوں سے قرض مانگتا ہے اور ہم تو غنی ہیں.." غرض فنحاس نے یہ جو مذاق کیا تو قرآن کی اس آیت پر اللہ کا مذاق اڑایا
(من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا سورہ البقرہ ٢٤٥)

صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ اللہ کا دشمن میرے اللہ کا مذاق اڑا رہا ہے تو انہوں نے اس کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور کہا

اس اللہ کی قسم جس کی مٹھی میں ابوبکر کی جان ہے !! اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا..

فنحاس دربار رسالت میں آگیا کہنے لگا
اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( دیکھئے ! آپ کے ساتھی نے میرے ساتھ اس اور اس طرح ظلم کیا ہے.."اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا.. "آپ نے کس وجہ سے اس کے تھپڑ مارا..؟

"صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس اللہ کے دشمن نے بڑا بھاری کلمہ بولا.. اس نے کہا اللہ فقیر ہے اور ہم لوگ غنی ہیں

اس نے یہ کہا اور مجھے اپنے اللہ کے لئے غصہ آگیا چنانچہ میں نے اس کا منہ پیٹ ڈالا۔

یہ سنتے ہی فنحاس نے انکار کردیا اور کہا. . "میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی

"اب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دینے والا کوئی موجود نہ تھا۔

یہودی مکر گیا تھا اور باقی سب یہودی بھی اس کی پشت پر تھے یہ بڑا پریشانی کا سماں تھا مگر اللہ نے اپنے نبی کے ساتھی کی عزت وصداقت کا عرش سے اعلان کرتے ہوئے یوں شہادت دی۔

لَقَد سَمِعَ اَللَّہُ قَولَ الَّذِینَ قَالُو ااِنَّ اللَّہ َ فَقِیر وَنَحنُ اَغنِیَاء..اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں
(آل عمران : ۱۸۱(سیرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
بحوالہ تفسیر روح البیان)

صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اللہ کی گستاخی پر رب کے دشمن کے طمانچہ مارا اور جب صدیق کی صداقت پہ حرف آنے لگا تو رب تعالیٰ نے صدیق کی صداقت و عزت کی پاسداری کا عرش سے اعلان کردیا۔

قیامت تک کے لیے یہ خدائی ضابطہ اور اعلان ہے کہ جو اللہ کے لیے ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ اس کا ہو جائے گا ۔ شرط یہ کہ بندہ اپنی نماز اپنا حج اپنا روزہ، اللہ کے راستے میں لینا،دینا خرچ کرنا،اپنا عمل اپنی دعوت اپنی تبلیغ اپنی قربانی اپنی خوشی اور ناراضگی، دینا لینا اور روکنا اور منع کرنا یہ سب کچھ اللہ کے لیے کر لے، اس میں اپنی غرض یا خواہش کو بندہ شامل اور داخل نہ کرے۔۔۔

آج اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نصرت، مدد اور تعاون نہیں آرہا ہے، اور اللہ کی غیرت کو ہماری مظلومیت پر جو جوش نہیں آرہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کا دینی، شرعی اور دعوتی کام بھی ذاتی مفاد اور نفسانیت سے جڑ گیا ہے، ہم دینی کام کو بھی دنیاوی مفاد اور غرض سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، ہوس چھپ چھپ کر سینوں میں تصویریں بنانے میں مصروف ہے، پھر براہمی نظر کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟

آج بھی ہمارے اندر صدیقی جذبہ و غیرت پیدا ہوجائے، فارقی جاہ و جلال، عثمانی حیاء و سخاوت اور اسداللہی قوت پروان چڑھ جائے اور ہم اپنے ذاتی مفاد و اغراض سے اٹھ کر دین کی خدمت اور حمایت میں اتر جائیں، تو آج بھی خدائی مدد، اور نصرت آسکتی ہے، فضائے بدر کا سماں آج بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ ہماری عزت و مرتبہ کی پاسداری کے لیے عرش سے اشارہ ہو سکتا ہے، فرشتے مدد کو اتر سکتے ہیں، ابابیل حفاظت کو آسکتے ہیں۔۔ کیونکہ آج بھی غیب سے یہ صدا آرہی ہے کہ

فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے