Ticker

6/recent/ticker-posts

علیزے نجف کا مظفر نازنین سے انٹرویو

علیزے نجف کا مظفر نازنین سے انٹرویو

انٹرویو نگار: علیزے نجف

سوال ۱- سب سے پہلے آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کا تعلق کس خطے سے ہے؟ اورآپ اس وقت کہاں سکونت پذیرہیں؟

جواب : میرا پورا نام مظفر نازنین ہے۔ میں پیشے سے ڈاکٹر ہوں اور سائنس کی طالبہ ہوں۔ Class XII تک اردو 1st Language کے طور پر پڑھا ہے۔ بس اردو سے ایک محبت ہے۔اس لیے گذشتہ 17 سالوں سے تعلیم، کریئر، قومی یک جہتی کے حوالے سے مضامین لکھتی ہوں۔ اور یہ تمام مضامین میں اس تجربے کے بنیاد پر لکھی ہوں جو مجھے ایک اسکول میں دوران تدریس ملی تھی۔ جب میں میڈیکل اسٹوڈنٹ تھی تو اس زمانے میں ایک اسکول میں سائنس ٹیچر تھی۔ میری پیدائش وطن عزیز ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال کے شہر کولکاتا میں ہوئی۔ میں ماشاء اللہ شوہر اور بیٹے کے ساتھ شہر کولکاتا میں سکونت پذیر ہوں۔


سوال ۲- آپ نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کس طرح کے ماحول میں گزارے، اس ماحول میں کیا خاصیت تھی جو اب آپ کو نظر نہیں آتی۔ کیا انسانی قدریں وقت کے ساتھ پامال ہوئی ہیں یا ان میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟

جواب : میری پیدائش middle class اور highly conservative family میں ہوئی۔ میرے والد صاحب accountant تھے۔ تقسیم ہند کے بعد لکھنؤ سے کولکاتا آئے اور پھر کولکاتا میں مقیم ہوگئے۔ والد صاحب کی اردو بہت اچھی تھی۔ زبان پر عبور حاصل تھا۔ اچھے مضامین لکھ لیتے، تُک بندیاں کرلیتے۔ مجھے لگتا ہے ان کے اندر ایک شاعر چھپا تھا۔ لیکن زندگی کے تک و دوخاندان کی کفالت اور بچوں کی پرورش میں الجھ کر رہ گئے۔ میرے کرئیر اور میری شخصیت پر بہن بھائیوں کا بہت اثر ہے۔ جس ماحول میں میری پرورش ہوئی۔ اس میں بڑے بھائی نیر نشاط (MBBS, Hons) کا بہت بڑا رول ہے۔ میرے تین بھائی ہیں اور ہم لوگ دو بہنیں ہیں۔ بالخصوص یہاں بھائی جان ڈاکٹر نیر نشاط کا ذکر کرنا لازمی ہے جو اپنے زمانے کے کافی ذہین اور فطین طالب علم تھے اور بغیر کسی پرائیوٹ ٹیوشن کے پڑھائی کرتے اور شاندار رزلٹ ہوتا۔ یہاں تک کہ انہوں نے جوائنٹ انٹرنس امتحان میں کامیابی حاصل کی اور کلکتہ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس (فرسٹ ائیر) میں داخلہ ہوا۔


میں بھائی جان سے تقریباً 12 سال چھوٹی ہوں۔ یعنی جب میں نے ہوش سنبھالا تو انہیں کالج اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے ہی دیکھا۔ جب میں اسکول میں تھی تو بھائی جان میڈیکل کالج میں تھے اور میڈیکل میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے گھر میں ایک کوچنگ سینٹر (کلکتہ مسلم کوچنگ سینٹر) کا قیام کیا۔ جہاں ہمارے گھر Class V سے Class XII تک کے طلبا کوچنگ کلاس (بالخصوص سائنس سبجیکٹ فرکس، کیمسٹری، بایولوجی اور میتھمیٹکس) پڑھاتے تھے۔

یہ سلسلہ تقریباً 9 سال تک جاری رہا یعنی میں Class II میں تھی اس وقت سے Class XIIتک(چوں کہ گھر میں کوچنگ سینٹر تھا اور Class V سے لیکر Class XII تک طلباو طالباتBatchwiseپڑھتے تھے۔ شایدوہ زریں دور، وہ سنہرا ماحول اور بہترین رہنمائی (precious guidance) میرے زمانہئ طالب علمی کا بہت اہم دور ہے کہ جب بھائی جان شام 4 بجے سے ٹیوشن پڑھانا شروع کرتے تو رات کے 10 بجے تک ٹیوشن چلتا رہتا۔ اور میں صرف اس کمرے کے ایک کونے میں اپنی کرسی اور میز پر ہر batch کے ساتھcoachingمیں شامل رہی۔ اور ہر class کو follow کرتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ senior classes میں promotion سے پہلے میرے سائنس سبجیکٹ مکمل رہتے اور junior classes کے ساتھ previous lessons (سابقہ chapter) بھی ذہن نشین ہو جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ میرا رزلٹ (academic performance) اچھا ہوتا۔ اور شاید اس طرح کا ماحول جو مجھے پیسے نہ خرچ کر کے ملے اور بھائی جان اپنے students کو پڑھاتے نتیجتاً لاشعوری طو پر unintentionally ایک اچھا ماحول اور شاندار کوچنگ ملی جو میرے گھر پر تھی۔ جو شاید ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی نصیب نہیں ہوتی ہے۔


میں خود کو اس سلسلے میں خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ lower middle class فیملی سے تعلق ہونے کے باوجود مجھے گھر میں تعلیمی ماحول (academic environment) ملی۔

میں جس ماحول میں پیدا ہوئی تھی وہ آج کا ڈیجیٹل ورلڈ نہیں تھا، بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ اس زمانے میں رشتے داروں، عزیزوں سے خاصی قربت رہتی۔ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کو جاتے لیکن آج شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے۔ عزیزوں اور رشتے داروں کے لیے آج ہمارے پاس وقت نہیں۔ بہت زیادہ ممکن ہوا تو سوشل میڈیا Messenger, Whatsapp پر خیریت دریافت کر لی۔ یہ منفی پہلو ہے۔

تعلیمی اعتبار سے دیکھیں تومثبت پہلو سامنے آئی ہے۔ ہمارے زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم پر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ آج اس کی کافی اہمیت ہے جو بلا شبہ مثبت پہلو ہے۔ Women's education, Women Empowerment بہت تیزی سے سماج میں develop ہو رہا ہے۔

سوال ۳- آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی؟ آپ کی تعلیمی شعبے کا انتخاب کیا آپ کا اپنا تھا یا فیملی کی خواہش تھی۔ آپ کا تعلیمی ریکارڈ کیسا تھا اور غیر تعلیمی سرگرمیوں کے تئیں کیسا رویہ تھا؟

جواب : میں نے B.Sc (CU) DHMS کیا۔ یعنی B.Sc کلکتہ یونیورسٹی سے کیا اور پھر DHMS اپنے ہی شہر کولکاتا سے ہی کیا۔ میں بچپن سے ہی سائنس اور Maths کی ٹیوشن گھر میں لیتی۔ اس لیے بچپن سے ی سائنسی کی طرف رجحان تھا۔ اور پھر گھر میں بھائی اور والدین کی بھی خواہش تھی کہ مجھے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنی ہے۔ میری تعلیمی کارکردگی الحمد للہ اچھی رہی جس کی کریڈٹ میرے اساتذہ کرام کے سر جاتی ہے۔ اسکول کے زمانے میں top 5 میں شامل رہی۔ Class X کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور سائنس گروپ میں letter marksملے تھے۔ کالج میں ریکارڈ کچھ زیادہ بہتر تھا۔ جس کی credit میرے بھائی اور بلا شبہ معزز اساتذہ کرام کے سر جاتی ہے۔ کالج میں تمام پروفیسر ناچیز کو عزیز رکھتے اور میرا ماننا ہے اگر کوئی طالب علم یا طالبہ class lecture ٹھیک طور پر follow کرے اور گھر آکر اس chapter کو ایک بار revise کرے تو 95% chapter مکمل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے کالج میں بہترین ٹیچر کی شاگردی کا شرف حاصل ہو۔ جن کی بہترین رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ آ ج میں جو کچھ بھی ہوں۔ 1st DHMS میں پورے بنگال میں میری Top 10 student میں 3rd rank تھی۔ 2nd DHMSمیں Top 10میں 6th rank اور (Final DHMS) 3rd DHMS میں top 10میں 2nd rank تھی۔ جس کے بنا پردسمبر 2000 ء میں CHM (WB) کی جانب سے Millenium Convocation کا اہتمام Science City Auditorium (Kolkata) میں ہوا تھا۔ اور 10 سال (1990-2000) کے rankers کو ایوارڈ اور certificate اس وقت کے مغربی بنگال اسمبلی اسپیکر عزت مآب ہاشم عبد الحلیم کے ہاتھوں دیے گئے جن میں ناچیز بھی شامل تھی۔


سوا ل ۴ - کہتے ہیں تعلیم شعور و آگہی کا زینہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ تعلیم اس قدر عام ہونے کے باوجود معاشرے میں شعور و آگہی کاعنصر غیر مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے کون سے عوامل کافرما ہیں؟ اور اس کا سد باب کیسے ممکن ہے؟

جواب : بلاشبہ گزشتہ بیس پچیس سالوں میں تعلیمی بے داری آئی ہے اور آج بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں ا ور یہ عمومی رویہ ہے کہ تعلیم حاصل کر کے ایک آزادانہ، شاہانہ اور خود مختارانہ زندگی گزاریں۔ لیکن اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی جب معقول ذریعہئ معاش نہ ہوتو بہت depression ہوتا ہے۔ا س طرح سے سماج کا ایک طبقہ بہت short time میں easy earning کی کوشش کرتا ہے۔ اور بعض اوقات اپنے معیار سے نیچے اترنا پڑتا ہے۔ اور ایسا کرنے میں کچھ اخلاقی گراوٹ بھی آگئی ہے۔


اس کا سد باب ممکن ہے جب وطن ِ عزیز ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ بہتر روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ Professional education کے ساتھ campus placement ہو۔ ذریعہئ معاش ٹھیک ہوں تو باقی عوامل خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

سوال ۵- کہتے ہیں ایک ہی تصویر کبھی کبھی ہر انسان کے ذہن پہ الگ الگ تاثر پیدا کرتی ہے۔ کیوں کہ ہر ایک زاویے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح زندگی بھی جو ہر کسی کے لیے الگ الگ مفہوم رکھتی ہے۔ آپ کی نظر میں زندگی کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟

جواب : کسی مفکر نے کہا ہے:"Life is a goal achieve it."

مدر ٹریسا نے کہا ہے: "Do something beautiful for the God."


درحقیقت زندگی پانی کے بلبلے جیسی ہے۔ یا شمع کی مانند ہے جسے ہوا کا ایک جھونکا ایک پل میں بجھا سکتا ہے۔ بارگاہِ رب العزت نے ہمیں اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا۔اور جیسا کہ آج کل 60 normal life span سے70 سال تک ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ بہت قیمتی ہے۔ ہمیں اپنی اس مختصر سی زندگی کو اس طرح گزارنی ہے تاکہ دنیا اور آخرت میں سر خرو ہو سکیں۔ دونوں جہاں میں کامیابی اور کامرانی ملے۔ بحیثیت مسلمان خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ اسلام کے بنیادی ارکان پورے کرنے ہیں۔ تاکہ آخرت سنور جائے۔

دین کا راستہ بھی دنیا کے راستے سے ہو کر جاتا ہے۔ ہم چوں کہ ہندوستانی ہیں۔ ہمیں بلا تفریق مذہب و ملت بھلائی کا کام کرنا ہے۔ ایسا کام کرنا چاہیے کہ ہمارے نہیں رہنے پر زمانہ یاد کرے۔ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائیں اور یہ ممکن ہے جب ہم ہندوستانی بچوں کوتعلیم کی طرف راغب کریں۔ بقول شاعر:

گھر سے مسجد بہت دور ہے چلوں یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے


خصوصی طور پر سائنس اور ٹیکنالوی سے ہم آہنگ کرنا ہی عصرحاضر کا تقاضا ہے۔ میرا تعلق چوں کہ ہندوستان سے ہے۔ اس لیے یہاں ”ہم اور ہماری قوم“ کا نعرہ نہ لگا کر۔ کٹر انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کو بالائے طاق رکھ کر ’ہم اور برادران وطن‘ کانعرہ لگائیں تواسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔ اسی میں وطن عزیز ہندوستان کی ترقی ممکن ہے۔

سوال ۶- انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ لوگوں کے ساتھ اس کے تحت تعلق قائم کرتا ہے۔ ہماری زندگی میں کچھ رشتے تو ہماری پیدائش کے ساتھ بن جاتے ہیں اور کچھ ہم بناتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کسی تعلق کو بنانے کے لیے آپ سامنے والے میں کس طرح کی خصوصیات تلاشتی ہیں۔ اور جب کسی سے ملتی ہیں تو کس چیز سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں؟


جواب : بلا شبہ خونی رشتہ اہم ہیں۔ لیکن میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کچھ ایسے رشتے بھی ہوتے ہیں جو خونی رشتے سے زیادہ ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ ان میں اہم ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ۔ آج بھی بہت دوست ہیں جو مجھے متاثر کرتے ہیں۔ بلا تفریق مذہب و ملت جب میں کسی سے ملتی ہوں تو اس کا اندازِ گفتگو، لب و لہجہ، طرز بیانی سے اثر انداز ہوئی ہوں۔ اس ضمن میں یہ کہنا چاہوں گی کہ میرا تعلق چوں کہ بنگال سے ہے اور بنگلہ بھی شیریں زبان ہے۔ اس زبان کی چاشنی اور بنگالی کلچر سے بھی خوب متاثر ہوں۔ کسی کی شخصیت فنی مہارت (knowledge) کا اندازہ اندازِ گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے۔ بقول شاعر ؎

تجھ سے پہلے حکایت، حکایت نہ تھی تلخ باتوں میں اتنی حلاوت نہ تھی

کھردرے پیکروں یں لطافت نہ تھی اتنا چمکا نہ تھا گفتگو کا ہنر

اے مرے ہم سفر! اے مرے راہبر!

اس کے ساتھ ہی شخصیت کے دوسرے پہلو یعنی شکل و شباہت، لباس، ہیر اسٹایل بھی متاثر کرتے ہیں۔


سوال ۷- آپ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں جو کہ سائنس پہ بیسڈ ہے اور دوسری طرف آپ ادب سے بھی نہ صرف گہرا شغف رکھتی ہیں بلکہ ایک قلم کار بھی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے اندر لکھنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا۔ یہ شوق ابتدا ہی سے آپ کے اندر تھا یا بعد میں آپ کو ادراک ہوا پھر اپنی لکھنے کی صلاحیت کو کس طرح نکھاراگیا۔ کسی کی رہنمائی بھی حاصل تھی؟

جواب : اسکول اور کالج کے زمانے میں جب سائنس سبجیکٹ پڑھتی تو اس کی notes تیار کرلیتی تھی۔ ہر سبجیکٹ میں اور تقریباً ہر chapter کے بہترین notes کئی کتابوں کو پڑھ کر تیار کرتی۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا کہ chapters مکمل طور پر ذہن نشین ہو جاستے۔ یہ سلسلہ اسکول اور کالج میں تھا۔ پھر جب میں medical student تھی۔ اس زمانے میں میرے کالج کے قریب ایک اسکول تھا۔ الحمد للہ آج بھی قائم ہے۔میں B. Sc. (CU)سے کر چکی تھی اور DHMS کر رہی تھی۔ اس زمانے میں یعنی 1989 ء میں میری تقرری بحیثیت سائنس ٹیچر وائی- ایس- گرلس اسکول میں ہوئی، میں نے اپنا پہلا مضمون اس اسکول میں دورانِ تدریسی تجربے کی بنیاد پر لکھا تھا۔ جو 2005 ء میں موقر روزنامہ ”اخبار مشرق“ کولکاتا میں شائع ہوا۔ جس کا عنوان تھا ”اردو داں طلبا و طالبات کے تعلیمی مسائل اور ان کے حل“۔


جہاں تک لکھنے کا سوال ہے تو یہ اسکول سے ہی تھا۔ ہمارے اساتذہ کرام کا مشورہ تھا کہ لکھنے سے practice ہوتی ہے اور یاد بھی رہتی ہے۔ پھر science کے articles اسکول اور کالج میگزین میں لکھا کرتی۔ لکھنے کے لیے کبھی کسی کی رہنمائی حاصل نہیں تھی۔

سوال ۸- آپ ایک کالم نگار ہیں۔ آپ کے کالم اصلاحی، تعلیمی اور معاشرتی سطح پربیداری پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس میں اخلاقیات کا پہلو بھی آتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ نوجوان نسل عدم تحمل اور افہام و تفہیم سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ معمولی سا واقعہ انہیں مشتعل اور بدگمان کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس رویے کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟


جواب : نوجوان نسل عدم تحمل اور افہام و تفہیم سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ دراصل اس کے بہت سارے وجوہات ہیں۔ Dysfunctional family environment(گھر کا ماحول ناموافق) اور financial issue (نا سازگار) stress and tension of parents (والدین کے طرف سے دباؤ)، lack of love and care (خاندان کی طرف سے غیر مشفقانہ برتاؤ) کے علاوہ والدین کی ذہنیت کا اثر Parental psychopathology بھی ہے۔ان تمام factors کے ساتھ ابھی دماغ کے اس حصے (Prefrontal cortex) کی maturity دیر سے ہوتی ہے۔ اس طرح کے بچوں کو counselling کی ضرورت ہے۔ بچوں کی باتوں کو پورے طور پر سننے کی ضرورت ہے۔ ان کے عزت نفس کا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ یاد رکھیں بچے کو والدین کی توجہ، پیار اور شفقت کی ضرورت ہے۔ کسی ایک اولاد کو دوسری اولاد پر فوقیت نہ دیں۔ اس سے احساس کم تری (infeiority complex) اور depression کے شکار ہو جاتے ہیں۔


بچوں کی پرورش کے لیے ایک ساز گار ماحول کی ضرورت ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب والدین کا مثبت رویہ ہو۔ بچے کے academic performance ٹھیک ہوں تو والدین خوشی کا اظہار کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے بچوں کا مقابلہ دوسرے بچوں سے اس طرح نہ کریں کہ ان کی دل آزاری ہو۔ یا ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے۔ اپنا نادر شاہی حکم ان پر جاری نہ کریں۔ ان کی ہمت افزائی کریں تو انشا ء اللہ بہترنتائج سامنے آئیں گے۔

سوال ۹- انسان ہر کسی کے بارے میں اکثر و بیش تر ایک رائے رکھتا ہے۔ لیکن اکثر وہ اپنے بارے میں اپنا ذاتی خیال قائم کرنے سے گریز کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ اسے خود پسندی لگتا ہے جب کہ ایسا قطعاًنہیں ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے۔ آپ خود کو کہاں دیکھتی ہیں۔ آپ کی منزل کیا فی الوقت آپ کی حددسترس میں ہے؟


جواب : میں آج خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے اچھے اساتذہ کرام مجھے تحفے میں عنایت کیے۔ میں خود کو سائنس کی ادنیٰ طالبہ اور اردو میں طفل ِ مکتب سمجھتی ہوں اور انشاء اللہ زندگی نے وفا کی تو سیکھنے کا سلسلہ جاری رہے گاکہ زندگی انسانیت کو جہدمسلسل اور عمل پیہم کا پیغام دیتی ہے۔ انگریزی کا یہ proverb ہے۔ "Learn from the cradle to the grave"۔ علم حاصل کرو گود سے گور تک

Mental health کی تعریف یوں ہے:
 A person is said to be mentally healthy if

i) He or she must have self respect.

ii) He or she should neither under-estimate nor over-estimate his or her own ability.

مندرجہ بالا تعریف کے لحاظ سے اس پر پوری اترتی ہوں اور medical science ہو یا ادب بہت کچھ سیکھنا ہے۔ انشاء اللہ


سوال ۰۱- آپ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ آ پ کے شب وروز کا بیشتر حصہ مریضوں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ یہ دور انفارمیشن کا دور بھی کہلاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا لوگ اپنی جسمانی صحت کے حوالے سے بیدار و محتاط ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں اس کا گراف بہترہوا ہے یا نیچے کی طرف آیا ہے۔ اس قدر آگاہی کے باوجود مریضوں کی تعداد میں اضافے کے پیچھے کیا وجوہات، آپ پاتی ہیں؟

جواب : جسمانی صحت کے حوالے سے لوگ کتنے بیدار اور محتاط ہیں۔ اس کا انحصار کئی عوامل (factors) پر ہے۔

(i لوگوں کا تعلق کس social class سے ہے۔ upper class family سے تعلق ہے۔ High Socio-economic group سے ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں۔ تو ان میں بیداری آئی ہے کیوں کے اس طبقے کے لوگوں کو غذائیت سے بھر پور خوراک (better nourishment)، پینے کا صاف پانی (pure, filtered water) حاصل ہے۔


(ii ہندوستان میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ (Below Poverty Line) BPL زندگی گزارتا ہے۔ جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ Balanced Diet نہیں ملتا۔ دو وقت کی روٹی مشکل سے ملتی ہے۔ ایسے میں جو کچھ ملتا ہے وہ معقول اور متوازن خوراک (balanced diet) بالکل نہیں۔ بالخصوص حاملہ (pregnant) کے لیے iron, vitamins اور calcium کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن نہ ملنے کی وجہ سے حاملہ فوت کر جاتی ہیں۔

Infant Mortality Rate میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ 1981 ء میں 9.7 per 1000 live birth سے گراف بہت نیچے آگیا ہے اور 2021 ء میں 1.7 per 1000 live birth ریکارڈ کیا گیا ہے۔


سوال ۱۱- کہتے ہیں احتیاط علاج سے بہتر ہے لیکن بد قسمتی سے اکثر لوگ احتیاط تبھی کرتے ہیں جب علاج کی نوبت آجاتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے تجربے کے مطابق کتنے فیصد مریضوں کی بیماریاں غیر متعدل غذا کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ا ورکتنے فیصد احتیاط کے باوجود اس طرح ہوتی ہیں جس کے بارے میں عام لوگوں کا کہنا ہے کہ قسمت کا لکھا تھا جو اس بیماری کے ساتھ پورا ہوگیا؟

جواب : کہتے ہیں Prevention is better than cure۔ بلا شبہ یہ proverb دراصل communicable disease (یعنی وہ بیماری جو ایک انسان سے دوسرے انسا میں منتقل ہوتا ہے) اس پر لاگو ہو سکتا ہے۔ آپ کے اس سوال نے مجھے بیماریوں کی درجہ بندی (classification of disease) کی تھوڑی سے تفصیل بتانے پر مجبور کرتا ہے۔


دراصل کچھ بیماریاں ہیں جو پیدائش کے ساتھ ہی نوزائیدہ میں ہوتی ہیں جسے congenital diseases کہتے ہیں جیسے new born baby میں کچھ heart diseaes ہوتی ہیں۔ جو inborn ہوتی ہیں۔ جیسے

i) ASD - Atrial Septal defect
ii) VSD - Ventricular septal defect
iii) PDA - Paten Ductus Arteriosus
iv) CO-arctation of Aorta

یا cleft-lip (ہونٹ کٹے ہوئے) cleft palate یا کچھ بیماریاں ہیں جو وراثت میں ملتی ہیں یعنی والدین کو ہو تو بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ کسی خونی رشتے سے منتقل ہوتے ہیں جیسے Haemophilia وہ بیماری ہے جو ماما کو اگر ہو تو بھانجے میں منتقل ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ کے سوال میں بنیادی طور پر infectious disease ہے۔


UNICEF کے مطابق تقریباً 25 لاکھ لوگ ہر سال فاقہ کشی (hunger) اور malnutrition کی وجہ سے فوت ہوتے ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کے 8.8 لاکھ بچے starvation سے ختم ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً4500 بچے (جن کی عمر 5 سال سے کم) ہر روز malnutrition سے ختم ہوتے ہیں۔ یعنی سال میں تقریباً3 لاکھ بچے معتدل غذا(nutritious food) نہ ملنے کی وجہ سے ختم ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ غریبی، بھکمری اور فاقہ کشی (wide spread poverty) ہے۔

 Infectious diseases کو کنٹرول کرنے کے لیے public awareness بہت ضروری ہے۔ لیکن بہت افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی دیہی علاقوں میں جہاں illiteracy ہے یعنی Rural Indiaمیں illiteracy بہت ہے۔اس لیے سب سے پہلےliterary rate یعنی خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافے کی ضرورت ہے۔


میرا ذاتی تجربہ ہے Malaria Eradication Programme کے لیے ایک medical team بنگال کے پرولیا ضلع کے ایک گاؤں میں گئی تھی اور مچھر کا ایک model لے گئے تھے جو12 inch کا تھا۔ Demonstration کے دوران audience نے اثبات میں سر ہلایا۔ لیکن آخر میں ایک خاتون نے صرف ایک جملہ کہا جس سے awareness programme کا مقصد فوت ہوگیا۔ اس نے کہا ”میرے گاؤں میں اتنے بڑے مچھر نہیں ہے۔“ (model کو دیکھ کر) یہ دراصل مضحکہ خیز ہے۔ لیکن یہاں audio-visual aid کی ضرورت تھی، جو نہیں ہوا۔ اس لیے public awareness programme بھی ٹھیک طور پر ہیں ہوتا ہے۔ اس کو proper way میں organise کرنا چاہیے تاکہ واقعی عوام میں بیداری آئے۔


سوال ۲۱- موجودہ وقت میں تکنالوجی کا غلبہ حاصل ہے۔ اس نے نوعِ انسانی کو بے شمار فائدے پہنچائے ہیں وہیں انسانی کارکردگی بھی متاثر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سہل پسندی نے کئی طرح کے منفی مضمرات کو جنم دیا ہے۔ ان میں سے ایک بچوں کا اسکرین ایڈکٹ ہونا ہے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم بھی متاثر ہوئی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ بچوں کو موبائل فون کا ایڈکٹ ہونے سے روکنے کے لیے کس طرح کی حکمت علمی اپنائی جائے اور بچوں کو کس عمر میں ان کا ذاتی فون دیا جائے۔ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟

جواب : شکریہ! بہت اہم سوال ہے۔ آج ہر شعبہئ ہائے حیات میں تکنالوجی کا اثر ہے۔جس کے بے شمار فائدے ہیں جس سے کسی کو انکار نہیں۔ ساتھ ہی آج بچے mobile یا TV پر movies, video games اور social media جیسے Instagram, Twitter, Facebook اور Youtube پر سرگرم رہتے ہیں۔ اس سے ان کی تعلیم خاطر خواہ متاثر ہوتی ہے۔ اس کو بہت کم کرنے کے لیے چند تجاویز ہیں:

(i ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے بچے کتنا وقت social media پر صرف کر رہے ہیں۔ بچے کس طرح کی movies دیکھ رہے ہیں۔


(ii بیشتر نوجوان بچے اور بچیاں جب گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں تو mobile پر active ہوتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ایسے app download کرنے چاہئیں کہ driving کے دوران mobile disabled ہو جائے۔

(iii کھانے کے دوران electronic devices کو بند رکھیں۔

(iv سوتے وقت cell phone بند رکھیں یا kitchenمیں charge میں لگائیں تاکہ بچے نیند پوری کریں اور جب نیند سے بیدار ہوں تو fresh mood میں ہوں۔

(v بچے ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ اس لیے بچوں کے ساتھ کھانے کے دوران during lunch & dinner اپنا موبائل بھی ساتھ نہ رکھیں کیوں کہ بچوں کو ہدایت دینے سے پہلے خود ہدایت پر عمل کرنا لازمی ہے۔


(vi Desktop Computer کو dinning hall یا کسی common place میں رکھیں تا کہ بچوں کی activities کو آسانی سے monitor کیا جا سکے۔ CCTV کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے۔

(vii اکثر و بیشتر لوگ بچوں کو قیمتی موبائل فون بطور تحفہ عنایت کرتے ہیں۔ اس سے گریز کریں۔

COVID-19 اور Lockdown کے دوران جب ہندوستانی بشمول دوسرے ممالک کے Online system of education تھا اور آئندہ بھی online system رائج ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں۔ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ لیکن اس کے باوجود screen addict ہونا ٹھیک نہیں۔ بلکہ آج بھی بہت سارے institute میں مقابلہ جاتی امتحانات (NEET, IIT, UPSC) کی تیاری کے دوران mobile phone کی بالکل اجازت نہیں ہوئی جو بلا شبہ بہت اہم پہلو ہے۔ اور اس طرح سے competitive exams کی تیاری کے دوران subjects پر مکمل طور سے یعنی دامے، درمے، سخنے، قدمے، فہمے focus کرنی کی اشد ضرورت ہے۔


سوال ۳۱- تبدیلی ایک لازمی عنصر کی طرح ہے۔ اردو ادب بھی تبدیلیوں سے متاثر ہوا ہے۔ میرا سوال یہ ہے ان تبدیلیوں کو کس طرح اردو ادب کے حق میں نیک فعال ثابت کیا جا سکتا ہے؟ اور اس ضمن میں اردو داں طبقہ کو کس طرح کی حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے؟

جواب : بلا شبہ کہتے ہیں ’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ اور تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ آج یہ ڈیجیٹل ورلڈ ہے۔ ایک message دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آسانی سے پہنچا یا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے ارود ادب میں بھی تبدیلی ہونی چاہیے۔ یہ دور سائنس اور تکنالوجی کا دور ہے۔ اس ضمن میں ادب ِ اطفال پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ عالم طفلی سے ہی طلبا و طالبات کو سائنس کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اردو میڈیم اسکولس کے معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جس کے لیے انفراسٹرکچر ٹھیک کرنا ہوگا۔ Well-equipped lab اور بہترین Library کا قیام ہونا چاہیے۔


اس ضمن میں online education سے اردو داں طبقے کو ہم آہنگ کرنا لازمی ہے۔ Book culture کو فروغ دینا ہوگا چاہے وہ e-book ہی کیوں نہ ہو۔

ہم نشینی اگر کتاب سے ہو
اس سے بہتر کوئی جلیس نہیں

یا کسی شاعر نے یوں کہا ہے ؎

آئینہ وفا ہے، گنجینہئ شفا ہے
یہ دین کا ہے ہادی، دنیا کا رہنما ہے

سوال ۴۱- آپ نے اب تک بے شمار کالم اور ادبی مضامین لکھے ہیں۔ جو مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ اور آپ کی ایک کتاب بھی منظر عام آچکی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ہمارے قارئین کو مختصراً بتائیں اور یہ بھی کہ آج کل کتابیں جس رفتار سے شائع ہورہی ہیں۔ کیا اس کے مطابق اس کے قاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اگر نہیں تو ایسا کیوں ہے؟

جواب : میرے کالم ہندوستان اور بیرون ممالک اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ میرے زیادہ تر مضامین تعلیم، کرئیر، قومی یکجہتی کے حوالے سے ہیں۔ میری کتاب ’تعلیم اور کرئیر‘ اسی مقصد کے تحت ہے کہ اردو داں طلبا و طالبات اور ان کے والدین تعلیم کی اہمیت سے روشناس ہو سکیں۔ وطن عزیز ہندوستان میں بہت talent ہے۔ نوجوان نسل کے talent کو arouse کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے تحت میں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ شاید میری فکری تجاویز قوم وملت کے تئیں کسی کام آسکے۔


بلاشبہ آج کتابیں بہت تیزی سے شائع ہو رہی ہیں لیکن جس رفتار سے کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ اس کے قاری نہیں ہیں۔ بلکہ وثوق کے ساتھ کہنا چاہوں گی ک اردو اخبارات کے قاری کی عمر 40 سال سے زیادہ ہے۔یہ digital world ہے اور ہر منٹ میں تازہ نیوز انٹرنیٹ کے ذریعہ flash ہوتے ہیں۔ پھر کس کو ضرورت ہے کہ 24 گھنٹے کے بعد یعنی دوسرے روز اخبار خریدیں اور پڑھیں۔ آج اخبار کے صفحات کی گردانی تو گراں گزرتا ہے۔ نئی نسل اس کی بالکل قائل نہیں۔

مختصر یہ ہے کہ بدلتے عالمی منظر نامے کے ساتھ ہمیں خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔ Book culture زوال پذیر ہونے کا بڑا سبب COVID-19 اور Lockdownبھی ہے۔ COVID-19 اورLockdownنے ایک بار پھر بتا دیا کہ Online کی کتنی اہمیت ہے۔ اور آج Bank transaction سے لیکر grocery itemsسب online آسانی سے دستیاب یں۔


Science کے کسی بھی topic اور maths کے تقریباً ہر سوال (post graduation) یا اس سے بھی high level تک آسانی سے google پر دستیاب ہیں۔ اردو داں طلبا و طالبات کو جدید technology سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ وہ اس سے پورے طور سے مستفیض ہو سکیں کہ یہی عصرِ حاضر کا تقاضا ہے۔ دیہی علاقوں میں انتہائی ضروری ہے۔

سوال ۵۱- تعلیم نسواں ایک ایسا موضوع ہے جو کہ خاطر خواہ توجہ سمیٹنے میں کامیاب ہے لیکن عملی سطح پہ کیے جانے والے اقدام ابھی بھی قابل توجہ ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک عورت کس طرح اپنے گھر اور ملازمت کی مصروفیات کو manage کرے کہ دونوں جگہوں پہ ہی اس کی کامیابی کو نظر انداز نہ کیا جا سکے۔ اس طرح کہ لوگوں کی اس ذہنیت کو ختم کیا جا سکے جس کے مطابق عورت محض گھرداری اور چہار دیواری میں ہی کامیاب زندگی گزار سکتی ہے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں آپ اس ضمن میں کیا کہنا چاہیں گی؟


جوا ب : تعلیم نسواں ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ میں نے تعلیم نسواں کے حوالے سے بھی کئی مضامین قلمبند کیے ہیں۔ تمام تر تجربات اور مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ تعلیم نسواں کے ذریعہ ہی صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ تعلیم نسواں سے مراد دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ professional education بہت ضروری ہے۔ اسلام میں خواتین کو کسب معاش کی اجازت ہے۔ زندگی کے سفر کو کامیاب بنانے میں شوہر اور بیوی دونوں کا بڑا کردار ہے۔ ایک صحت مند اور خوش حال خاندان کے لیے شوہر اور بیوی دونوں کو اپنے اپنے طور پر رول ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک middle class family میں بچوں کے اسکول کی فیس، بیمار والدین کا علاج، جوان بہنوں کی تعلیم، ان کی شادی کے علاوہ اور بھی معاشرتی مسائل ہیں۔ بلاشہ ان مسائل حل کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی بچوں کی تربیت، ان کی تعلیمی کارکردگی میں والدین خصوصاً ماں کا بڑارول ہے۔ اس ضمن میں یہ چاہوں گی کہ پُر خار راہوں میں شوہر اور بیوں کو ایک دوسرے کا پورا پورا ساتھ دینا ہوگا۔ اپنی superiority اور ego کو ختم کر کے شانہ بہ شانہ سفر حیات پر گامزن رہیں۔ بچے جتنے دیر اسکول میں رہیں مائیں job کر سکتی ہیں جب گھر آئیں تو ان کے کھانے پینے، health اور education کا پورا خیال رکھیں تو انشاء اللہ بچوں کا academic performance بہت بہترہوگا۔ اور ساتھ ہی معاشی طور پر خاندان مستحکم ہوگا۔ یعنی financial problem بھی solveہوگا۔


اس ذہنیت کو کہ عورت محض گھر داری اور چہار دیواری میں ہی کامیاب زندگی گزاز سکتی ہے۔ اس ذہنیت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے seminars اور symposium کا انعقاد کراناتاکہ خواتین میں بیداری آئے اور public awareness کو فروغ ملے۔

سوال ۶۱- ہر انسان کی اپنی کچھ خاصیت اس کی شناخت کا سبب بن جاتی ہے۔ میں آپ سے یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ اپنے دوست، احباب میں اپنی کس خاصیت کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں؟

جواب : اس ضمن میں میری بہت مخلص بنگالی ساتھی کا کمنٹ ہے:

In you, the best quality is that of independence. All my life I have seen you truly independent and always working hard so that you never have to depend on anyone. This is the single quality that identifies you from every other woman that I know.


سوال ۷۱- یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے اور ان سوالات سے کس حد تک مطمئن تھیں اور کیا کوئی ایسی بات آپ کے دل میں ہے جو آپ اس انٹرویو کے ذریعہ لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں؟

جواب : سب سے پہلے تو آپ کی (علیزے نجف صاحبہ) کی بے حدشکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت اس خاک سار کو عنایت کیا۔ جس کے بہت نوازش۔ آپ کے تمام سوالات بہت اہم، پُر معنی اور جاذب نظر ہیں۔ آپ کے ان سوالات سے مجھے میرے تاب ناک ماضی کی یادیں ذہن کے پردے پر رقص کناں ہونے لگیں۔ مجھے میڈیکل کالج، سائنس کالج اور اسکول کا زمانہ یاد آگیا۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ کلچرل پروگرام اور اسپورٹس Educational tour, Debate competition نظر کے سامنے آگئے۔ آپ نے اب تک عظیم شخصیتوں کا انٹرویو لیا ہے جو اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ آپ نے ناچیز کا انتخاب اس انٹرویو کے لیے کیا۔ بلاشہ کافی خوی ہو رہی ہے جس کے اظہار کے لیے میرے پاس الفا ظ میں۔

میں اس انٹرویو کے لیے ایک بار پھر تہہ دل سے شکر گزار اور احسان مند ہوں کہ آپ نے اپنے busy schedule کا قیمتی وقت مجھے دیا۔


ایک بہت ہی اہم پوائنٹ یہ ہے کہ تعلیم نسواں کی بہت ضروری ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے یعنی Law, Engineering, Medical میں بھی ان کی نمائندگی ضروری ہے۔ ادھر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ میڈیکل، انجینئرنگ، لاکالج یا یونیورسٹی میں آج بھی مخلوط تعلیم (Co-education) رائج ہے۔ تو یا مخلوط تعلیم کو بنیاد بنا کر لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کیا جائے۔ ایک بڑا گروپ اس عمل میں کارفرما ہے۔ میرے خیال میں ایسا ہر گز نہیں کرناچاہیے۔ ورنہ اس طرح کی مخالفت سے intelligent, highly talented بچیوں ن کا استحصال ہوتا ہے۔ لیکن پرواز کے لیے ان کے پروں کو کاٹ دیا جاتا ہے جو نا مناسب اور غیر موزوں ہے۔

دوسرا اور بہت اہم pointیہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے بلکہ دل سے اقرار کرنا چاہیے کہ اولاد (خواہ بیٹا ہو یا بیٹی) قدت کا انمول عطیہ ہے۔ ایک صحت مند بچہ بلاشبہ خدائے تعالیٰ کا وہ بیش قیمت تحفہ ہے جس پر ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ان کی پرورش، تعلیم وتر بیت ہمارا ولین فرض ہے۔


اس interview کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ آج بھی

(i دیہی ہندوستان میں female illiteracy بہت زیاد ہ ہے۔ ہمیں اسے ختم کرنا ہوگا۔

We should erdicate illiteracy from India as we have eradicated the most vital disease poliomyalitis by giving OPV (oral polio vaccine) and by the slogan 'Do Boond Zindagi ke"

(ii Medical ور IIT کالج میں seats بہت کم ہیں۔ ان میں خاطر خواہ اضافے کی ضرورت ہے۔

ہمیں خود کو اس شعر کا مصداق ہونا چاہیے:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے