بے روزگار نوجوانوں کے لئے سوشل نیٹ ورکنگ کی اشد ضرورت
سوشل نیٹ ورکنگ کے دور میں جس طرح بیٹیوں کے والدین کی سب سے بڑی ضرورت ایک اچھا روزگار کرتا ہوا لڑکے کا رشتہ ہے اسی طرح بے روزگار نوجوانوں کے والدین کی بھی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا روزگار سے لگ جائے تاکہ مناسب وقت پر اس کا نکاح کردے۔بہت غور سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ دونوں مسائل لازم وملزوم ہے۔ مشاہدہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیٹیوں کے رشتہ تلاش کرنے میں اکثر ہمدردی یا ذمہ داری کے بنا پر لوگ پیش پیش رہتے ہیں جبکہ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرانے میں مخیر حضرات بھی اکثر کوتاہ نظر آتے ہیں۔
ان دنوں سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعہ بے شمار مسائل پر لوگ لکھتے اور بولتے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔گویا تمام مسائل اور ان کا حل سوشل میڈیا پر ہی نکالا جا رہا ہے۔ مخیر اور اہل ثروت حضرات کو چاہیے کہ فیس بک اور واٹس ایپ جیسے مختلف پلیٹ فارم پر لوگوں کے رابطے کو مضبوط بنائیں تاکہ بے روزگار نوجوانوں کے معاشی مسائل کا حل نکل سکے۔اس طرح مقامی اور ریاستی سطح پر بے روزگار نوجوانوں کو (پرائیویٹ ہی سہی) روزگار حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ہمارے نوجوان روزگار سے جڑ جائیں گے تو ہماری بیٹیوں کے نکاح کا مسئلہ بھی ان شاءاللہ آسان ہوجائے گا۔
اس مادیت کے دور میں سماج کے خوشحال طبقے کے تو لگ بھگ دونوں مسائل آسانی سے حل ہو جاتے ہیں۔ دولت کا استعمال کرکے معاش کا انتظام اور پھر اسی دولت کے دم پر اونچے گھرانوں میں رشتہ طئے ہو جاتا ہے۔عام طور سے خوشحال طبقہ اپنے مسائل کا حل نکال کر ایسا اطمینان ہو جاتا ہے جیسے اب دنیا میں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، الا ماشاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو ایک دوسرے کا مددگار بنا کر بھیجا ہے۔لہٰذا خوشحال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی دینی اور قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کریں۔اس عمل سے سماج میں ہمدردی اور محبت میں اضافہ ہوگا ساتھ میں امیری اور غریبی کے مابین بڑھ رہی دوریاں بھی کم ہونگی۔
یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ہر انسان کو اپنی محنت اور وسائل کا استعمال کرکے ترقی کرنے کا پورا حق ہے۔مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر آپ آگے بڑھ گئے ہیں تو پلٹ کر پیچھے ضرور دیکھئے تاکہ آپ کی ذرا سی توجہ سے کسی بے روزگار نوجوان کا بھلا ہو جائے۔ہر کامیاب شخص اپنے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ روزگار کے ذرائع اور مواقع رکھتا ہے، بس سوچ کو ہمدرد بنانے کی ضرورت ہے۔اپنے رشتہ داروں یا جان پہچان والوں کے تعلق سے تھوڑی فکر کرنی ہوگی۔ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھوں کسی کا بھلا کردے۔
سوشل میڈیا پر سب پسندیدہ ذریعہ WhatsApp اور Facebook ہے۔محلے یا شہر کی مطابق WhatsApp گروپ بنائیں اور اس گروپ میں ویسے افراد کو جوڑیں جو اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور امت کے بے روزگار نوجوانوں کے لئے خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔صرف محفلوں میں تالیاں بجوانے سے زیادہ عملی طور پر مدد کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوں۔قومی جذبہ رکھنے والے بڑے بڑے پرائیویٹ اداروں کے مالکان بھی اس سلسلے میں بھر پور تعاون کرسکتے ہیں۔اس سلسلے میں ہر شہر میں Career Counseling Center بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔عام طور پر معاشی طور پر کمزور نوجوان اپنی پڑھائی پوری کرنے کے بعد جانکاری کی کمی کی وجہ سے اچھے مواقع تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ملی اداروں کو بھی اس سلسلے میں پیش قدمی کرنی چاہئے۔
آخر میں اس امید کے ساتھ میں ہر قاری جس تک یہ پیغام پہنچے وہ اپنے علاقے کے خوشحال لوگوں تک میری یہ اپیل پہنچائیں تاکہ وہ اس سلسلے میں کچھ راستہ نکالیں اور امت کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کا بھلا ہوسکے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہماری مدد فرمائے، آمین
سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
موبائل 8825189373
sarfarazalam1965@gmail.com
0 تبصرے