Ticker

6/recent/ticker-posts

مصنوعی ذہانت اور ہم Artificial Intelligence AI

مصنوعی ذہانت اور ہم

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

masnoi-zahanat-aur-hum-artificial-intelligence-AI


گویا ابھی کل ہی کی بات تھی، لوگ حیران ہورہے تھے یہ دیکھ کر کہ ایک چھوٹے سے موبائل کے ذریعے ہم ہزاروں میل دور سات سمندر پار بیٹھے ہوئے اپنے کسی عزیز سے ایسے گفتگو کررہے ہیں جیسے وہ ہمارے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ وہ وہاں اپنی موجودہ حالت اور وقت کے ساتھ ہمارے موبائل کے اسکرین پر نظر آرہا ہے اور ہم بھی بالکل اسی طرح اپنی حالت اور وقت کے ساتھ اس کے موبائل اسکرین پر اس سے محو گفتگو ہیں۔ اسی موبائل پر گوگل نامی ایک ایپ ہے جو ہمارے ایک سوال پر پلک جھپکنے کی دیر میں جوابات اور معلومات کا خزانہ ہمارے آگے لا کر رکھ دیتا ہے۔ زمانے کی یہ تیز رفتار ترقی مکمل طور پر ابھی ہماری سمجھ میں آئی ہی نہیں کہ سائنس نے مصنوعی ذہانت کے نام پر ایک اور دھماکہ کر دیا۔ مصنوعی ذہانت، جیسا کہا اور سمجھا جارہا ہے اگر اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوجائے تو پھر یہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی اس کا تصور بھی محال ہے۔


مصنوعی ذہانت کے تعلق سے ابھی تک جو باتیں سامنے آرہی ہیں وہ چونکا دینے والی ہی نہیں خطرناک بھی ہیں۔ دانشوروں کی ایک بڑی تعداد اس پر اور تحقیق اور اس کو عام انسانوں کے لئے مہیا کرنے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر اس تحقیق کو عام کردیا جائے تو انسانی زندگی پر اس کے اثرات ناقابل حد تک نقصان دہ ہوسکتے ہیں، لیکن وہیں سائنسدانوں کا ایک بڑا طبقہ اس کے مثبت نتائج کو دیکھ کر اسے انسانی ترقی کا ایک ایسا سنگ میل قرار دے رہا ہے جہاں سے زندگی کی بہت ساری دشواریاں ہمیشہ کے لئے نہ صرف آسان ہو جائیں گی بلکہ اکثر تو سرے سے ختم ہوجائیں گی۔ بات جو بھی ہو اتنا تو طے ہے کہ آنے والا دور مصنوعی ذہانت کا دور ہوگا۔


مصنوعی ذہانت انسانی زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہونے کی پھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ ہوائی جہاز اڑانے سے لے کر انسانی صحت کے بال سے باریک مسائل حل کرنے جیسے روزمرہ کے معاملات میں بھی اس کی کارگردگی صد فیصد ہوگی۔ خاص کر انسانوں کی مذہبی زندگی پر اس کے اثرات اتنے شدید ہونے کے امکانات ہیں کہ بہت سارے قدیم عقائد اور مذہبی معاملات ریت کے ذروں کی طرح بکھر کر رہ جائیں گے۔ مثلا خدا کے تعلق سے دنیا بھر کے مذاہب میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، اس بات کی قوی امید ہے کہ مصنوعی ذہانت اس میں سے چھانٹ کر جو سچ اور انسانی فطرت کے قریب عقیدہ ہے اسے دلائل کے ساتھ مکمل روشنی میں لے آئے وہیں یہ بھی ممکن ہے ملحدین کے سوالات پر خدا کی نفی میں بھی دلائل کے انبار لگا دے، ایسے میں یہ انسانی ذہن پر منحصر ہوگا کہ وہ حق اور باطل کی تمیز خود کرے اور صداقت کے ساتھ کھڑا ہو، ایک طرح سے یہ انسانیت پر اتمام حجت کی ایک ایسی کڑی ہوگی جس کو جھٹلانا کسی بھی عاقل انسان کے لئے ناممکن ہوگا۔


ہم مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ ہم سائنس کی ہر نئی دریافت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے اسلام کے خلاف ایک سازش سمجھنے کا رجحان آج بھی ہمارے یہاں چھایا ہوا ہے۔ ایسے میں ممکن ہے مصنوعی ذہانت کے خلاف بھی ہمارے یہاں بہت جلد فتاؤں کی یلغار ہوسکتی ہے۔ لیکن اتنا یاد رکھیں جس طرح لاکھ مخالفت کے باوجود سائنس کی ہرنئی دریافت ہماری زندگی کی روز مرہ کے معمولات میں شامل ہوچکی ہے اسی طرح مصنوعی ذہانت بھی ہر فرد کے ہاتھ میں پہلے سے موجود موبائل میں پہنچ کر انہیں کے انگلیوں کی جنبشوں کے ذریعے اپنے سحر میں گرفتارکر کے رہے گی۔


اس کی وجہ سے علم کی وہ فراوانی ہوگی کہ ایک عام فہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی عامی مسلمان جو مصنوعی ذہانت کی سمجھ رکھتا ہو وہ آسانی سے ابتدائی دور کے عربی کتابوں کو اپنی زبان اور فہم میں آسانی سے نہ صرف سمجھ لے گا بلکہ اپنے کسی بھی مسئلے پر وہ صدیوں سے رائج فقہی جوابات کو قرآن و سنت سے جانچ کر یہ بھی بتا دے گا کہ اس میں دلائل کس طرف ہیں اور جوابات کس طرف جارہے ہیں۔ مذہبی معاملات پر مخصوص طبقوں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی اور ہر فرد قرآن و سنت سے اپنی زبان میں استفادہ حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا اور اس کی وجہ سے مسلم معاشرے میں ایک ایسی انقلابی صورتحال پیدا ہوگی جس کے سیل رواں میں مسلکی و فروعی اختلافات یاتو اپنی شدت کھو دیں گے یا خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اوراسلام پھر سے چودہ سو سال والی اپنی اصلی بنیادوں پر لوٹ آئے گا۔ ممکن ہے اس انقلابی صورتحال سے کچھ منفی پہلو بھی نکلیں ایسے میں یہ ملت کے درد مند دوراندیشوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ابھی سے غور و فکر کر کے اس کے تدارک کے طریقے وضع کرلیں ورنہ عین وقت پر حالات کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے