Ticker

6/recent/ticker-posts

پیغام رمضان : یہ رتبئہ بلند صرف روزہ دار کو حاصل ہوگا

پیغام رمضان : یہ رتبئہ بلند صرف روزہ دار کو حاصل ہوگا


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

اسلامی عبادات میں سب زیادہ مشکل اور بظاہر انسان (ایمان والوں) کے لئے دشوار اور ناقابل برداشت روزہ ہے۔ رمضان کو چھوڑ کر عام دنوں میں اتنے گھنٹے بھوکا پیاسا رہنا بہت ہی مشکل اور دشوار ہوگا،لیکن رمضان المبارک میں ایمان والوں پر اللہ تبارک و تعالٰی کا خاص فضل و کرم، اور انعام احسان ہوتا ہے کہ وہ پوری بشاشت، خوش دلی، آمادگی اور شگفتگی کے ساتھ حکم ربانی کی وجہ سے ان چیزوں کو رضائے الٰہی کی خاطر برداشت کرتا ہے۔ جاڑے کے دنوں میں دس بارے گھنٹے بھوک اور پیاس کو برداشت کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن مئی اور جون کے مہینے میں جب موسم بہت ہی سخت ہوتا ہے۔

دھوپ میں حدت اور شدت ہوتی ہے، اس وقت بھوک اور پیاس کو پندرہ،سولہ گھنٹے برداشت کرنا بہت ہی مشکل اور دشوار ہوتا ہے۔ (بعض ملکوں میں تو مسلمانوں کو اس سے بھی زیادہ طویل ترین روزہ رکھنا پڑتا ہے کہیں بیس گھنٹے تو کہیں اکیس گھنٹے کا روزہ ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں بہت کم وقت کے لئے سورج غروب ہوتا ہے، تو کہیں سورج ڈوبتا ہی نہیں ہے،آئس لینڈ کے مسلمان پورے بائس گھنٹے کا روزہ رکھتے ہین،سوئڈن میں روزہ کا دورانیہ ۲۱ گھنٹے ۵۸ منٹ کا ہے۔ اسی طرح بعض اور ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کو طویل روزہ رکھنا پڑتا ہے خود ہندوستان میں گرمی کے دنوں میں ساڑھے پندرہ اور سولہ گھنٹے کا روزہ ہوتا ہے)۔ مومن بندہ اس موسم میں روزہ رکھتا ہے، تو اللہ تعالی اس کو اجر و ثواب اور انعام خصوصی سے نوازتا ہے، یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کا یہ عمل اور یہ صبر و برداشت، اللہ کو اتنا پسند ہے، کہ تمام عبادتوں کا اجر و ثواب اور بدلہ اللہ تعالی فرشتوں سے دلوائیں گے، لیکن روزہ دار کا بدلہ، اجر و ثواب اور انعام اللہ تعالی خود اپنے ہاتھ سے دیں گے۔

اور ایک خاص رتبہ اور انعام سے یوں نوازیں گے کہ جنت میں ایک خاص اور مخصوص دروازہ ہوگا جو صرف روزہ دار کے لئے ہوگا اور وہی صرف اس دروازے سے داخل ہوں گے اور پھر ان روزے داروں کے داخلے کے بعد اس کو بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان فی الجنة بابا یقال له الریان یدخل منه الصائمون یوم القيامة،لا یدخل احد غیرھم،یقال این الصائمون ؟ فیقومون،لا یدخل منه احد غیرھم فاذا دخلوا اغلق،فلم یدخلوا منه احد (رواہ البخاری و مسلم)

جنت کے دروازوں میں سے ایک خاص دروازہ ہے،جس کو ۰۰ باب الریان۰۰ کہا جاتا ہے۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہوگا،ان کے سوا کوئی اس دروازہ سے داخل نہیں ہوسکے گا۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے ؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے، ان کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔ جب روزہ دار اس دروازے سے جنت پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔

روزہ دار کو یہ رتبئہ بلند کیوں ملے گا کہ جنت میں ان کے لئے مخصوص اور وی آئ پی گیٹ اور دروازہ ہوگا جس سے صرف اور صرف روزے دار ہی داخل ہو سکیں گے اور پھر ان لوگوں کے داخل ہونے کے بعد یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ میں جس تکلیف اور دقت کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جو روزہ دار کی سب سے بڑی قربانی ہے، وہ اس کا پیاسا رہنا ہے،اس لئے اس کو جو صلہ اور انعام دیا جائے، اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور غالب پہلو سیرابی کا ہوتا ہے،اس مناسبت سے جنت میں روزہ داروں کے داخلہ کے لئے جو مخصوص دروازہ مقرر کیا گیا ہے، اس کی خاص صفت سیرابی و شادابی ہے۔

ریان کے لغوی معنی ہیں ۰۰ پورا پورا سیراب ۰۰ یہ بھر پور سیرابی تو اس دروازے کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہوگا، آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالی کے انعامات و احسانات ان پر ہوں گے، ان کا علم تو بس اللہ تعالی کو ہی ہے،جس کا ارشاد ہے : الصوم لی و انا اجزی بہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روزہ بس میرے لئے ہے اور میں خود ہی اس کا صلہ اور بدلہ دوں گا۔

علماء اور اہل علم نے روزہ کے اس پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے کہ روزہ اطاعت کی طویل مشق ہے اس کے حدود و شرائط دیگر عبادتوں کے مقابلے سخت ہیں۔ روزہ ایک لمبی مدت تک شریعت کے احکام کی لگاتار اطاعت کراتا ہے۔

ہر سال مکمل ایک مہینہ صبح سے شام تک اور پھر شام سے صبح تک مسلمان کو مسلسل ایک فوجی کی طرح پورے قاعدے ضابطے اور اصول میں باندھ کر رکھا جاتا ہے، اسے خاص ایمانی و ربانی ماحول فراہم کیا جاتا ہے،سارے شیطانوں کو یا کم از کم سرکش شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے،جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، یہ سب کچھ تربیت اور اصلاح حال کے لیے کیا جاتا ہے۔اور پھر گیارہ مہینے کے لیے مومن روزے دار بندے کو چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ جو تربیت، مزاج اور ماحول اس ایک مہینہ میں اس نے حاصل کی ہے، اس کے اثرات ظاہر ہوں اور جو محسوس کرے وہ دوسرے رمضان میں پوری کرے۔۔
 
اللہ تعالٰی ہم تمام روزے داروں کے لئے ۰۰ باب ریان۰۰ سے جنت میں داخلہ آسان فرمائے اور روزہ داروں کے لئے جو انعامات مخصوص ہیں ان کا مستحق اور حق دار بنائے آمین۔
ناشر/مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے