مالداروں کے بچے اور مدرسے
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450
علامہ اقبال کی مشہور نظم ”جواب شکوہ“ کا ایک شعر ہے کہ
اُمَرا نشّۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے مِلّتِ بیضا غُرَبا کے دم سے
اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کا مالدار اور طاقتور طبقہ عام طور پر دین سے دور ہوتا ہے، ان کی زندگیاں مغربی سانچے میں ڈھلی رہتی ہیں، اس صورت حال کے جہاں مالدار حضرات ذمے دار ہیں وہیں ہمارے علماء کرام بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔ بلاشبہ ان تک دین پہنچانا ان کی دینی فکر کرنا ان کو بھی اخرت کی گرفت سے باخبر کرنا علماء کرام کی ذمےداری ہے۔ کیا دولتمند مسلمانوں کو اس لیے اپنی حالت پر چھوڑا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس دولت ہے اور وہ نہیں سنیں گے ؟ کیا دولت اللہ تبارک و تعالیٰ کا عطیہ نہیں جسکو قرآن کریم نے خیر اور فضل کہا ہے ؟ یقیناً آپ کا جواب یہ ہی ہوگا کہ دین اسلام ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کیا جانا چاہیے۔
مدارس اسلامیہ پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مدرسوں میں اکثر و بیشتر غریب و نادار طلباء پڑھنے آتے ہیں اس لیے ان طلباء پر فیس کھانے پینے اور رہائش وغیرہ کا بار نہیں ڈالا جانا چاہیے ورنہ بھارتی مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ غربت کی وجہ سے جہاں عصری تعلیم سے دور ہے وہیں مذہب سے بھی دور ہوجائے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خدشہ صرف خدشہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ مگر اس حقیقت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مدرسے صرف روایتی انداز میں ہی تعمیر کیے جائیں اور ان کی تعمیر و ترقی میں زمانے کی رفتار، طرز معاشرت، تہذیب و تمدن کے جائز تقاضوں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مالدار مسلمان اپنے بچوں کو مدارس اسلامیہ سے اس لیے دور رکھتے ہیں کہ نہ تو وہاں کا تعلیمی معیار اچھا ہے نہ معیاری سہولیات ہیں، نہ کھانے پینے کا بہترین نظام ہے۔
ہمارے عزیز دوست حاجی محمد عرفان صاحب (دہلی ) اپنے بچے کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں، وہ اپنے بچے کو لیکر دہلی کے دو مشہور اور حفظ قرآن کی تعلیم اور سہولیات کے اعتبار سے اچھے مانے جانے والے مدرسوں میں گئے، مگر حاجی جی نے دونوں ہی مدرسے فیل کردیے۔ میں نے ان سے معلوم کیا کہ حاجی جی آپ کیسا مدرسہ چاہتے ہیں ؟ انہوں نے بتلایا کہ مولانا صاحب میں ایسا مدرسہ چاہتا ہوں جس میں طلبہ کے لیے ہر قسم کی سہولیات اعلیٰ درجے کی ہوں، طلبہ کے کھیل کود کے ماہر کوچ مقرر ہوں، کھیلنے کے لئے باقاعدہ مدرسے کا اپنا کھیل کا میدان Play ground ہو، عوامی عطیات کا ایک پیسہ اس مدرسے میں نہ ہو، جس طرح سے دہلی میں گرین فیلڈ اسکول ہوتے ہیں اسی طرح کے حفظ قرآن کے مدرسے بھی ہونے چاہئیے، مولانا صاحب میں منہ مانگی فیس دینے کے لئے تیار ہوں اور میں ہی نہیں بہت سے أہل ثروت حضرات بھی اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں وہ بھی تیار ہوجائیں گے۔
دہلی میں تحفیظ القرآن کے بعض مدارس اچھی خاصی فیس لیتے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ عوامی چندہ لینے سے بھی نہیں چوکتے، یعنی ان کے پاس دولت کی کمی نہیں مگر مذکورہ قسم کی اعلیٰ ترین سہولیات دینے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دولت کی ہوس اور عیاشی نے اس طرف سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
قارئین کرام ! میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے مالدار لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں مگر مدارس کی ناگفتہ بہ حالت، غذائیت سے بھرپور خوراک کی کمی، تربیت سے عاری ماحول کو دیکھ کر وہ کسی بھی صورت اپنے بچوں کو مدارس اسلامیہ کے حوالے نہیں کرنا چاہتے، دہلی ممبئی جیسے بڑے شہروں میں قائم چھوٹے چھوٹے مدارس جن سے مالدار مسلمانوں کا زیادہ واسطہ پڑتا ہے وہ زیادہ بدتر اور بے شعوری اڈہ ہیں، ان مدارس کا معیاری دینی تعلیم سے تعلق تو درکنار نارمل دینی تعلیم سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔
میں دردمند علماء کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تحفیظ القرآن کے اعلیٰ ترین اور جدید سہولیات سے آراستہ مدارس ضرور قائم کریں جن میں عوامی چندہ زکوٰۃ صدقات وغیرہ کا ایک روپیہ نہ ہو مکمل طور پر فیس پر منحصر ہو، جن میں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کا بھی خیال رکھا جائے اس قسم کے معیاری مدرسوں کی ضرورت فوری طور پر دہلی ممبئی بنگلور چیننی وغیرہ جیسے بڑے شہروں میں ہے، سوء اتفاق ! دولت بٹورنے والے چھوٹے چھوٹے مدرسے — جنکا نہ کوئی مقصد ہے اور نہ کوئی کارکردگی وہ صرف عطیات بٹورنے کی مشینیں ہے جن میں چند غریب و نادار بچے پلتے ہیں اور مالدار مسلمان ان کو دیکھ کر ڈرتے ہیں— ان ہی بڑے شہروں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر دینی تعلیم کا نظام بھی اعلیٰ درجے کا ہوجائے تو ملت غرباء کے دم کے ساتھ ساتھ امرا کی دولت سے بھی جگمگا جائے گی۔
0 تبصرے