Ticker

6/recent/ticker-posts

قیادت کی نظریات سے وابستگی

قیادت کی نظریات سے وابستگی

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

انجمن اسلامیہ گراؤنڈ ممبئی میں استاد محترم حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب نے اپنی طرف سے جمعیۃ کے دونوں گروپ میں اتحاد کی کوششوں پر گفتگو کی، جوکہ نہ صرف بیان بازی اور جواب الجواب کی نظر ہوگئی بلکہ اختلاف کی کھائی مزید گہری ہوگئی، حقیقت یہ ہے کہ اس قدر حساس اور اہم معاملہ عوام الناس کی بھیڑ میں طے نہیں کیا جاتا، عوام الناس میں تو مخصوص میٹنگوں میں معاملات طے کرکے اتحاد کا اعلان کیا جاتا اور بس۔ یہ روش بتلاتی ہے کہ ہماری قیادت آخری حد تک نا اہل ہوچکی اب اس قیادت سے کوئی خیر کی امید نہیں ہے۔


ایک غیرجانبدار مبصر بھارتی مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ پر جب گفتگو کرتا ہے مسلم قیادت کی کارکردگی اور لاپرواہیوں پر بحث کرتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہاں کے ذمے داران نے ہمیشہ اسلام کو اور مسلمانوں کو استعمال کیا ہے وہ کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے استعمال نہیں ہوئے، قدیم زمانے میں یہ ہی روش بادشاہوں کی تھی، اورنگزیب کے بعد مذہبی و سیاسی قیادت کی بھی یہ ہی روش رہی ہے بیسویں صدی میں مسلمانوں کے اندر سیکولر اور کمیونسٹ قیادت اٹھی جو کہ آپس میں تو دست و گریباں تھی ہی مزید یہ کہ دونوں ہی گروہوں نے مسلمانوں سے انکا مذہب بھی چھینا، بھارت میں کمیونسٹ اور سیکولر نظریات کمزور پڑنے کے بعد مذہبی و ملی تنظیموں کے صدور سیاسی لیڈران اور مدارس اسلامیہ کے مہتمموں نے یہ رہی روش اختیار کی، یعنی اسلام اور مسلمانوں کو استعمال کیا کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے استعمال نہیں ہوئے۔


غور کرنے کا مقام ہے کہ جس طرح سے ملی تنظیموں میں، سیاست میں، مدارس اسلامیہ کے اہتمام میں، درگاہوں میں، موروثیت اور کنبہ پروری کی روش چلتی ہے اسی طرح اگر غلطی سے حکومت و اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آجائے تو قدیم زمانے کا وہی گھسا پٹا خاندانی نظام زندہ کردیا جائے گا، سعودی عرب میں بھی اس کا تجربہ ہوچکا اور اب پاکستان کی سیاست میں جو فساد برپا ہے اس کے پیچھے یہ ہی خاندان پرستی اور کنبہ پروری ہے۔


اپنے نظریات سے سچی اور حقیقی وابستگی کیا ہوتی ہے؟

غیر مذہبی لوگوں سے سیکھو، دنیا میں کمیونسٹ اور سیکولر نظریات کی بنیاد پر قیادتیں اٹھی بھی ہیں اور اقتدار تک پہنچی بھی ہیں اور آج تک قائم بھی ہیں اسلام پسندوں کا دعویٰ ہے کہ دونوں ہی نظریات غیر فطری اور انسانیت کے لیے تباہ کن ہیں مگر کمال دیکھئے اسلام پسند طاقتیں نظریاتی صحت کے باوجود نا اقتدار تک پہنچ سکی اور نا ہی سماج کو اس طور پر متاثر کرسکی کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات و خصوصیات اس کا لازمی حصہ بن جائے، دوسری طرف غیر فطری نظریات والی طاقتیں بہترین تال میل، شاندار کارکردگی، بےمثال جد و جہد اور آپسی تعاون و اتحاد کے ذریعے ابھری اور پھر ابھرتی ہی چلی گئی اور آج دنیا بھر میں انسانی ساختہ نظریات کی دھوم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عملی جد و جہد کا کسی بھی نظریے اور منصوبے کو بروئے کار لانے میں زبردست کردار ہوتا ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے ہماری تنظیموں کے پاس نہیں ہے ہمارے ادارے اس قسم کی ”عملی منصوبہ بندی“ سے خالی ہیں۔


ہر ایک کو اسلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود سے زیادہ اپنے مفاد عزیز ہیں، جمعیت علمائے ہند کے قائدین سمیت اکثر و بیشتر قائدین ٹھوس نظریات اور عملی جد و جہد سے صرف نظر کرکے عارضی مراعات پر نظر جمائے رکھتے ہیں۔ آج جب ہم اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں تو سیکولر اور کمیونسٹ حضرات کی طرف سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر اسلام اتنا ہی حق سچ اور انسانیت نواز ہے تو خلافت اسلامیہ جسکو تم ماڈل حکومت کہتے ہو اس کی مدت صرف 30/ سال کیوں ؟ جبکہ کفریہ عقائد پر مبنی نظریات کی حکومت 250 سال سے نہ صرف قائم ہے بلکہ عرب ممالک کے عوام بھی اسی نظام کو لانے کے لئے پر تول رہے ہیں ؟ یہاں اس بات کو جان لینا ضروری ہے کہ جمعیت علمائے ہند نے نہ صرف اسلامی نظام کے لئے کبھی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ آن ریکارڈ نظامِ مصطفےٰ کی مخالفت پر فخر جتایا ہے، مزید یہ کہ جمعیت علمائے ہند نے بھارت کے پس منظر میں بیدار مغز قیادت کو زندہ دفن کرنے کی کوشش جان بوجھ کر کی ہے، مثلاً مسلم مجلس مشاورت کی سخت مخالفت کی، اسد الدین اویسی کی مخالفت کی، پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کی حمایت کی، وغیرہ وغیرہ۔


آئیے اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں! مذکورہ بالا سوال اپنے اندر بھاری معنویت رکھتا ہے، مولانا وحیدالدین خاں صاحب مرحوم کی طرح یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مذکورہ بالا سوال ان لوگوں کی تعبیر دین پر صادق آتا ہے جنہوں نے اسلام کو ایک سیاسی نظریہ بنادیا۔ بنظر احتساب اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے مذکورہ بالا سوال کا جواب دیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی قیادت نے خالص اسلامی نظریات سے کبھی بھی حقیقی وابستگی نہیں دکھائی، تاریخ میں جس کسی بادشاہ نے خالص اسلامی نظریات کی بنیاد پر حکومت کی ہے اسکا زمانۂ حکومت اپنے ہم عصر بادشاہوں سے نہ صرف ممتاز رہا ہے بلکہ انسانی معاشرہ قتل و غارت اور جرائم سے پاک رہا ہے اور خدا کی زمین فساد فی الارض سے پاک رہی ہے۔ اسلامی نظریات سے عدم وابستگی ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے مصلح Reformer بڑے بڑے علماءکرام تو بہت پیدا ہوئے مگر دور اول کے بعد ایسا کوئی قائد پیدا نہیں ہؤا جس کی قیادت خالص اسلامی نظریات کی بنیاد پر ہو اور برصغیر ہندوپاک میں تو اسلام کو خانقاہوں اور مزاروں میں قید کردیا گیا بچا کھچا دین مساجد کی چہار دیواری میں ہچکولے لے رہا ہے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے