شکر گزار نانی اماں کی کہانی : سروج سے افروز تک
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450
ہمارا عارضی قیام غازی آباد کے صاحب آباد علاقے میں واقع تلسی نکیتن فلیٹس میں ہے، ہمارے پڑوس میں ایک مسلم فیملی رہتی ہے دو چار روز سے ان کے یہاں ایک بزرگ خاتون مہمان آئی ہوئی ہیں معلوم کرنے پر انہوں نے بتلایا کہ یہ ہماری نانی اماں ہیں، چنانچہ ہم بھی انکو ”نانی اماں“ کے نام سے پکارنے لگے، نانی اماں وقت گزاری کے لیے وقتاً فوقتاً ہمارے یہاں بھی آنے جانے لگی، ایک روز میں نے سوچا کیوں نہ نانی اماں کے گزرے ہوئے ایام کو کریدا جائے ؟ ہر انسان قدرت کا شاہکار ہے اس کی سوچ الگ، اس کی داستان الگ، تاریخ الگ اور تجربات بھی الگ، کیونکہ قادر مطلق نے ہر انسان کی تقدیر ہی الگ لکھی ہے۔
نانی اماں کا نام افروز بیگم ( پیدائش 3/ نومبر 1952 ) قبولِ اسلام سے پہلے انکا نام ”سروج“ تھا، والد کا نام منوہر لال منوچا۔ منوہر لال منوچا ملک کی تقسیم کے وقت لاہور سے دہلی آگئے اور باڑہ ہندو راؤ میں رہنے لگے افروز کی پیدائش باڑہ ہندو راؤ ہی میں ہوئی، مونس نامی مسلم نوجوان سے شناسائی ہوگئی اور نتیجتاً قبولِ اسلام اور شادی دونوں ہوگئی۔ میں نے پوچھا شادی کی وجہ سے اسلام قبول کیا یا اسلام قبول کرنے کی وجہ سے شادی کی ؟ نانی اماں کچھ دیر کے لیے اپنے ماضی میں گم سی ہوگئی پھر انہوں نے کہا ”میں نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا، قبولِ اسلام کے بعد والدہ کافی ناراض رہی جبکہ والد صاحب کو کوئی اعتراض نہیں تھا، میں نے ترجمہ قرآن مجید مکمل طور پر پڑھا ہے اور ادائیگی نماز کے لیے دس سورتیں بھی حفظ کی ہیں “۔ میں نے پوچھا کہ نانا ابا ( آپ کے شوہر) کا انتقال کب ہؤا انہوں نے جواب دیا 27/ سال پہلے۔
میں نے پوچھا بوڑھاپا کیسا گزر رہا ہے کہنے لگی بہت اچھا گزر رہا ہے، میں اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں میری چار بیٹیاں ہیں سب کی شادیاں ہوگئی چاروں بیٹیاں مجھے ہاتھوں ہاتھ رکھتی ہیں، ایک داماد ذرا مجھے بوجھ سا مانتے ہیں تو میں ان کے یہاں کم ہی جاتی ہوں، پھر بھی ان کی غیر موجودگی میں میری بیٹی مجھے بلالیتی ہے۔ عام طور پر بزرگ مائیں اپنے بیٹوں کی لاپرواہی اور بہوؤں کے ظلم کا رونا روتی ہیں، مجھے حیرت ہورہی تھی کہ ان کی زبان پر اسطرح کی کوئی شکایت نہیں تھی، میں نے پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ کے یہاں بہو بیٹا نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ! میری صرف چار بیٹیاں ہیں ایک بیٹا تھا مگر وہ بچپن ہی میں انتقال کر گیا۔ لوگ لڑکوں کو بڑھاپے کا سہارا بتلاتے ہیں مگر یہاں تو لڑکیوں نے مورچہ سنبھالا ہؤا ہے، بقول شاعرہ لتا حیا
اسے تنہا سسکتا چھوڑ جب آیا میرا بھائی
میں بیٹی ہوں میں اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے آئی
نانی اماں اس بوڑھاپے میں بھی صاف ستھری اور نہائی دھوئی رہتی ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ اگر نانی اماں کے یہاں نرینہ اولاد ہوتی تو شاید وہ اتنی خوش نہ رہتی، وہ لازماً ساس بہو کے جھگڑے میں الجھ جاتی، بیٹے کا دھمکی آمیز لہجہ ضرور انکو سہما دیتا۔ میں نے معلوم کیا کہ آپ کے اصل مکان کا کیا ہوا جس گھر میں آپ شادی کرکے گئی تھی ؟ انہوں نے انتہائی صبر آمیز لہجہ میں کہا کہ شوہر کی زندگی ہی میں میرے جیٹھ نے مکان پر قبضہ کرلیا تھا، دنیا سے وہ بھی خالی ہاتھ گئے مکان یہیں پر رہ گیا اور میں بھی خالی ہاتھ چلی جاؤں گی۔ کمال کی بات ہے کہ جیٹھ کے تعلق سے نانی اماں کی زبان پر شکایت کا ایک حرف تک نہیں تھا۔ یہ ہمارے سماج کا بہت بھیانک مسئلہ ہے خواہ وہ سماج مسلم ہو کہ غیر مسلم کہ اگر بہو بیوہ ہوجائے تو سسرالیے بہو کو دودھ میں سے مکھی کی طرح الگ کردیتے ہیں اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتے ہیں، مگر نانی اماں اپنے مکان پر قبضے کی داستان صبر و تحمل کے ساتھ بتلارہی تھی، محسوس ہورہا تھا کہ ان کی 70/ سالہ زندگی نے انکے دماغ میں یہ سبق آخری حقیقت کے روپ میں بٹھا دیا ہے کہ ”انسان کچھ بھی کرلے اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی جانا ہے“۔ خدائے بزرگ و برتر نے نانی اماں کے صبر کا یہ بدلہ دیا کہ ان کے بھتیجوں کے دل میں رحم ڈال دیا اور بھتیجے اپنی بزرگ چچی ( نانی اماں ) کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔
نانی اماں انتہائی صابرہ اور شاکرہ اور ایمان پر ثابت قدم خاتون ہیں، ایک عورت سر چھپانے کے لئے اپنا سب کچھ داؤں پر لگادیتی ہے، چند سال ہماری مسجد کے برابر میں ایک مسلم بیوہ خاتون غیر مسلم شرابی مرد کے ساتھ رہتی تھی، میں نے ان سے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس غربت زدہ عورت نے کہا کہ أمام صاحب سر چھپانے کے لئے کسی کا تو ہاتھ پکڑنا ہی تھا، ماں باپ مرچکے بھائی وغیرہ خود کرائے وغیرہ پر رہتے ہیں، اب میں کہاں جاؤں ؟ دوسری طرف نانی اماں کو دیکھیے ان کے غیر مسلم مائکے والے نانی اماں کو کہہ رہے ہیں کہ تم واپس ہندو دھرم میں آجاؤ، ہم تم کو مکان بھی دیں گے۔ قربان جاؤں نانی اماں کی ثابت قدمی پر ! انہوں نے اس تجویز کو ٹھکرادیا۔
0 تبصرے