Ticker

6/recent/ticker-posts

طلباء کی خارجی تعلیم کا مسئلہ

طلباء کی خارجی تعلیم کا مسئلہ


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

دارالعلوم دیوبند کی مجلس تعلیمی نے دارالعلوم کے کیمپس میں زیرِ تعلیم طلباء کی نصاب سے الگ خارجی تعلیم (انگلش کمپوٹر وغیرہ ) سیکھنے پر پابندی عائد کردی ہے، یہ فیصلہ بلاشبہ شرعی اخلاقی اور قانونی طور پر درست فیصلہ ہے۔

دارالعلوم اپنی تمام تر سہولیات و انتظامات اپنے متعین نصابِ تعلیم کے لئے بروئے کار لاتا ہے اور طلباء بھی اسی کو پڑھنے کے لئے داخلہ لیتے ہیں، مگر طلباء دارالعلوم میں داخل ہوکر غیر درسی تعلیم میں لگ جاتے ہیں اور بدترین خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں، جس پر پابندی لگنی ضروری تھی جو کہ لگادی گئی، مگر شوشل میڈیا پر جس طرح سے کچھ لوگوں اس فیصلے پر ردعمل دیا ہے وہ سراسر غلط ہے، بدنیتی پر مبنی ہے۔ ہر ادارے کو آزادانہ طور پر اپنے اندرونی معاملات ترتیب دینے کا مکمل حق ہے، کسی کو کوئی حق نہیں کہ کسی انسان یا ادارے پر اپنی مرضی تھوپے۔ مولانا شبلی نعمانی نے ہندوؤں کی پاٹھ شالاؤں ( گروکل) کے نصاب کے بارے میں لکھا ہے ”کہ خود ہماری ہمسایہ قوموں کا کیا حال ہے، آریہ انگریزی تعلیم میں اس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں کہ مسلمان ان کی گرد تک بھی نہیں پہنچتے، تاہم وہ گروکل بھی قائم کررہے ہیں جو سنسکرت کی تعلیم کے لئے مخصوص ہیں اور جس کا مقصد صرف اپنے مذہب اور اپنے لٹریچر کی اشاعت ہے، اس گروکل میں جو لڑکے داخل ہوتے ہیں ان سے عہد لیا جاتا ہے کہ دنیا کا کوئی کام نہیں کریں گے، 24/ برس کی عمر تک ان کو تعلیم دی جاتی ہے، ان کو نہایت سادی اور خشک غذا دی جاتی ہے، سونے کو لکڑی کا تختہ ملتا ہے، اپنے ہاتھ سے سب کام کرنا پڑتا ہے، اس جفاکشی اور دنیا سے بے تعلقی کے ساتھ تین سو دولت مندوں نے اپنے بچے اس میں بھیج دیے اور 24 ماہوار ایک ایک بچہ کا خرچ دیتے ہیں...“ ( مقالات شبلی صفحہ 149 )


دارالعلوم سمیت تمام مدارس اسلامیہ کی حیثیت مسلمانوں کے مذہبی ادارے کی ہے، جس طرح دیگر اقوام کو اپنے مذہبی ادارے آزادانہ طور پر چلانے کا قانونی حق ہے بعینہٖ اسی طرح مسلمانوں کو بھی حق ہے اور ہم ہرگز کسی کو بھی اس حق پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

دوسری طرف دارالعلوم دیوبند کی ہیئت حاکمہ سمیت تمام مدارس اسلامیہ کے ذمے داران کو سوچنا چاہیے کہ آخر مدارس اسلامیہ کے طلباء کیوں غیر درسی تعلیم کی طرف جارہے ہیں ؟ کہیں ہمارا تعلیمی نظام تو ناقص نہیں ؟ کہیں ہمارا یہ روایتی سسٹم طلباء عزیز کے مستقبل کو برباد تو نہیں کر رہا ہے ؟ کہیں طلباء اس سسٹم کو ازکار رفتہ تو نہیں سمجھنے لگے ؟


حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ قسم کے تمام سوالات طلباء کے ذہنوں میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ وہ ان سوالات ہی کی وجہ سے دائیں بائیں ہوتے جارہے ہیں اور مدارس اسلامیہ کے ذمے داران نے مذکورہ سوالات حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ قارئین کرام ! اگر مندرجہ ذیل صورت حال پر غور کریں تو طلباء کی موجودہ ”خیانت“ کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

1۔ مدارس اسلامیہ سے فارغ ممتاز اور اعلیٰ نمبرات کا حامل طالب علم روزی روٹی کمانے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے، جبکہ ایک کمتر درجہ کا طالب علم چاپلوسی یا مہتمم کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ادارہ کا مہتمم بن کر اس ”ممتاز طالب علم “ پر سوار ہوجاتا ہے، تو ایک ذہین اور دوربیں طالب علم اس ناانصافی پر کیسے قانع ہوسکتا ہے ؟


2۔ مدارس اسلامیہ کے فارغ طلباء کے لئے ممکنہ طور پر تین ہی میدان عمل ہیں، مساجد کی امامت، وحدہ لاشریک مہتمموں کے مدارس یا پھر 25/ گز کے نئے مدارس کا قیام۔ تینوں ہی میدان کی حقیقت اور محدودیت دانشورانِ قوم سے پوشیدہ نہیں ہے، دوسری طرف بہت سے طلباء کمپیوٹر وغیرہ سیکھ کر ملک و بیرون میں اچھی خاصی زندگی گزار رہے ہیں تو آپ ہی بتلائیں کہ طالب علم کس طرف جائے گا ؟

3۔ مدارس اسلامیہ میں طلباء کو بہت آسانی سے علم طب، اردو ٹیچر اردو عربی مترجم وغیرہ کی تیاری کرائی جاسکتی ہے جس سے مدارس اسلامیہ کے طلباء کی معاشی خوشحالی کا کچھ تو مداوا ہوہی سکتا ہے مگر اس طرف سے بھی مجرمانہ غفلت دیکھنے میں آتی ہے۔ طلباء اس خلا کو خود ہی پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر وہ مذکورہ خیانت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

4۔ مدارس اسلامیہ میں جو موضوعات پڑھائے جاتے ہیں ان کی تشریح و توضیح متعین سی ہے، 100 سال پہلے بھی وہی تھی اور 100 سال بعد بھی وہی رہے گی، نئے مسائل کے تعلق سے اجتہاد کا حق ہر کسی کو نہیں دیا جاسکتا، تو اس صورتِ حال میں طالب علم اگر حدیث و تفسیر کا کوئی ایک گھنٹہ مستقل مزاجی کے ساتھ پڑھ لے تو بقیہ کتابیں از خود حل ہوجاتی ہیں کیونکہ متعین سی بحثیں ہیں متعین سے مسائل و دلائل اور طرزِ استدلال ہے ، تو اب کند ذہن طالب علم تو حصول برکت کے لئے یا جھک مارنے کے لئے بقیہ گھنٹوں میں بیٹھا رہے گا مگر ایک ذہین طالب علم کسی طور پر بھی وقت کا ضیاع نہیں کرسکتا اور پھر وہ غیر درسی علوم سیکھنے کی طرف دوڑے گا اور اپنے وقت کو کام میں لگائے گا۔


افسوس کریں یا تعجب ! آپ کا حق ہے، ہمارے ساتھ ایک طالب علم دارالعلوم دیوبند میں تین سال پڑھا، اسکا زیادہ تر وقت کمپیوٹر سیکھنے میں گزرا اور ماشاءاللہ کمپیوٹر کا بہترین استاد بن گیا، دارالعلوم کے مروجہ نصاب تعلیم کو اس قدر آسان سمجھتا تھا کہ بغیر پڑھے بھی کتاب کا تکرار کرادیتا تھا، دورے کے سال میں پورے سال درسگاہ نہیں گیا، حتیٰ کہ دارالعلوم کے ہردلعزیز استاد مفتی محمد سعید صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی شکل سے بھی ناواقف تھا مگر امتحان میں کامیاب ہوا اور اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوا، اس کا کہنا تھا کہ قرآن وحدیث اور نصاب میں شامل کتابوں کی عربی اردو میں بے شمار شرحیں آچکی، اب تو‌ طالب علم کو 3/ سال تک عربی زبان وادب اور عقائد وغیرہ سکھاکر بقیہ دو سالوں میں حدیث و تفسیر کی کتابوں کا تفصیلی مطالعہ کرادینا چاہیے اور پانچ سال میں طالب علم کو ”مولانا“ بناکر فارغ کردینا چاہیے، اس کے بعد مختلف علوم کے لیے ”تخصصات“ کی درجہ بندی کردینی چاہیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے