Ticker

6/recent/ticker-posts

عورتوں کا حصول معاش اور ہمارا سماج

عورتوں کا حصول معاش اور ہمارا سماج


بہت کم ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو اسلامی حدود میں رہ کر اس طرح پیسہ کماتی ہیں کہ اس کا برا اثر نہ گھر پر پڑتا ہو نہ سماج پر۔اسلام میں عورت کو پیسہ کمانے کی اجازت ہے، حکم نہیں۔ اجازت ایک رخصت ہے جس کے نہیں ادا کرنے پر کوئی پرشش نہیں ہوگی جبکہ حکم نہیں ماننے پر اللہ تعالیٰ سوال کرے گا۔ اجازت عارضی ہوتی ہے جبکہ حکم دائمی۔کسب معاش کا حکم مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں۔ اگر کوئی مجبوری ہے تو عورت کسب معاش کے ذریعہ گھر کی جائز ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے، لیکن جیسے ہی فراغت ہو جائے عورت کو جان اس اضافی ذمہ داری کو چھوڑ دینا چاہیے۔ مرد قوام یعنی گھر کا ذمہ دار ہے لہٰذا معاشی ذمہ داری وہی ادا کرے گا۔اضطراری حالت میں عورت پیسہ کماسکتی ہے مگر دینی غفلت کے سبب اس کے برے اثرات کا حل تلاش ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بیشتر مرد حضرات اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں اور معاشی خوشحالی کے لئے عورت کے کسب معاش کا سہارا لے رہے ہیں۔ دین کا کمزور تصور دراصل سماج کو ہر محاذ پر کمزور کر رہا ہے۔ بیشک اس کا حل دین میں ہی تلاش کرنا ہوگا۔


قرآن کی سورہ نساء آیت 34 کے مطابق " مرد عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں"۔

سرفراز عالم

اس سورت میں مال خرچ کرنا مردوں کا کام بتایا گیا ہے جو عورتوں پر مردوں کو فضیلت کا ذریعہ بھی ہے۔اس طرح حصول معاش کے سلسلے میں قرآن کی یہ آیت بالکل واضح پیغام دیتی ہے جو حکم کا درجہ رکھتی ہے۔

کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہؓ کی تجارت کا واقعہ بہت ہی معروف و مشہور ہے۔ آپ کی تجارت نبی کریمؐ سے شادی کے بعد بھی جاری رہی جس میں آپؐ بھی شریک رہے۔حضرت اسماءؓبنت مخزمہ عطر کا کاروبار کرتی تھیں۔حضرت خولہ بنت قیسؓ اس قدر عطر فروخت کرتی تھی کہ وہ عطّارہ کے نام سے مشہور ہو گئی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زوجہ حضرت زینبؓ دستکاری کے فن سے واقف تھیں اور اس کے ذریعہ اپنے بچوں، یہاں تک کہ خاوند کے اخراجات کا بھی بندوبست کرتی تھیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام عورت کو حصول معاش کی اجازت دیتا ہے۔ بیشک لیکن ایسا کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ وہ نبوی معاشرہ تھا۔ایک ایسا معاشرہ جس میں پاک روحوں کا عملی نظام قائم ہوچکا تھا۔آج کے جیسا کاٹ کھانے والا سماج نہیں تھا۔


حیرت یہ نہیں ہے کہ مردوں نے ہی اپنی ذمہ داریوں سے منھ موڑ کر عورتوں کو اپنے گھر کا قوام بنا دیا ہے بلکہ تعجب یہ ہے کہ آج کے لگ بھگ سبھی خطیب، واعظ، امام، مقرر وغیرہ اس کی اصلاح تو دور ذکر تک کرنا بھول گئے ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ حمام میں سبھی ننگے نظر آتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ غیر اسلامی سسٹم نے دنیا بھر کی عورتوں کے لئے مواقع پیدا کرکے دانشوروں کو اس سوال میں الجھا دیا ہے کہ کیا اسلام میں مساوات نہیں ہے؟ جب مرد کما سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں کما سکتی ہے، وغیرہ؟


ان تمہیدی جملوں کا مقصد خاص یہ ہے کہ عورت جب کمانے کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہے تو کن کن مرحلوں سے اسے گزرنا پڑتا ہے، کن کن برائیوں کا اس کو سامنا کرنا پڑتا ہے، کن کن جسمانی اور ذہنی اذیتوں کو سہنا پڑتا ہے،اس کی وجہ سے سماج میں کون کون سی برائیاں پنپتی ہیں،اپنے ہی گھر پر کون کون سے برے اثرات پڑتے ہیں، نئی نسل ایسی عورتوں سے کیا کیا سیکھتی ہے، گھر کی کون کون سے ذمہ داریاں چھوٹتی ہیں وغیرہ کا جائزہ لیا جائے گا۔


عورت کا کمانا اگرچہ منع نہیں ہے لیکن اسلام کی نظر میں پسندیدہ بھی نہیں ہے۔اکثر گھروں میں کمانے والی عورتیں اپنے پیسے کو فضولیات پر ہی خرچ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس پر حرام کا فتویٰ تو کوئی نہیں لگا سکتا ہے مگر اسلامی ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے۔کسی بھی اسلامی ماخذ سے عورت کا قوام ( گھر کی معاشی ذمہ دار ) ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے لہٰذا اس تعلق سے عورت سے پرشش بھی نہیں ہوسکتی ہے۔ہاں بغیر کسی مجبوری کے عورت کا مال کمانا مرد کو کٹہرے میں ضرور کھڑا کردیتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ شعبے میں خواتین کی ملازمت کرنا معاشرہ کی اجتماعی ضرورت بھی ہوتی ہے مثلاً ولادت اور زنانہ امراض کے لئے ڈاکٹر، مدرس جو لڑکیوں کے لئے بہترین تعلیم و تربیت کا نظم کرسکیں، وغیرہ۔


بدلتے ہوئے سماجی منظرنامے میں عورت اور مرد کے ساتھ مل کر کمانے کو قبولیت حاصل ہو گئی ہے اور خوشی کا پیمانہ بھی مان لیا گیا ہے بلکہ کہیں کہ اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ ان دنوں ایسے 10 میں سے 8 گھروں میں میاں بیوی کے درمیان نوک جھونک عام بات ہوگئی ہے بلکہ ایسی عورتیں مردوں پر کنٹرول کر چکی ہیں۔ اگر نوک جھونک پر زبان کی تلوار چل گئی تو گھر بکھر بھی جاتا ہے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ " ذاتی مال اکثر انا کی آبیاری کرتا ہے، انا سے تکرار پیدا ہوتا ہے، تکرار سے ٹکراؤ اور ٹکراؤ تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے جو طلاق تک پہنچ سکتا ہے"۔ طلاق کی شرح بھی ایسے ہی تعلیم یافتہ گھرانوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے ہی گھروں میں بچے کماؤ والدین کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھ کر بڑے ہو رہے ہیں۔ ہاں اگر عورت اسلامی حدود میں رہ کر کمائے اور اپنے خاندان کے افراد کی مدد کرے تو یہ ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ آپؐ نے ایسی عورتوں کو دوہرے اجر کی خوشخبری دی۔


آج ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں صرف مرد کی کمائی سے گھر چلانے والوں کو ناکام کہا جاتا ہے، جہاں قناعت پسندی کو کمزوری مانا جاتا ہے، جہاں تعلیم یافتہ گھریلو خاتون کو پچھڑا ہوا کہہ دیا جاتا ہے، جہاں اسلامی طرز زندگی کو دقیانوسی کہہ کر پکارا جاتا ہے، وغیرہ۔ ویسے بھی موجودہ دور میں معیار زندگی کو اونچا اٹھانے، اونچے بجٹ کی شادی کرنے، بیش قیمت جوڑا بنانے، بیوٹی پارلرس میں پیسہ برباد کرنے اور گھر سے باہر نمود ونمائش سبقت لے جانےکی خاطر بھی مسلم عورتوں کو زیادہ مال کمانے کا چسکا لگ گیا ہے۔میاں بی بی کا مل کر زیادہ سے زیادہ دنیا جمع کرلینا آج کا مقصد خاص بن گیا ہے۔شاید کسی کو پرواہ نہیں کہ اسلام کی اس سلسلے میں کیا تعلیم ہے؟

اللہ تعالیٰ سورہ تکاثر میں فرماتا ہے۔
ترجمہ: " تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم قبر تک پہنچ جاتے ہو‘‘۔


اللہ ہماری حفاظت فرمائے، قرآن نے تو ایسے لوگوں کا نقشہ ہی کھول کر بیان کر دیا ہے۔

ایام جاہلیت سے نکال کر اسلام نے عورتوں کا درجہ بلند کیا اور عزت و احترام بخشا ہے۔وقار کے ساتھ اس کی ذمہ داریاں بتا دی گئیں۔اسلام آیا ہی ہے حق بتانے کے لئے۔اسلام سے بڑھ کر انسانیت کا خیرخواہ کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔

سورہ احزاب آیت 33 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔. ترجمہ : " اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا، اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت گزاری میں رہنا، بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے رسول کے اہلِ بیت.! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے"۔


حدیث میں " عورتوں سے کہا گیا کہ وہ گھر کی ملکہ ہیں"۔ (صحیح بخاری )

قرآن و احادیث کے واضح پیغام کے باوجود آج مردوں نے ہی عورتوں کو غیر فطری کام پر لگا دیا ہے جس کے نقصانات کا مشاہدہ کوئی سنجیدہ انسان آسانی سے کر سکتا ہے۔مرد کی غیرحاضری میں گھر کی دیکھ بھال کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ برابری کے بہانے عورتوں کو گھر سے باہر نکال لیا گیا ہے اور معاشی چکی میں جھونک دیا گیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد عورت کمانے کے لئے گھر سے باہر نہ نکلے تو کیا کرے؟ کیا ایسے لوگ بتا سکتے ہیں کہ دینی احکام سے غافل رہنے کی وجہ سے در پیش مسائل عورتوں کے کسب معاش سے حل ہو جارہے ہیں؟ کیا اب سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا کمانے والی عورتوں کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں؟


فطرت نے ہر مخلوق کو الگ الگ کام پر لگا رکھا ہے۔ اسی طرح مرد عورت کی ذمہ داریاں بھی تقسیم کر دی گئی ہیں۔ یہ صرف اسلام کا مزاج نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری اور متوازن نظام ہے جو مردو زن دونوں کے لئے سکون وراحت کا باعث ہے۔

آج سماج کا تانا بانا ایسا بگڑا ہے کہ شاید ہی کوئی نوجوان کمانے والی لڑکی سے شادی کرنے سے انکار کرے، چاہے نتیجہ جو بھی نکلے۔کیریئر بنانے کے نام پر لڑکیاں اکثر شادی کی عمر کو پار کر لیتی ہیں یا اپنے سے کمتر لڑکے سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتی ہیں۔ایسے حالات میں مرتد ہونے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ کمانے والی عورت کی سب سے پہلی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتی ہے۔اگر اونچی تنخواہ والی سرکاری نوکری ہے تو عورت کے ساتھ اس کے میکے والے بھی شوہر پر مسلط رہتے ہیں۔ایسی حالت میں اگر شوہر سمجھ دار ہے تو سمجھوتہ کرکے اپنا گھر ٹوٹنے سے بچا لیتا ہے ورنہ زندگی بھر احساس کمتری میں جینا پڑتا ہے۔ایسے گھرانے میں بچوں کا رجحان بھی والدہ سمیت اپنے نانیہال پر زیادہ ہوتا ہے۔


دفتر جاتے ہوئے اگر پردہ کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو گھر لوٹنے تک شیطان اس کے ساتھ رہتا ہے۔ باہر لوگوں کی بری نگاہوں کا شکار ہونا تو عام بات ہے اب تو ہر دن واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔آزادی کے نام پر مردوں کے ساتھ نوکری کرنا ہر دن نفس امارہ کو گناہ کی دعوت دیتا ہے۔ایسے واقعات سے پوری دنیا اس وقت بھر چکی ہے۔

مفکر اسلام علامہ اقبال کے نزدیک " عورت کو خلوت کی ضرورت ہے اور مرد کو جلوت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔گھر سے باہر کی زندگی میں مرد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں عورت کو فوقیت حاصل ہے"۔ آج سماجی بیداری کے نام پر عورتیں شرم وحیا کی چادر چاک کر چکی ہیں جس کے نتیجے میں انہیں جنس اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن احساس خود عورتوں کو نہیں ہے۔


نئے تعلیمی نظام میں آج سماج کا لگ بھگ ہر فرد یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے نہیں تو پچھڑ جائیں گے۔ہم دنیا کی نام نہاد ترقی کے پیچھے اس طرح بھاگ رہے ہیں کہ ہمیں اپنی تباہی بھی ترقی نظر آتی ہے۔ دنیا نے کہا کہ مسلمان عورتوں کو پردے میں رکھ کر ان کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے تو ہم نے مان لیا۔مسلم سماج عورتوں کو ان پڑھ رکھنا چاہتا ہے تو بھی ہم نے مان لیا۔ کیا یہ ہماری جہالت نہیں ہے؟


مغربی ممالک کے سماجی بحران سے کون واقف نہیں ہے۔ یہاں پوری آزادی کے ساتھ بغیر روک ٹوک کے رہنا اولین ترجیحات میں شامل ہے۔گھر میں ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ہر فرد اپنی مرضی کا مالک ہے۔اسی وجہ سے نئی نسل ہو یا اپنے گھروں کے بچے سبھوں میں بے راہ روی بڑھتی جارہی ہے۔والدین کے دفتر چلے جانے کے بعد چھوٹے بچے یا تو دائی کے رحم وکرم پر پرورش پاتے ہیں یا اسکول کے ہاسٹل میں داخلہ کرادیا جاتا ہے۔آزادی اور برابری کے نام پر عورتیں نیم برہنہ مظاہرہ کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتے ہیں۔واضح ہو یہ عورتیں مکمل تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔


بی۔ بی۔ سی نیوز ایجنسی کے مطابق خاص طور پر امریکہ میں کچھ اندازوں کے مطابق شرحِ طلاق 70 فیصد ہے۔ خواتین کالج گریجویٹ ہوں، تو یہ شرح 90 فیصد کی حیران کن سطح تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ برطانیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 میں انگلینڈ اور ویلز میں 62 فیصد خواتین نے طلاق کی درخواست دائر کی تھی۔

مغربی ممالک کے مقابلے میں برصغیر ہند، پاک آج بھی کمانے والے مرد کو عزت کی اور کمانے والی عورت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کمانے کی طاقت کے باوجود بیوی کی کمائی پر گزارا کرنا اور گھر اور سماج پر اس کے برے اثرات موضوع بحث بنا ہوا ہے۔اس کے جواب میں یہ کہا جا رہا ہے کہ عورتوں نے یہ بوجھ خود اُٹھانا شروع کردیا ہے جس سے کاہل مردوں کو بے روزگار کرنے کی سازش کامیاب ہوتی جارہی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ بظاہر خواتین کے ملازمت یا کاروبار کرنے کی وجہ سے گھر کے معاشی حالات بہتر تو ہوجاتے ہیں اور شاید بگڑے ہوئے شوہروں کی ظلم زیادتیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔ خواتین کو کچھ آزادی تو حاصل ہوجاتی ہے لیکن ہماری سوسائٹی اور خود عورتوں کو جو اس سے نقصانات ہوئے ہیں وہ چند فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔آپس کے رشتے میں شک شبہات کا دخل ہو جاتا ہے جو اولاد کی تربیت کے لئے بھی تشویش کا باعث بن جاتا ہے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے میں دعا کرتا ہوں کہ اس معاملے میں عورتیں خود سمجھ داری سے کام لیں اور مرد اپنی عورتوں کو سمجھانے کی کوشش کریں۔ زیادہ مال و دولت کے حصول کی جگہ پر اللہ سے برکت کی دعا کریں۔ورنہ زیادہ دولت تو آجائے گی لیکن سکون جاتا رہے گا اور ہمارا سماج وحشی بھیڑ بنتا رہے گا۔اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے، آمین۔

سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
موبائل 8825189373

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے