Ticker

6/recent/ticker-posts

اپوزیشن ”نااہلوں“ سے خالی

اپوزیشن ”نااہلوں“ سے خالی


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2024 میں اقتدار سے بےدخل کرنے کے لئے حزب اختلاف کی 26 پارٹیوں نے اتحاد کرلیا، اس اتحاد کا نام ”انڈیا “ رکھا گیا ہے یعنی Indian national democratic inclusive alliance اس ”انڈیا“ کی دوسری اہم میٹنگ 17/18/ جولائی 2023 کو بنگلور میں ہوئی، مسلمانوں کا ایک طبقہ اس اتحاد پر سوال اٹھارہا ہے اور شکایت کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو اس INDIA میں کوئی جگہ نہیں دی گئی ویسے حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ شکایت لاعلمی پر مبنی ہے کیونکہ ایک تو مسلمانوں کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی ہی نہیں تو جب پارٹی ہی نہیں تو اتحاد میں شامل کسے کریں ؟ دوسرے جو مسلمان لیڈران ہیں وہ جس کسی بھی پارٹی میں ہیں ان کی پارٹیوں کو اس اتحاد میں شامل کیا گیا۔


شکایت کرنے والوں کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ نا اہل اور بھکاریوں کی جگہ حصے داری کے دسترخوان پر نہیں بلکہ گیٹ کے باہر ہوتی ہے، ہم بحیثیت مجموعی بھکاری بن چکے، ہماری قیادت مذہبی ہو کہ غیر مذہبی نااہل ہے۔ آخر ہم کو سوچنا چاہیے کہ جب نہ ہماری کوئی سیاسی پارٹی ہے نہ ہمارا ووٹ متحد ہے تو پھر ہمیں بحیثیت مجموعی اس اتحاد میں کیوں لیا جائے ؟ اور کس کو لیا جائے ؟ کس سے بات کیجائے ؟ بدر الدین اجمل سے بات کی جائے یا اسد الدین اویسی سے یا پھر ڈاکٹر ایوب صاحب سے یا مولانا عامر رشادی صاحب سے ؟ ان میں سے کوئی بھی تو ایسا نہیں جس کی اپنی کوئی سیاسی اہمیت ہو؟ خالی جیب والوں کو کوئی اپنی دکان پر نہ کھڑا ہونے دے، چہ جائیکہ ہمارے نادان بھائی انڈیا نامی اتحاد میں حصے داری کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر مذکورہ بالا لیڈروں میں سے کسی کے پاس صرف اور صرف 25 ایم پی بھی ہوتے تو لازماً آج وہی پارٹی نہ صرف اس اتحاد کا حصہ ہوتی بلکہ اس اتحاد کو اپنے مطالبات پر مجبور بھی کرتی۔


حل

شکوہ شکایت میں وقت گنوانا اچھا نہیں، رونا دھونا مردوں کا کام نہیں، منصوبہ بندی اور پلاننگ کرنا عقلمندوں کا طریقہ رہا ہے، مسلمانوں کے دانشور اور انٹیلیکچوئل طبقے کو چاہیے کہ ایک گروپ تشکیل دے جو ایک متعین پلان اور ملی مفاد کے نظریہ سے نکلے ہوئے اصولوں کے تحت مسلمانوں کی ڈیڑھ اینٹ کی سیاسی پارٹیوں اور سابق و موجودہ مسلم ایم پی حضرات سے بات چیت کرے اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرے اور مسلم سیاسی پارٹی کا نظریہ پیش کرے اگر مسلم لیڈران اپنے ذاتی مفاد اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی پارٹی سے اوپر اٹھ کر معاملات کو طے کریں تو یقین کیجیے کہ 2024 کے عام الیکشن میں کم از کم 50/ سیٹیں نکال سکتے ہیں، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق 100 سیٹ بھی لاسکتے ہیں، ذرا تصور کریں کہ مسلم سیاسی پارٹی 50 سیٹیں لے آئے تو ”انڈیا“ نامی اتحاد ہو کہ بی جے پی کا ”این ڈی اے“ دونوں ہی حکومت سازی کے لیے سلام ٹھوکنے لگیں گے، اگر اقتدار میں شرکت نہ بھی ہوئی تو مسلم سیاسی پارٹی طاقتور اپوزیشن کی شکل میں ظاہر ہوگی۔

راقم تو اپنے کتنے ہی مضامین میں لکھ چکا ہے اور آئندہ بھی لکھتا رہوں گا کہ سیکولر بھارت میں مسلم سیاسی پارٹی ہی ہمارے مسائل کا آخری حل ہے، جمہوریت میں جس سماج کی اپنی سیاسی پارٹی نہیں ہوتی وہ ”معذور سماج“ ہوتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے