احتجاج درج کرانے سے سیاسی پارٹی تک
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450
گزشتہ کئی روز سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں سے یکساں سول کوڈ UCC کے خلاف آن لائن احتجاج درج کرانے کی اپیل کر رہا ہے، طریقہ احتجاج انتہائی آسان ہے بمشکل آپ کے دو منٹ صرف ہونگے اور آپ اس معاملے میں اپنے حصے کی ملی ذمے داری سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ الحمدللہ میں نے اپنا احتجاج آج بروز جمعہ 7/ جولائی 2023 کو درج کرادیا اور جمعہ کی نماز کے بعد سے بیسیوں نوجوانوں کو سمجھا کر ان کے موبائل سے بھی احتجاج درج کرادیا، قارئین کرام اب آپ کا نمبر ہے، اپنا فون اٹھائیں اور تھوڑی سی زحمت برداشت کرکے اپنا اور اپنے احباب کا اور أہل خانہ کا احتجاج درج کرائیں ملی ذمے داری بھی نبھائیں اور اجر و ثواب پائیں۔ یہ بات تو عام مسلمانوں کے تعلق سے ہوئی۔
یونیفارم سول کوڈ کیا ہے ؟ اس تعلق سے کنفیوژن بہت زیادہ ہے قانون کے بڑے بڑے ماہرین کہتے ہیں کہ بی جے پی سمیت کسی بھی پارٹی کے بس میں نہیں کہ وہ کوئی ایسا ”سول کوڈ“ بنادے جو ایک ارب چالیس کروڑ بھارتیوں کو ایک دھاگے میں پرو دے اور یہ لوگ اپنے اپنے پرسنل لاء بخوشی چھوڑ بھی دیں۔ ہم کو آج تک جو سمجھایا گیا ہے وہ یہ کہ مسلمان نکاح طلاق وراثت وغیرہ امور میں قانون ساز اسمبلیوں کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہونگے اور احکام اسلامی سے دستبردار ہونا پڑےگا۔ یونیفارم سول کوڈ کی یہ حیثیت نہ صرف ہماری اسلامی زندگی کے لئے خطرناک ہے بلکہ یہ حیثیت براہِ راست بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی حقوق اور خود ہمارے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے بھی جا ٹکراتی ہے۔ اسی لیے بی جے پی کے لیڈران مسلمانوں کی ”پیش کردہ تعبیر“ کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں مسلم راہنما مسلمانوں کو بھڑکا رہے ہیں۔
دوسری جانب سکھ مت کے راہنماؤں نے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی تو مرکزی حکومت نے ان سے بات چیت کرنے کے لئے 11/ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی، ہمکو پورا یقین ہے یونیفارم سول کوڈ کی تشکیل و ترتیب میں دیگر اقوام اور سماج کا اور ان کے پرسنل لاء کا بھرپور خیال رکھا جائے گا کیونکہ آر ایس ایس اچھی طرح جانتی ہے کہ برہمن کی بالادستی کے دن گزر گئے اب کوئی بھی ان کی نہیں مانے گا، دوسری طرف اس معاملے میں مسلمانوں کی صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے، بابری مسجد کیس، تین طلاق پر قانون سازی کو اور این آر سی پر قانون سازی کو دیکھتے ہوئے یقین کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی حکومت ہرگز ہرگز مسلمانوں کے احتجاج کو خاطر میں نہیں لائے گی اور وہی کرے گی جو اس کو کرنا ہے اور یونیفارم سول کوڈ کا پورا ”نزلہ“ مسلمانوں ہی پر گرنا ہے۔ اس فرق و امتیاز کی وجہ کیا ہے ؟ اس فرق و امتیاز کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ آر ایس ایس سکھ مت سمیت دیگر اقوام اور سماج کو ہندوؤں ہی کا ایک فرقہ تسلیم کرتا ہے سکھوں سمیت دیگر اقوام کی الگ شناخت ہندتوا کے وسیع تر مفہوم میں داخل ہے، اس سے ہندتوا کو کوئی خطرہ نہیں ہے، جبکہ مسلمانوں کی الگ شناخت ان کا مذہب، ان کا توحیدی مزاج، ان کا پرسنل لاء آر ایس ایس کے گمان کے مطابق ہندتوا کے لئے مستقل خطرہ ہے، اسی لیے ہندتوا کے مفکرین جہاں تک ہوسکے اسلام اور مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری وجہ سیاسی ہے یعنی سکھ سماج سیمت دیگر اقوام کی ایک سیاسی حیثیت اور طاقت ہے سکھوں کی ایک پارٹی بی جے پی کی اتحادی بھی ہے، جبکہ مسلمانوں کی اپنی سیاسی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے، حتیٰ کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی — جنکو مسلمانوں کی بڑی تعداد ووٹ دیتی ہے — بھی یونیفارم سول کوڈ پر اب تک کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرسکی۔ مسلمانوں کو جان لینا چاہیے، یہ ایک حقیقت بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی کہ مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی پارٹی تشکیل دی جائے، پارلیمنٹ میں بغیر سیاسی طاقت کے اس قسم کے مسائل کی نہ پرزور مخالفت ہوسکتی ہے اور نہ بحث و مباحثہ، دیگر سیاسی پارٹیاں بھی ان ہی لوگوں کی باتوں کو وزن دیں گی جن کی جیب میں ایم پی اور ایم ایل اے ہونگے، خالی جیب والوں کی نہ کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ان پر توجہ دیتا ہے مزید یہ کہ دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں کہ ”آگئے مانگنے“
حل کیا ہے ؟
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت مسلمانوں کی تمام بڑی تنظیموں نے آن لائن No UCC کی مہم چلائی ہوئی ہے اور آن لائن ہی لاء کمیشن آف انڈیا کو ای میل کرنے کا کہا گیا ہے، احتجاج تو اتنا ہی کافی ہے اپنی ناراضگی اور مخالفت درج کرانے کے لیے یہ ایک جائز اور کافی قدم ہے اس سے آگے قدم اٹھانا وقت دولت اور توانائی کی بربادی ہے۔
مرکزی حکومت یونیفارم سول کوڈ اگر صرف مسلمانوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشکیل دیتی ہے جیسا کہ اس کا اندیشہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قوی تر ہوتا جارہا ہے تو مسلمانوں کو بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ اس صورت میں یونیفارم سول کوڈ اپنی تمام تر معنویت کھودے گا اور ایک عام آدمی بھی اس بات کو سمجھ لے گا کہ یہ یونیفارم سول کوڈ نہیں بلکہ ”ایک کمیونٹی سے تعصب کا اظہار ہے“۔ ایسی صورتحال میں مزید طاقت کے ساتھ آر ایس ایس اور بی جے پی سے یہ سوال پوچھا جانے لگے گا کہ جب آدی واسی، قبائلی، سکھ مت کے پیروکار، عیسائی، ہندوؤں کے ہزاروں فرقے اپنے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرسکتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ؟ کیا یہ ہی ہے آپ کا ” سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس“ ؟ سب بھارتی اپنے اپنے پرسنل لاء پر عمل کریں اور مسلمان آپ کے بنائے ہوئے ”اینٹی مسلم سول کوڈ “ پر ؟ یہ کیسا یونیفارم سول کوڈ ہے ؟ جس میں یکسانیت تو نہیں ہے ہاں تعصب اور بعض ضرور ہے۔
مسلمانوں کی سیاسی طاقت ہونے کے بعد نہ صرف یہ لنگڑا لولا ”یونیفارم سول کوڈ“ ہی ایک جھٹکے میں ختم ہوجائے گا بلکہ دیگر اینٹی مسلم قوانین بھی ختم ہوجائیں گے۔ مسلمان سیاسی طاقت ہونے کے بعد اپنا ایک ہی موقف رکھیں کہ ہم اپنی حمایت اس پارٹی کو دیں گے جو فلاں فلاں مسلم مخالف قوانین کو ختم کرے گی خواہ وہ پارٹی بی جے پی ہی کیوں نہ ہو ؟
0 تبصرے