Ticker

6/recent/ticker-posts

حلالہ کیا ہوتا ہے ؟ ذرا سمجھاؤ

حلالہ کیا ہوتا ہے ؟ ذرا سمجھاؤ


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

شاملی سے ایک فون آیا، علیک سلیک کے بعد انہوں نے کہا مولانا صاحب مجھے حلالے کے بارے میں ذرا تفصیل سے سمجھاؤ، کچھ لوگ مجھ سے اس سلسلے میں بات کر رہے ہیں مجھے ان کو سمجھانا ہے۔ میں نے ان کو اپنی بساط کے مطابق سمجھایا۔ ”حلالے کا مسئلہ “ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جن کو غیر مسلم حضرات اور جدید تعلیم یافتہ مسلمان بہت زیادہ معلوم کرتے ہیں، دہلی کے ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی نے تو حلالے کی ”مشہور اور سرسری تشریح“ کو سن کر یہاں تک کہدیا تھا کہ یہ اسلام کا کمزور پہلو ہے This is weak side of Islam چونکہ میرا اٹھنا بیٹھنا غیر مسلم حضرات میں اور جدید تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں میں کافی ہے اور وہ لوگ اس قسم کے سوال پوچھتے ہیں اس لیے میں نے اس قسم کے مسائل کا پیشگی تیاری کے طور پر کافی مطالعہ کیا ہؤا ہے۔ افادۂ عام کے لیے حاصل مطالعہ قارئین کرام کے لئے پیش خدمت ہے۔


حلالے کے تصور کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر تین ”اہم نکات“ کو سمجھنا ضروری ہے، نمبر ایک، نکاح زندگی بھر کا ایک سماجی و مذہبی بندھن اور معاہدہ ہے یہ معاہدہ آغاز دنیا سے ایک مضبوط نظام کی صورت میں چلا آرہا ہے اور یہ ہی قانون فطرت Law of nature ہے اور یہ ہی تمام مذاہب کی ایک قدر مشترک Common values بھی ہے۔


دوسرے، مجبوری کے تحت اگر نکاح کو ختم کرنا پڑ ہی جائے تو دین اسلام نے اس عمل کو انتہائی منصوبہ بندی و ممکنہ حد تک شعور و حکمت اور مرحلے وار نظام کے ساتھ مقید کیا ہے تاکہ دونوں ہی فریق اچھی طرح سوچ سمجھ لیں اور پھر علیحدگی کا فیصلہ لیں، تیسرے تین طلاق دینے والا جذباتی مرد بیک وقت تین جرم کرتا ہے فطرت کے نظام سے بغاوت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مرحلے وار ”سوچنے سمجھنے کی ”مہلت اور آسانی “ کو ٹھینگا دکھاتا ہے تو اب یہ ”مجرم جذباتی شوہر“ کس منہ سے کہتا ہے کہ میں دوبارہ اپنی مطلقہ بیوی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ؟ ضروری ہے کہ ایسے شوہر کے لئے سخت ترین اور مشکل ترین شرط لگادی جائے، اللہ تعالیٰ نے اسی حکمت کے پیشِ نظر کہا ہے کہ ”حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ جذباتی انسان تو تین تین نظاموں سے بغاوت کرے اور باغی شوہر کی انا پر اللہ تعالیٰ چوٹ نہ کریں ؟ یہ خدائے بزرگ و برتر کے قہر و جبر اور عدل و انصاف کی صریح خلاف ورزی ہے۔


میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ عام طور پر پورے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ ”حلالے“ کا ذکر قرآن میں موجود نہیں ہے، ملاؤں نے عیاشی کے لیے اس کو گھڑا ہے۔ جبکہ قرآن کریم میں صاف لفظوں میں موجود ہے کہ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ، یعنی تیسری طلاق کے بعد مطلقہ عورت مرد کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ یہ عورت شوہر کے علاوہ کسی اور مرد سے شادی کرلے پھر اگر شوہر ثانی کسی وجہ سے طلاق دیدے تو ان دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں کہ واپس نکاح کی طرف لوٹ بغیر حلالے کے میاں بیوی اپنا نکاح کرلیں، خیال رہے کہ اس نکاح میں بھی عورت کی مرضی شرط ہے، شوہر مطلقہ عورت اپنی مرضی تھوپ نہیں سکتا۔


حلالے کا لفظ تو ایک اصطلاح ہے، اللہ تعالیٰ نے اصطلاحی لفظ کو استعمال نہ کرکے پوری کاروائی کو صاف لفظوں میں بیان کردیا۔ مگر ہاں یہ بھی سچ ہے کہ قرآن میں جو بات کہی گئی ہے ( شوہر کے علاوہ سے نکاح کرنے کی ) یہ ”مشکل شرط“ لگانے کے قبیل سے ہے تاکہ مخاطب نہ وہ شرط پوری کرسکے اور نہ ہی شوہر اول کے ساتھ نکاح ہوسکے، اس مشکل شرط کے اندر تین ممکنہ اندیشے پائے جاتے ہیں جو اس نکاح کو مزید مشکل کرنے کے لئے ہی رکھے گئے ہیں، ہوسکتا ہے کہ شوہر اول اس بات پر راضی نہ ہو کہ اس کی بیوی کسی اور کے بستر پر جائے اور یہ ہی سوچ کر وہ اس سے نکاح کا ارادہ ترک کردے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شوہر ثانی طلاق ہی نہ دے اور شوہر اول کے نکاح کا منصوبہ خواب ہی رہ جائے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت ہی انکار کردے کیونکہ کوئی بھی نکاح ہو دوسرے شوہر کے ساتھ یا پہلے شوہر کے ساتھ عورت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا اور سب سے بڑھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی لعنت کی فرمائی ہے ایسے مردوں پر جو حلالہ کرتے اور کرواتے ہیں مذکورہ اندیشوں اور اللہ تعالی کی لعنت یہ حقیقت بتلانے کے لئے کافی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکمت یہ ہے کہ اب مطلقہ عورت تین طلاق دینے والے ”جذباتی شوہر“ کے ساتھ ہرگز ہرگز شادی نہ کرے ورنہ تو یہ عورت اس آدمی کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے گی، اب دونوں ہی الگ الگ اپنا گھر بسائیں اس سب کے باوجود میاں بیوی نکاح ہی کرنا چاہتے ہیں تو حلالے ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑیگا۔ اسلام کا نظام طلاق مع حلالے کے اپنے اندر بےپناہ حکمتیں لیے ہوئے ہے اگر مسلم اسکالرز اسلام کے نظام طلاق اور دنیا میں رائج نظام ہائے طلاق اور ان کے اثرات کا موازنہ کریں تو آپ یقین جانیے کہ اسلام کا نظام طلاق سب سے بہترین اور آسان ثابت ہوگا، یہ ہمارے نوجوان علماء کرام کی ذمےداری ہے کہ وہ نئے تقاضوں کے مطابق سوشل میڈیا پر اسلام کے نظام طلاق کو تفصیل کے ساتھ دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کریں۔


آخری بات

طلاق اور حلالے کی تشریح کو جو انتہائی بدترین اور زنا کے قریب قریب بنادیا گیا ہے اس معاملے میں ہمارے مفتیان کرام کا بھی بہت بڑا دخل ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ طلاق و حلالے کے معاملے میں ہمارے مفتیان کرام کو فیصلے نہیں کرنے چاہیے بلکہ اس طرح کے معاملات کو پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے مقرر قاضی حضرات کے سپرد کر دینا چاہیے کیونکہ افتاء سیکھنے سکھانے کا شعبہ ہے نہ کہ قضاء اور فیصلے دینے کا، قاضی اور مفتی میں بنیادی فرق یہی ہے کہ مفتی کا تعلق علم و اجتہاد سے ہے جبکہ قاضی کا تعلق شریعت اور اس کے عملی پہلو کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے سے ہے علم القضاء لچکداری کو چاہتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ”قضاء قاضی“ کے ذریعے ایسے فیصلے بھی قابلِ عمل ہوتے ہیں جو مفتیانِ کرام کی علمی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔

دوسرے طلاق و حلالے کے معاملے کو جس چیز نے انتہائی بدترین اور مشکل بنایا ہے وہ ہے ”مہنگی شادی“ کا غلط رواج۔ طلاق ہونے سے صرف میاں بیوی کی جدائی کا مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا بلکہ لڑکی والوں کی موٹی رقم بھی ڈوب جاتی ہے اس رقم کی واپسی کے لئے لڑکی کے والدین کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے لگتے ہیں اور معاملہ مزید بھیانک شکل اختیار کرلیتا ہے۔

20/ جولائی 2023 مطابق 1/ محرم الحرام 1445 بروز جمعرات

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے