Ticker

6/recent/ticker-posts

توحید کے اعلان کی طرف

توحید کے اعلان کی طرف


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

دین اسلام جن مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ان میں سے ایک اہم بنیاد توحید oneness ہے، توحید دین اسلام کی جڑ اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا مشترکہ common مشن رہا ہے، دنیا کے تمام مذاہب اور نظریات اس لیے کمزور اور بوکس ہیں کہ ان میں ”تصور الہ“ واضح نہیں ہے یا وہ نظریات و مذاہب بغیر ”تصور الہ“ کے ہی ہیں، ان تمام مذاہب و نظریات کے برعکس دین اسلام اس لیے قائم و دائم ہے کہ اسلام کا ”تصورِ الہ “ آخری حد تک واضح اور فلسفیانہ پیچیدگیوں سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید کے بغیر اسلام کی تمام تر معنویت بیکار ہے، تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے ہر چیز سے زیادہ توحید پر زور دیا ہے توحید کو سمجھایا ہے توحید کو ثابت کرنے کے لئے ہی جہاد و قتال کیا ہے، أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله۔ ( متفق علیہ )


دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برصغیر میں توحید کے لئے کام تو ہؤا ہے مگر وہ تین خامیوں کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہوسکا کہ جس سے شرک و بت پرستی کی جڑیں ہل جاتی اور اصنام اوندھے منہ گر پڑتے، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ برصغیر میں توحید پر جتنا بھی کام ہؤا ہے وہ فلسفے اور تصوف کی آمیزش کے طور پر ہؤا ہے نتیجتاً توحید خالص ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ دوسری خامی یہ رہی کہ توحید پر جیسا کیسا بھی کام ہؤا ہے وہ یا تو عربی زبان میں ہؤا ہے یا پھر فارسی زبان میں یا پھر اب اردو زبان میں ہورہاہے نتیجتاً یہاں کے غیر مسلموں کی اکثریت اس سے واقف نہیں ہوسکی کیونکہ تینوں ہی زبانیں یہاں کے لوگوں کے لئے اجنبی رہی ہیں، تیسری خامی یہ رہی کہ کبھی بھی یہاں کے مسلمانوں نے وحدانیت کا برملا اعلان نہیں کیا، مزید یہ کہ قبر پرستی اور پیر پرستی پر مبنی تصوف نے توحید خالص کو بہت حد تک دھندلا بھی کیا ہے۔ اگست 2022 میں پروفیسر محسن عثمانی صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے بتلایا کہ بھارت کے پس منظر میں ”حجۃ اللہ البالغہ“ سے بہتر آج تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی، اس کے باوجود توحید خالص پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی کوئی خاص کام نہیں کرسکے، یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں ابھی تک ”زندہ شرک“ موجود ہے یہاں کی بڑی آبادی بت پرستی میں مبتلا ہے، اس شرک کو موت کے گھاٹ اتارنا اور انسانوں کو اصنام پرستی کے چنگل سے نکالنا أہل ایمان کی اولین ذمے داری ہے۔


مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ جتنی بھی وضاحت و توانائی کے ساتھ ”نظریہ توحید“ کو سمجھائیں گے بتلائیں گے اور پھیلائیں گے اتنی ہی جلدی اور آسانی کے ساتھ کفر وشرک اپنی جڑیں چھوڑتا چلا جائے گا اور نتیجتاً بھارتی مسلمانوں کے دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے، توحید کے برملا اور کھلم کھلا اعلان کے لئے احادیث کی کتابوں میں یہ حدیث بھی آئی ہے کہ أيُّها النَّاسُ قولوا لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ تُفلِحوا اے لوگو لا الہ الااللہ کہہ لو کامیاب ہوجاؤ گے، پیغمبر اسلام نے یہ اعلان مکہ کے بازار ذوالمجاز میں جاکر لوگوں کے ہجوم میں گھس کر کیا تھا عین اس وقت جبکہ مخالفین کا ایک گروہ پیغمبر اسلام پر پتھراؤ کررہا تھا، آج بہت ضروری ہے کہ اسی طرح کی ہمت کی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس متروک سنت کو زندہ کیا جائے، اس کے بغیر نہ تو شرک موت کے گھاٹ اترے گا اور نہ ہی بت اوندھے منہ گریں گے۔


موجودہ زمانے میں چند ایک دعاۃ حضرات نے توحید خالص کو لیکر کفر وشرک کی نظریاتی حویلیوں میں ہل چل مچائی ہوئی ہے تو کیا ہوگا اس وقت جب ہر بندۂ مومن ”توحید خالص“ کا علمبردار اور داعی بن جائے گا۔ ماشاءاللہ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ اب نوجوان علماء کرام نے فضول مسلکی بحثیں چھوڑ کر توحید کے مشن کو مضبوطی سے تھام لیا ہے اور توحید پر گفتگو کر رہے ہیں، توحید کا اعلان کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ڈاکٹر اصرار مرحوم، ڈاکٹر ذاکر نائیک، مولانا یاسر ندیم الواجدی، زید پٹیل صاحب، قیصر راجہ صاحب، عامر حق صاحب وغیرہ حضرات کے پروگرام توحید خالص کے لئے ایک مینارۂ روشن بنے ہوئے ہیں ان ہی کی اسٹیم میں دیگر کئی نوجوان علماء کرام بھی آتے ہیں جو توحید خالص کے مشن پر کام کررہے ہیں، جماعت اسلامی سے منسلک کئی افراد بھی توحید خالص کے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں، یہ تمام حضرات ماشاءاللہ سوشل میڈیا پر اور اپنے اپنے دائرۂ کار میں اسلام کی نظریاتی جنگ لڑرہے رہے ہیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی گجرات کے ضلع بھروچ سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد حسین پٹیل صاحب ہیں جنہوں نے توحید خالص پر اب تک 68 مختصر مگر جامع قسطیں لکھ دی ہیں، مزید قسطوں پر کام جاری ہے، مولانا نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ، درس نظامی کی مشہور ترین کتاب عقیدۃ الطحاوی کو بنیاد بناتے ہوئے، آسان لہجے میں توحید خالص پر گفتگو کی ہے فلسفیانہ سوالات کے من بھاتے جوابات دیے ہیں۔ مولانا کی قسطوں میں سے ایک قسط بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔


مولانا نے اپنی قسط نمبر 38 میں مشہور اعتراض کا آسان جواب دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ .....

”اعتراض : جب ﷲ تعالیٰ کو پیشگی علم تھا کہ مخلوق کیا اور کیسے عمل کریگی ؟ تو اس آیتِ مبارکہ میں یہ کیوں ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو اس لئے پیدا کیا تاکہ ہم دیکھیں کہ (اِس پُر کشش دنیا میں رہ کر) کون اچھے اعمال کرتا ہے، یعنی آیت کا صاف مطلب یہ ہوا کو اللہ تعالیٰ کو پیشگی علم نہیں تھا ؟ جواب : یقیناً ﷲ تعالیٰ کو ہر چیز کا پیشگی علم ہے کہ کون اچھے اعمال کرے گا اور کون بُرے اعمال کرے گا، مگر ﷲ تعالیٰ اپنے علم کو بنیاد بنا کر انعام اور سزا نہیں دینا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ بندہ ﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا اختیار استعمال کر کے اچھے اعمال کر دکھائے پھر انعام کا مستحق ہو “۔ یعنی اخروی جزا و سزا کا مدار بندے کے عمل پر ہے ناکہ اللہ تعالیٰ کے علم پر۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم میں اضافے کے لیے بندوں کو نہیں آزمائیں گے بلکہ بندوں کے درمیان جزا یا سزا کا فیصلہ صادر کرنے کے لئے بندوں کے کیے ہوئے اعمال کو بنیاد بنانے کے لیے ’مہلت عمل‘ دیکر آزمائیں گے۔


ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایسے نوجوان علماء کرام کو امت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ان سے دیگر حضرات بھی ترغیب پائیں اور ان حضرات کے حوصلوں کو بلندی ملے اور وہ بھی ”دین خالص“ کی ترویج واشاعت کے لئے کمر بستہ ہوجائیں۔ یہاں پر میں مولانا محترم سے درخواست کرونگا کہ اپنی تمام قسطوں کا ہندی زبان میں ترجمہ ضرور کرائیں تب ہی یہ تریاق اصل مریضوں تک پہنچے گا ورنہ مسلمانوں ہی میں گھوم پھر کر لائبریری کی زینت بن جائے گا۔ مولانا حسین پٹیل صاحب کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔


مولانا کا نام حسین بن عبد اللطیف گاؤں اکھر، تحصیل آمود ضلع بھروچ صوبہ گجرات ہے، مولانا کی تاریخ پیدائش 11/6/1987 ہے، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اس کے بعد جامعہ مظہرِ سعادت، ہانسوٹ سے قرآن مجید کے 23 پارے حفظ کئے، پھر سعادتِ دارین ستپون سے سن 2000 میں تکمیلِ حفظ قرآن کیا اور وہیں سے 2009 میں عالمیت کی سندِ فضیلت حاصل کی، پھر مظاہر العلوم سہارنپور سے 2011 میں تخصص فی الحدیث مکمل کیا، 2012 میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے، فراغت کے ایک سال بعد گجرات کے ایک دینی مدرسے جامعہ نذیریہ کاکوسی میں 2021 تک درسی خدمات انجام دی، جن میں مولانا کے زیرِ تدریس عقائد اور تفسیر کے علاوہ تمام فنون صرف و نحو منطق وغیرہ کی کتابیں رہی، اس کے بعد مولانا حسین صاحب کو افریقہ کے ایک ملک ”ملاوی“ سے حدیث شریف کی تدریس کے لیے بلاوا آیا اور مولانا بخوشی وہاں جامعہ عثمانیہ (Limbe Malawi) میں منتقل ہوگئے اور فی الحال وہیں پر حدیث اور فقہ کی درس وتدریس میں مشغول ہیں۔
27/ جولائی 2023

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے