Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ بابا لوگ کے حوالے سے غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری کا جائزہ

افسانہ بابا لوگ کے حوالے سے غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری کا جائزہ


غیاث احمد گدی کا شمار اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش 17 فروری 1928 میں جھریا، جھاڑ کھند میں ہوئی۔

غیاث احمد گدی حیات اور ادبی خدمات

غیاث احمد گدی نے باضابطہ طور پر اسکول و کالج کی پڑھائی کبھی نہیں کی، البتہ ایک مولوی صاحب سے اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم ضرور حاصل کی تھی۔ چونکہ انہیں کہانی کہنے کی خداداد صلاحیت حاصل تھی، لہذا کم تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ایک فنکار کی طرح زندگی کے تجربات و مشاہدات کو فن کے پیمانے میں ڈھالنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ کامیاب رہے اور اس طرح اردو ادب کو بہتیر کامیاب افسانے سے مالا مال کیا۔

غیاث احمد گدی کا افسانہ بابا لوگ

غیاث احمد گدی کے کئی مشہور افسانہ میں ' بابا لوگ بھی ایک مشہور افسانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بابا لوگ ایک طویل افسانہ ہے۔ اس افسانے میں غیاث احمد گدی نے ایک بوڑھے نوکر کی ایثار و قربانی کے پردے میں نام نہاد ترقی یافتہ سماج کے جنسی بے راہ روی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

غیاث احمد گدی کا افسانہ بابا لوگ کا پلاٹ

کہانی کا پلاٹ دو کرداروں بڑھا انکل اور مار گریٹ کے گرد گھومتا ہے، کئی دوسرے کردار بھی ہیں لیکن ان کی حیثیت ضمنی ہے۔ مار گریٹ جس دن پیدا ہوتی ہے اس دن اس کی ماں اس دنیا کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ مار گریٹ کی ماں سے قلبی انسیت کی بنا پر بڑھا انکل مار گریٹ کی دیکھ بھال کرتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی ہے وہ بڈھے انکل سے بیزار ہوتی جاتی ہے، اور ایک طرح سے وہ بڑھے انکل سے نفرت کرتی ہے۔ اس کی یہ نفرت تب انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب دو بالغ ہو جاتی ہے اور جارج نام کے ایک نوجوان سے اس کی دوستی ہو جاتی ہے، چونکہ بڑھا انکل کو ان دونوں کی دوستی پسند نہیں ہے اور وہ بار بار مارگریٹ کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے، تب مارگریٹ اسے گالیاں دیتی ہے حتی کہ مار بھی دیتی ہے۔ لیکن ایک ان کہی قربت کی بنا پر بڑھا انکل اسے غلط راستے پر چلنے سے روکنا چاہتا ہے، اسے یہ ہر گز گوارہ نہیں ہے کہ مارگریٹ جارج کی ہوش کا شکار بنے۔

افسانہ بابا لوگ کا خلاصہ

مار گریٹ کے کمرے سے قہقہے کی آواز آ رہی تھی..... رات تاریک ہے، گھر میں صاحب نہیں، میم صاحب نہیں ...... اور بے بی کمرے میں ایک نوجوان کے ساتھ ....... اس نے عقیدت سے سینے پر صلیب بنائی۔" یسوع مسیح ! میرے ننھے پودے کو اس باد عموم سے بچاؤ " لیکن مر گریٹ اس باد سموم سے نہیں بچ پائی اور ٹھیک اس دن ایک ناجائز مردہ بچی کو جنم دیتی ہے جس کے دو روز بعد ہی کلکتہ سے ایک لڑکا اس سے شادی کے لئے آتا ہے، اس صورت حال میں مار گریٹ کا باپ اور اس کی سوتیلی ماں بوڑھے انکل کو اس نا جائز لیکن مردہ بچی کو ٹھکانے لگانے کی گزارش کرتا ہے۔ پہلے تو وہ انکار کرتا ہے۔ لیکن مارگریٹ اور اس کی حقیقی مرحومہ ماں کی محبت سے مغلوب ہو کر وہ اس کام کو کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

مارگریٹ کی شادی ہو جاتی ہے، لیکن مارگریٹ اب بھی اس سے نفرت کرتی ہے اور اسے حقارت سے دیکھتی ہے۔ وہ اس بات سے بالکل بے خبر رہتی ہے کی آخر بڑھا انکل اس سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے۔ اور یہی اس کہانی کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

بابا لوگ کے مطالعے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ان کے افسانے مواد اور تکنیک دونوں ہی اعتبار سے متنوع ہوتے ہیں، یوں تو انہوں نے بیانیہ اور علامتی دونوں طرح کی کہانیاں لکھیں لیکن عام طور پر دہ مثالیت پسند ہیں، ان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ان کا ہر افسانہ ایک نئی ہیئت کا متقاضی ہوتا ہے جو عام افسانہ نگاروں کے یہاں نہیں پایا جاتا۔ جیسا کے بابا لوگ افسانے کے زبان و بیان سے پتہ چلتا ہے غیاث احمد گدی نے الفاظ کی معنویت اور ان کے تخلیقی برتاؤ پر کافی توجہ دی ہے۔ آسان اور سیدھی سادی کہانیوں کو بھی انہوں نے نئی معنویت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بقول کلام حیدری غیاث احمد گدی کے افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگاری کس قدر گہری بصیرت، کتنے عمیق مشاہدے اور پرواز خیال پر کتنی قدرت حاصل کرنے کے بعد غیاث احمد گدی میں ڈھل جاتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے