Ticker

6/recent/ticker-posts

جنگ آزادی میں بعض سرگرم مسلم خواتین

جنگ آزادی میں بعض سرگرم مسلم خواتین


محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

ہندوستان کی آزادی میں جہاں علماء خواص، عوام الناس اور بردارن وطن کی مشترکہ کوششیں شامل رہی ہیں، وہیں جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا کردار بھی کسی طرح کم نہیں ہے، لیکن عموما جب جنگ آزادی کا تذکرہ کیا جاتا ہے، اس پر مضامین لکھے جاتے ہیں تو مسلم مجاہدین آزادی میں خواتین کا کردار کم پیش کیا جاتا ہے، یا ادھر توجہ نہیں دی جاتی۔ بعض احباب نے اس جانب توجہ مبذول کیا کہ اس پر کچھ لکھوں، تعمیل حکم میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ ۔۔۔امید کہ قارئین باتمکین اس کو پسند کریں گے اور اس سے استفادہ کریں گے۔

زلیخا بیگم اہلیہ مولانا ابو الکلام آزاد رح

زلیخا بیگم مولانا آزاد کی شریک حیات تھیں، صورت و سیرت کی جامع ایک معزز اور معتبر خاتون تھیں، انہوں نے مولانا آزاد رح کو ہر طرح سے ملک کی آزادی کے لئے فارغ کردیا تھا اور اس راہ میں ہر طرح سے ان کی معاونت کرتی تھیں۔

حمیدہ سلطان نے زلیخا بیگم کے حسن ظاہر کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ نرگسی آنکھیں، دراز پلکیں، پگھلے ہوئے سونے کا رنگ، ساون کی گھٹا جیسے کالے بال، بوٹا قد، حسن و جمال کا پیکر لئے حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی شریک حیات تھیں۔ ابو الکلام آزاد رح نے لکھا ہے کہ وہ صرف جنگ آزادی میں ہی میرے ساتھ نہیں تھیں، بلکہ پوری ہمت اور طاقت سے ہر طرح کے ناخوشگوار حالات میں میرے ساتھ تھیں۔ اس کی وضاحت کے لئے ایک خط کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ آپ کی حب الوطنی و جنگ آزادی کے لئے جو جذبہ تھا، وہ کسی خواتین کے لئے اس زمانے میں بڑی بات تھی۔ جب مولانا آزاد تحریک خلافت کے سلسلہ میں 10/ دسمبر 1921ء کو کلکتہ جیل میں ایک سال قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے تھے، جب زلیخا بیگم نے ایک خط مہاتما گاندھی کو لکھ کر پہلے تو یہ کہا تھا۔

آپ اور مولانا جن کاموں کو تحریک کے لئے کرتے تھے، ان کے لئے کسی اور کو ذمہ داری نہ دیں۔ میں خود ان کی غیر موجودگی میں تحریک کے کاموں کو بخوبی انجام دے رہی ہوں اور آگے بھی دیتی رہوں گی۔ اگر کوئی دقت پیش آئی تو اپنے بھائی سے مدد لے لوں گی۔

دوسری بات جو انہوں نے لکھی وہ ان کی شخصیت اور حوصلہ کو اس اونچائی پر پہنچاتا ہے، جہاں کسی پردہ نشین خواتین کو وہ بھی شوہر کی موجودگی میں ناممکن سا دکھائی دیتا ہے۔ زلیخا بیگم نے گاندھی جی سے جاننا چاہا کہ

مولانا کو سزا کم کیوں ملی؟ مجھے تو امید تھی کہ کم سے کم تین یا پانچ سال کی سزا ہوگی۔ آپ نے شک ظاہر کرتے ہوئے گاندھی جی سے جاننا چاہا کہ کہیں آپ مولانا کی سزا کم کرنے کے لئے انگریز حکومت کی کسی شرط کے آگے جھک تو نہیں گئے۔ اگر ایسا ہے تو مولانا کو بہت صدمہ پہنچے گا اور ظاہر ہے کہ میں بھی آپ کو گنہگار سمجھوں گی۔ ۔ میری درخواست ہے کہ ملک کی آزادی کے لئے کسی طرح کی جھکنے کی ضرورت نہیں ہے، چاہے سزا پوری زندگی جھیلنی پڑے۔ یہ خط کلیکشن آف ورک مہاتما گاندھی پبلیکیشن ڈویژن گورنمنٹ آف انڈیا میں شامل ہے۔

زہرہ انصاری بیگم ڈاکٹر مختار احمد انصاری

خالدہ ادیب کے مطابق بیگم انصاری ایک اچھے، خوش حال اور روائل مسلم فیملی کی باحجاب خاتون تھیں۔ وہ فارسی، عربی اور اردو کی عالمہ تھیں ملک کے حالات اور سیاست پر گہری نظر تھی۔ فرصت کے لمحات میں کتب بینی ان کا محبوب مشغلہ تھا وہ اس کو سب سے بہتر سمجھتی تھیں۔ زہرہ کی شادی اس وقت کے مشہور ڈاکٹر اور مجاہد آزادی ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے ہوئی تھی۔ پردے کی سخت پابندی کے باوجود آپ مہاتما گاندھی کے سامنے آتی تھیں۔ گاندھی جی کے کردار نے زہرہ انصاری کو بچپن سے متاثر کیا تھا۔ زہرہ انصاری جنگ آزادی میں جیل جانا بھی چاہتی تھیں وہ اس کی خواہش رکھتی تھیں۔ دار السلام کے سلسلہ میں بھی ان کی قربانی ناقابل فراموش ہے۔ 1946ء میں جب الیکشن کا مسئلہ درپیش ہوا، تو آپ کے شوہر نے محسوس کیا کہ قوم پرست مسلمانوں کے لئے یہ بڑا نازک وقت ہے۔ مسلم لیگ سے مورچہ سخت ہے اور پیسوں کا انتظام بہت مشکل ہے۔اس وقت زہرہ بیگم نے اپنے شوہر کی مدد کے لئے اپنے گھر 🏡 کو، جوکہ 12,000 اسکوائر فٹ میں تھا، فروخت کرکے اس کی رقم سے یوپی میں الیکشن کے انتظام کا فیصلہ کیا۔ کیا جذبہ اور ولولہ و حوصلہ تھا اس نیک دل اور روشن دماغ خاتون کا۔ زہرہ انصاری کا انتقال 28/ جولائی 1988ء کو انگلینڈ میں ہوا اور وہیں پیوند خاک ہوئیں۔

امجدی بیگم

امجدی بیگم کا نام بھی جنگ آزادی کے سورما میں شامل ہے، امجدی بیگم مولانا محمد علی جوہر کی اہلیہ تھیں۔ ان کا تعلق رام پور کے اعلیٰ خاندان سے تھا۔ مولانا محمد علی جوہر سے شادی کے بعد وہ بھی جنگ آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئیں اور پوری طرح ان کے سیاسی ماحول میں رنگ گئی تھیں۔ گاندھی جی کے اخبار ینگ اندیا کے ذریعہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کانگریس کے ستیہ گرہ میں بی اماں بی اور امجدی بیگم نے اپنے تمام دوروں سے کڑروں کا چندہ جمع کیا تھا۔ 20 / دسمبر 1921ء میں ینگ اندیا میں گاندھی جی نے ایک بہادر عورت کے متعلق جو خاص طور پر لکھا تھا کہ بیگم کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے عوام کے کاموں میں اپنے شوہر کی پوری مدد کی اور بہار، اسام اور بنگال کے سفر میں ہمارے ساتھ رہیں۔ ان کی تقریر بھی اپنے بہادر اور غیرت مند و باحوصلہ شوہر کی طرح ہوتی تھی۔ شوہر کے انتقال کے بعد تقریباً پندرہ سال بعد امجدی بیگم بھی اس فانی دنیا سے باقی دنیا کی طرف کوچ کر گئیں۔ امجدی بیگم کانگریس کی تحریک میں عورتوں کی قیادت کرتی تھیں گویا وہ خواتین وینگ کی ہیڈ تھی۔

زبیدہ بیگم داؤدی

زبیدہ بیگم کا تعلق صوبہ بہار کے ضلع مظفر پور سے تھا، ان کی پیدائش پارا گاؤں مظفر پور میں اکتوبر 1885ء میں ہوئی تھی۔ ان کے والد سید عبد الفتح رجسٹرار تھے اور پارا گاؤں میں بڑی زمین و جائیداد کے مالک تھے، دولت و پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی، زبیدہ بیگم کا نکاح بہار کے مشہور وکیل اور قانون دان ایڈوکیٹ شفیع داؤدی کے ساتھ ہوئی، جو مہاتما گاندھی ڈاکٹر راجندر پرساد اور پنڈت موتی لعل نہرو کے ساتھ ساتھ تھے جنگ آزادی کی تحریک میں۔۔سیاست کے جڑے ہونے کا اثر زبیدہ بیگم داؤدی پر بھی تھا۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی ممبر تھیں اور اپنے شوہر کی سیاسی سرگرمیوں میں دخیل اور برابر کی شریک تھیں۔ ودیشی کپڑوں کی ہولی جلانے میں انہوں نے سب سے پہلے اپنے شوہر اور خاندان کے دوسرے لوگوں کے کپڑے کو آگ کے حوالے کیا تھا۔ زبیدہ بیگم داؤدی ایک نیک صفت اور پردہ دار خاتون تھیں، مشرقی تہذیب کی خوگر و عادی تھیں، لیکن ملک کی آزادی کی تحریک کے لئے وہ اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ہر جلسے اور میٹنگ میں شریک ہوتی تھیں اور خود بھی عورتوں کے جلسے کا انتظام کرتی تھیں اور اس کو کنڈیکٹ کرتی تھیں اور خواتین کا حوصلہ پڑھاتی تھیں اور جنگ آزادی کے لئے ان کو مہمیز لگاتی تھیں۔ ۔اس حوصلہ مند، حوصلہ بخش باہمت اور غیریت مند خاتون کی آخری عمر بڑی پریشانیوں اور دقتوں میں گزری۔ جیل سے آنے کے بعد ان کے شوہر شفیع داؤدی صاحب بیمار رہنے لگے اور لمبی بیماری کے بعد 1949ء میں انتقال کرگئے۔ تب آپ کی مالی حالت اتنی خراب تھی کہ اپنا گھر کرائے پر اٹھا کر اپنی زندگی کی ضرورتیں پوری کرنا تو منظور کیا، لہکن آزاد ہندوستان میں کسی سے مدد لینا گوارا نہیں کیا۔ ۔ ان کی ہمت، غیرت، خوداری اور جذبہ کو سلام۔ ۔ کاش آج کے نیتا نگری والے ان کی تاریخ پڑھتے اور اپنے اندر بھی کچھ خوبی اور کمال پیدا کرتے جو انسانیت کے لئے ایک نمونہ اور مثال بنتی۔


جنگ آزادی میں شریک بعض مسلم خواتین کا کردار


امینہ طیب جی اہلیہ عباس طیب جی

امینہ طیب جی جنگ آزادی کی مہم میں پورے طور پر شریک رہیں اور، شروع سے اندین نیشنل کانگریس کی رکن رکین رہیں۔ ان کا تعلق گجرات کے ایک علمی و سیاسی خاندان سے تھا، امینہ طیب گجرات کے ممتاز سیاسی رہنما عباس طیب جی کی بیوی اور بدرالدین طیب جی کی بیٹی تھیں۔ امینہ طیب کی پیدائش 1866ء اور انتقال 1942ء میں ہوا۔ اپنے شوہر کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں ہر موقع اور ہر محاذ پر شریک رہیں اور کبھی عزم و ہمت میں کمی نہیں آئی، حوصلے پست نہیں ہوئے، شوہر کی گرفتاریوں نے ان کی ہمت کو حوصلہ اور مہمیز ہی نہیں لگایا بلکہ قومی محاذ پر خود بھی انہوں نے آگے پڑھ کر مورچہ سنبھالا اور اپنی خدمات پیش کیں۔ سودیشی تحریک میں بھی انہوں نے اپنے کو آگے رکھا اور اس میں ہر طرح سے حصہ لیا۔ سوت کاتنے کی مہم کے لئے گاندھی جی نے جو کمیٹی تشکیل دی، اس میں امینہ طیب جی کو صدر اور میتھیو بہن کو سکریٹری بنایا گیا تھا۔ بحیثیت صدر کمیٹی اس پر عزم اور دھن کی پکی خاتون نے اس کام کو اتنے انہماک اور مستعدی سے کیا کہ گاندھی جی نے ایک مجلس میں ان کا نام کے کر دوسروں کو ان سے سبق لینے کے لئے کہا اور ان کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے بڑے وسیع پیمانے پر ودیشی کپڑوں و شراب کی دکانوں پر خواتین کی زبردست تحریک چلائی۔ دوبارہ گرفتار ہوئیں اور سزا ہوئی۔ سچ ہے کہ

مٹی کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے


شہید مائی بختارو اہلیہ ولی محمد لاشاری

جنگ آزادی میں شریک خواتین میں ایک نمایاں نام شہید مائی بختارو کا بھی ہے جو ایک سندھی کاشت کار گھرانے کی پروردہ تھیں۔ ان کے شوہر کا نام ولی محمد لاشاری تھا۔ شہید مائی بختارو نے اس لڑائی میں اپنے کو وقف کردیا، وہ محاذ پر آگے رہتیں اور جنگ آزادی کے لئے عورتوں کا حوصلہ بڑھاتی، ان کو مہمیز لگاتی اور تحریک آزادی میں شریک جیالوں اور دیوانوں کی خدمت کرنا ان کے شوق میں شامل تھا۔ جب زمین داروں نے 1946ء میں لاشاری کے کسانوں اور کاشتکاروں کے اناج پر زبردستی قبضہ کرنا چاہا تو گاؤں والوں کیساتھ مل کر آپ نے بڑی بہادری اور ہمت سے ان کا مقابلہ کیا۔ پولیس نے نہتے کسانوں پر گولیاں برسائیں، جس میں 24/ جون 1946ء کو آپ شہید ہوگئیں۔ آپ نے آخری وقت یہ جملہ کہا تھا کہ، ، دیکھو کسی بھی طرح وہ ہمارے اناج کو لے جانے میں وہ کامیاب نہ ہونے پائیں۔ مشہور سندھی ادیب منیر مائک نے شہید مائی بختارو کی حیات پر 1967ء میں ایک ڈرامہ بھی لکھا ہے۔۔ ۔ (ماخوذ لہو بولتا بھی ہے)

عابدی بانو بیگم بی اماں والدہ محمد علی جوہر


جنگ آزادی میں جن خواتین نے اپنی اولاد کو ہر طرح سے اس لڑائی کے لئے تیار کیا، ان کا حوصلہ کو بڑھایا، ان میں شوق شہادت کو پیدا کیا اور اس کام کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کے تلقین کی، ان میں سب سے نمایاں نام عابدی بانو بیگم معروف بی اماں والدہ محمد علی جوہر رح کا نام سر فہرست ہے۔۔ جو رجزیہ اشعار پڑھتیں اور اپنے دونوں لخت جگر کو خلافت کے لئے جان دینے پر آمادہ کرتیں۔

آپ کی پیدائش 1852ء میں موجودہ امروہہ سابق ضلع مرادآباد میں ہوئی تھی۔ آپ کی شادی ریاست رام پور کے عبد العلی خاں صاحب سے ہوئی۔ آپ کے شوہر عبد العلی خاں کا انتقال جوانی میں ہی ہوگیا تھا، بی اماں کو بیوگی کی زندگی گزارنی پڑی۔ آپ کے دو لڑکے تھے۔ بڑھے کا نام محمد علی اور چھوٹے کا نام شوکت علی تھا۔ ان دونوں کو یتیمی کی زندگی گزارنی پڑی، لیکن ماں کی بے مثال تربیت کی وجہ سے ان دونوں نے نہ صرف خاندان کا بلکہ پورے ملک کا نام دنیا میں روشن کیا۔ یہی دونوں بھائی آگے چل کر علی برادران سے ملک و بیرون ملک مشہور ہوئے اور نیک نامی حاصل کی اور پورے طور پر ہندوستان کی آزادی میں شریک ہوئے۔۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ 19/ ویں صدی کے مسلم معاشرہ میں بیوگی اور پردے داری کے باوجود اپنی جائیداد کے انتظام، بچوں کی پرورش اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا یقینا مشکل اور دشوار کام تھا۔ مگر اس دور میں بی اماں نے جانبازی اور بلند حوصلگی کا ثبوت پیش کیا اور دقیانوسی فکر کو نظر انداز کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ اگر عزم محکم اور حوصلہ جوان ہو تو خواتین بھی زندگی کے ہر شعبہ اور تمام میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے سکتی ہیں۔

بی اماں کہتی تھیں کہ میرے بچوں کو ان کا مکمل حق ملنا چاہیے، تاکہ وہ اپنی ماں کو الزام نہ دے سکیں۔

مولانا محمد علی کی تربیت اور شخصیت بھی بی اماں کی وجہ سے تھی، جس کا اعتراف انہوں نے خود کیا ہے، کہ مجھے اپنے والد بالکل یاد نہیں، مگر والدہ مرحومہ کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں یا جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ مجھے اپنی والدہ اماں بی ہی سے ملا ہے۔

بی اماں کا سیاسی سفر کی شروعات پہلی جنگ عظیم سے ہوتی ہے، یہ وہ دور اور زمانہ تھا جب ملک میں ہر جگہ ہوم رول لیگ کا چرچا ٹھا۔ لوک مانیہ تلک اور مسیز اینی بیسنٹ کی سرپرستی میں مہاراشٹر ہوم رول لیگ کی شاخ ملک میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔ بی اماں نے بھی ہوم رول لیگ کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے لکھا تھا کہ میں نے اپنے گھر کے تمام لوگوں کے ساتھ اس لیگ کی رکنیت و ممبری کا حلف لے لیا اور خود آگے بڑھ کر خلافت اور نان کو آپر یٹیو مومنٹ کی قیادت کی۔ آپ میٹنگوں میں تقریر کرتی تھیں، تو لوگوں میں جوش پیدا ہو جاتا تھا۔ 1917ء میں جو کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا اس میں بھی شریک رہیں۔ 1919ء کے مومنٹ کی قیادت بھی آپ نے کی۔ انگریز لیڈر آپ کو خطرناک لیڈر کے نام سے نوازتے تھے۔ اس کے آپ کے اندر انسانیت نوازی وطن پرستی اور ملک کی آزادی کا جنون ایسا تھا کہ بہت کم لوگوں میں ایسا جنون آزادی کے لئے تھا۔

آزادی ایک نعمت ہے، اس کو حاصل کرنے کے لئے انسان بہت کچھ قربان کر دیتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ اس موقع پر لڑکھڑا جاتے ہیں لیکن مجاہد بیٹوں کی اس مجاہد ماں نے جس جرات ہمت، شجاعت جانبازی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور ملک کی خدمت کی جو روشن مثال پیش کی، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ بی اماں نے اس زمانے میں بڑے گھرانوں کی پردہ نشین خواتین بہن بیٹیوں کو اپنی جوشیلی تقریروں سے جنگ آزادی کی مہم میں شامل کیا اور ان سے اس میں ہر طرح سے معاونت لی، دامے درمے سخنے اور قدمے اس مہم میں شریک کیا۔ آپ ہر مجاہد آزادی کی ماں کے درجہ میں تھیں اور ہر ایک آپ کو بی اماں کہہ کر پکارتے اور ہر کوئی اپنی بات آپ سے آسانی سے کہہ لیتا اور کوئی بھی مدد کسی بھی وقت لے سکتا تھا۔ آپ کو گاندھی جی بھی امی جان کہہ کر پکارتے تھے اس بہادر خاتون مجاہد آزادی اور مدر انڈیا کا 13/ نومبر 1924ء کو انتقال ہوا۔۔ ۔( مستفاد از کتاب لہو بولتا بھی ہے) (جاری)

ناشر/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
6393915491

نوٹ اس مضمون کو مختلف کتابوں کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے، خاص طور پر لہو بولتا بھی ہے۔ اس سے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے