Ticker

6/recent/ticker-posts

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدرسہ مصباح العلوم مکیا، مدھوبنی کے بانی مہتمم، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتا مڑھی کے سابق صدر المدرسین، الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں کے نامور فیض یافتہ، مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور کے مشہور فاضل، مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کوٹ کے سابق مدرس، بڑے عالم دین البیلے خطیب، متواضع اور منکسرا المزاج حضرت مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بن محمد صادق (م 1991) بن امام علی بن شر ف الدین بن احمد بن عبد اللہ کا 15محرم الحرام 1445ھ مطابق 3 اگست 2023بروز جمعرات کوئی تین بجے سہ پہر آئی جی ایم ایس پٹنہ میں انتقال ہو گیا، وہ پیٹ کے درد آنتوں کے الجھنے کے مرض میں مبتلا تھے، علاج آپریشن تھا، لیکن پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا اور مولانا نے رخت سفر باندھ لیا۔ جنازہ 4اگست کو سوا تین بجے سہ پہر ان کے صاحب زادہ مولانا محمد عمران ندوی نے پڑھائی، جنازہ سے قبل مولانا محمد شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے مختصر خطاب کیا، مولانا محمد اظہار الحق مظاہری ناظم الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں، مولانا محمد انوار اللہ فلک قاسمی بانی ادارہ سبیل الشرعیہ آوا پور، شاہ پور سیتامڑھی، حضرت مولانا عبد المنان صاحب بانی مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی جیسے اکابر علماء، عوام جم غفیر کے ساتھ جنازہ میں شریک تھے اس کے قبل پٹنہ سے بذریعہ امبولینس ان کا جنازہ مکیا منتقل کیا گیا، بعد نماز جمعہ عام دیدار کے لیے غسل وکفن کے بعد مدرسہ مصباح العلوم کے صحن مین جنازہ رکھا گیا، جس کی ترقی کے لیے وہ پوری زندگی کوشاں رہے، تدفین مدرسہ سے متصل جانب جنوب آبائی قبرستان میں ہوئی، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکے انور، حافظ انظر، مولانا سلمان، مولانا محمد عمران ندوی اور شاعر حافظ بلال حسامی اور تین لڑکیاں ہیں۔

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کی ولادت 5 مارچ 1950 کو موضع مکیا، ڈاکخانہ بشن پور موجودہ ضلع مدھوبنی میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال گاؤں میں ہی تھی اور ان کے نانا کا نام محمد علیم تھا، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد 1964 میں الجامعۃ العربیہ اشر ف العلوم کنہواں میں داخل ہوئے، ابتدائی درجات سے عربی چہارم تک کی تعلیم یہاں پائی، 1970 تک کازمانہ یہیں گذرا، مولانا نے اس وقت کے نامور اساتذہ حضرت مولانا محمدطیب صاحب ناظم مدرسہ مولانا محمد طیب صاحب کماوری، مولانا زبیر احمد رحہم اللہ سے کسب فیض کیا اور اپنے ساتھیوں میں ممتاز رہے، 1971 میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا، حضرت مولانا محمد زکریا ؒ شیخ الحدیث اور مولانا محمد یونس صاحب ؒ سے زیادہ تعلق رہا اور بقدر ظرف ان اکابر کے علوم، صلاح و تقویٰ سے حصہ پایا اور سند فراغ 1974 میں وہیں سے حاصل کیا۔ فراغت کے بعد 1975 میں محمد صدیق بن نوازش کریم کی دختر نیک اختر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، جناب محمد صدیق صاحب حسن پور بر ہروا کے رہنے والے تھے، ا س لیے مولانا کی سسرال حسن پور برہر وا قرار پائی۔

تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کورٹ یوپی سے کیا، چودہ سال تک یہاں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، جب حضرت مولانا عبد الحنان صاحب ؒ نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ قائم کیا تو آپ کو فتح پور سے تدریس کے لیے بالاساتھ بلا لیا، چنانچہ تین سال تک آپ یہاں خدمت انجام دینے کے بعد کویت میں ملازمت اختیار کرلی، پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھنے ولا آدمی زیادہ دن دوسرے کاموں میں چل نہیں پاتا، چنانچہ دو سال کے بعد آپ فرصت پر آئے تو دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا، حضرت مولانا عبد الحنان صاحب کا تقاضہ ہوا تو اب وہاں کے صدر مدرس بن کر آئے اور کئی سال یہاں گذارے، اس زمانہ میں مولاناکی ٹوپی مولانا عبد الحنان صاحب ؒ کی طرح ہی کھڑی ہوا کرتی تھی، اور جب دونوں پہلی صف میں جماعت کے لیے آزو بازو بیٹھے ہوتے تو لگتا کہ دو خوبصورت میناران عالی قدر لوگوں کے سروں پر رکھا ہوا ہے، کچھ دن بعد مولانا نے محسوس کیا کہ ان کے پرواز میں کمی آرہی ہے تو انہوں نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کو پھر سے خیر باد کہہ دیا، آبائی وطن مکیا میں پہلے سے جاری مکتب کو مدرسہ کی شکل دیدی اور اس کو پروان چڑھانے میں پوری زندگی لگا دی، مولانا محمد عمران ندوی کی اس لائن سے تربیت کرتے رہے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں گے۔

مدرسہ کے ساتھ آپ کا دوسرا بڑا میدان عمل اصلاح معاشرہ کی غرض سے میدان تقریر وخطابت تھا، اس کام میں وہ محبوب، مقبول اور”مطلوب“ تھے، عوامی زبان، عوامی اصطلاحات، عوامی الفاظ، عوامی لب ولہجہ، عوامی محاورے، عوامی ضرب الامثال، لطائف اور لوگ گیتوں پر انہیں عبور تھا، انہیں کمالات کے وجہ سے میں انہیں البیلا خطیب کہا کرتا تھا، درمیان میں نعتیہ اشعار اور حمد وغیرہ بھی اپنے مخصوص لب ولہجہ میں پڑھ کر سناتے، ہر دو چار جملے کو دھیرے اور پھر زور سے بیان کرتے تو مجمع پھر سے ہوشیار اور بیدار ہوجاتا، وہ کسی بھی جلسے میں اپنی تقریر پہلے کروانے کی تجویز نہیں رکھتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا نمبر نواں وکٹ گرنے کے بعد ہی آئے گا اورمجھے فجر تک ناٹ آؤٹ ہی رہنا ہے، ظاہر ہے آخر رات میں مجمع کم ہوجاتا تھا لیکن ان کے لب ولہجے اور تقریر پر اس کا اثر نہیں پڑتا تھا۔جو سامعین بچ جاتے وہی ان کے لیے حتمی ہوتے اور آخر وقت تک بچے کُھچے سامعین ان کا ساتھ دیتے رہتے، بعض لوگ ان کی تقریر شروع ہوگئی اسی وقت جلسہ میں حاضرہوتے۔ خطابت کی مشغولیت نے ان کے علمی رسوخ کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیا۔

ان کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار ایک جلسہ میں ہم دونوں مدعو تھے، مولانا اتفاق سے تشریف نہیں لا سکے، اب بھی میرے پاس آکر بیٹھتاکہتا کہ مولانا مطلوب صاحب نہیں آئے، میں نے کہا کہ جو آگیا اس کی قدر کرنا سیکھو، کہنے لگے کہ مولانا کی بات ہی کچھ اور ہے، جب ان کی پریشانی بڑھی تو میں نے کہا کہ چلو میں آج ”مطلوب الرحمن“ بننے کی کوشش کرتا ہوں، پھر میں نے ان کے لب ولہجہ میں تین گھنٹے تقریر کی تو مجمع کو کچھ اطمینان ہوا، میں نے اپنی تقریر مولانا احمد رضا خان صاحب کی مشہور نعت کے آخری شعرختم کیا۔

بس خانہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز مِری نہ یہ رنگ مِرا
ارشاد احباء ناطق تھا نا چار اس راہ پر پڑا جانا

میں شروع سے رت جگے جلسوں کا مخالف رہا ہوں، ایک جلسہ میں میں نے اُس کے خلاف تقریر کر دی، میرے بعد مولانا کا نمبر تھا، میری تقریر کے اثر کو باقی رکھنے کے لیے انہوں نے اس جلسہ میں تقریر نہیں فرمائی، دعا کرکے جلسہ ختم کر دیا، وہ چاہتے تو مختلف دلائل سے میری تقریر کا رد کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، مولانا سے آخری ملاقات میری 15 مارچ 2023 کو مدرسہ عزیزیہ برار سیتامڑھی کے جلسہ میں ہوئی تھی، حسب سابق شفقت ومحبت سے پیش آئے، مجھے عجلت تھی، بارہ بجے سے پہلے ہی تقریر کرکے میں چلتا بنا، اس سفر میں میرے ساتھ عزیزم محمد ظفر الہدیٰ قاسمی اور ماسٹر عبد الرحیم صاحب بھی تھے۔ اب ایسی شفقت ومحبت اور خورد نوازی کرنے والے کم رہ گیے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور خطابت کے میدان میں ان کا نعم البدل دے۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے