Ticker

6/recent/ticker-posts

مولوی احمد میرؒ اور مدرسہ احمدیہ ابابکر پور

مولوی احمد میرؒ اور مدرسہ احمدیہ ابابکر پور

✍️قمر اعظم صدیقی
بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا
9167679924


مولوی احمد میرؒ نے 99 سال قبل سن 1924ء میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور کی بنیاد ڈالی، تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے آبا و اجداد کا تعلق بغداد سے تھا، لیکن ان لوگوں نے ترک وطن کر کے ہندوستان آنا پسند کیا، جس زمانے میں آپ کے آبا و اجداد ہندوستان تشریف لائے تھے، اس وقت مغلیہ سلطنت کا بول بالا تھا، اللہ کی مرضی بھی یہی تھی کہ آپ کے آبا و اجداد نے ہندوستان کے تمام بڑے شہروں کو چھوڑ کر صوبۂ بہار کے چھوٹے سے دیہی علاقے کو اپنا مسکن بنایا، یہ دیہی علاقہ کوئی اور نہیں؛ بلکہ ضلع و یشالی کا ایک خوبصورت اور مشہور و معروف موضع "ابا بکر پور" تھا۔ اس موضع کا نام بھی آپ کے آبا و اجداد نے ہی رکھا تھا۔

مولوی احمد میر کے والد کا نام مہدی حسن تھا۔ آپ کے والد کا شروعاتی پیشہ وکالت تھا، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد آپ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو منصف کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔

مولوی احمد میرؒ کی پیدائش 1872ء میں ابابکر پور میں ہی ہوئی اور یہیں آپ پلے بڑھے، پروان چڑھے۔ آپ جوانی کی دہلیز پر قدم بھی نہیں رکھ پائے تھے کہ والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد محترم کے انتقال کے بعد آپ نے اپنے چچا محترم اور والدہ محترمہ کی سرپرستی میں ہی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری و ساری رکھا۔

آپ کا گھرانہ چونکہ علم و ادب کا گہوارہ تھا، اس لیے آپ بھی علم حاصل کرنے میں دلچسپی دکھانے لگے۔ آپ کی والدہ محترمہ بھی تعلیم یافتہ، نیک صفت، خوش اخلاق، اعلی کردار اور دیندار خاتون تھیں، اس لیے مزید آپ کی پرورش میں چار چاند لگ گیا۔ چچا کی نگرانی اور والدہ کی دعاؤں اور خود کی محنت کے نتیجے میں الحمدللہ آپ کامیابی کے زینے کو آسانی سے طے کرتے گئے اور 1888ء میں آپ نے ضلع مظفرپور کے ایک ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان بھی امتیازی نمبر کے ساتھ پاس کیا اور مزید اس طرح تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے انٹر اور بی اے میں بھی امتیازی نمبر کے ساتھ کامیاب ہوتے چلے گئے۔ آپ کے والد محترم نہایت مہذب، بےحد خلیق، نیک طبیعت اور ملنسار انسان تھے، علماء فضلاء، حفاظ کرام کے آپ بہت ہی قدرداں تھے، یہی وجہ تھی کہ علاقہ میں آپ اپنی ایک پہچان رکھتے تھے، والد محترم کی تمام صفات مولوی احمد میر کو وراثت میں ملی تھی جس کے نتیجے میں آپ کے اندر بھی یہ تمام صفات پائی جاتی تھیں، اور آپ اپنے تمام صفات کی وجہ سے چھوٹے، بڑے، بزرگ، اساتذہ کرام کی نگاہوں میں ہر دل عزیز تھے۔ الحاج مولوی احمد میرؒ اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے چند ہی دنوں بعد سن 1901ء میں ہزاری باغ میں رجسٹرار کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ سن 1921 ء میں آپ ہزاری باغ سے پٹنہ تشریف لے آئے اور پٹنہ سیکریٹریٹ میں پرسنل اسسٹنٹ جنرل رجسٹریشن بہار اڑیسہ کے اعلی عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ اپنے تمام تر سرکاری ذمہ داریوں کے باوجود اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے وقت نکال لیتے تھے اور ان کے حالات اور پریشانیوں کو توجہ کے ساتھ سنتے اور پھر ان کے مسائل کو بخوبی آسانی کے ساتھ سلجھا دیتے۔ آپ نے پوری زندگی غرباء، مساکین، کمزور اور مظلومین کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

آپ کے قومی، ملی اور ہمدردی کے جذبے نے آپ کو سکون سے جینے نہیں دیا۔ آپ خود تو علم نواز شخصیت تھے ہی، آپ کے آبا و اجداد بھی تعلیم یافتہ تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ کی سوچ، فکر و خیالات نے آپ کو ہمیشہ جھنجھوڑا اور آپ کو اس نتیجے پر لا کر کھڑا کر دیا کہ آپ فروغ علم کے لیے فکر مند رہنے لگے، آپ نے اپنے علاقے اور گرد و نواح کے لوگوں کی زندگی پر غور و فکر کیا توآپ کو ایسا محسوس ہوا کہ عوام تعلیم سے کوسوں دور ہے اور جہالت نے لوگوں کو جکڑ رکھا ہے اور اسی جہالت نے لوگوں کو بدعت و خرافات کرنے پر مجبور کر رکھا ہے، لوگوں کے اندر بددینی عام تھی۔ انہیں بدعات و خرافات اور بے دینی کو ختم کرنے اور تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے آپ نے جو فیصلہ لیا وہ آپ کی زندگی کا روشن باب ہے، آپ نے اپنی عمر کے 52 برس میں سن 1924ء میں تاریکیوں کو روشن کرنے کی غرض سے اپنی ہی زمین میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور کی بنیاد ڈالی۔ آپ کی فکر مثبت اور خالص للہیت پر مبنی تھی اس لیے یہ مدرسہ دیکھتے ہی دیکھتے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا چلا گیا، آج مدرسہ احمدیہ ابابکر پور، ضلع ویشالی کے باشندوں کے لیے ہی نہیں؛ بلکہ اہلِ بہار کے لئے ایک روشن مینار کی مانند ہے؛ کیوںکہ اس مدرسے کے اساتذہ و فارغین نے اپنے علم کی روشنی اور شہرت کا ڈنکا عالمی سطح پر بجا رکھا ہے۔

ضلع ویشالی کی اہم شخصیات جن کا تعلق مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور سے رہا ہے، ان میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد شمس الحق نور اللہ مرقدہ (سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر )، حضرت مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ( نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ ) اور مولانا محمد قمر عالم ندوی( سابق استاد مدرسہ عالیہ عرفانیہ , لکھنو، "شاخ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنو" ) کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔ جن کے شاگرد رشید ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مقبولیت کا ڈنکا ملک کی سرحدوں سے باہر تک سنائی دیا اور دے رہا ہے۔

molvi-ahmad-mir-aur-madrasa-ahmadia-aba-bakr-pur

مدرسہ احمدیہ کے علاوہ مولوی احمد میر نے مدرسہ اسلامیہ ڈھاکہ ضلع چمپارن میں بھی مدرسہ قائم کیا۔ اس کے علاوہ مشہور و معروف انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ کے قیام میں آپ کا قابل قدر حصہ رہا ہے۔ ا س وقت بھی مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں بہت ہی کامیابی کے ساتھ بہترین و قابل قدر اساتذہ کی نگرانی میں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ موجودہ اساتذہ میں پرنسپل مولانا شمیم احمد شمسی، مولانا سید نظیر عالم ندوی، مولانا محمد قمر عالم ندوی، مولانا اعجاز کریم قاسمی، قاری محمد اخلاق عرفانی، قاری محمد فاروق الحسینی، ماسٹر سید ظفر عالم شمسی، الحاج شمس الحق اور نیر حبیب وغیرہم درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مولوی احمد میرؒ ان کے رفقا اور مدرسہ احمدیہ کے حوالے سے بہت گوشے ایسے ہیں جن پر طویل گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن بخوف طوالت میں کسی اور گوشے پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں لیکن ایک اہم بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آج ایک صدی بعد اگر ہم لوگ مولوی احمد میر کو یاد کر رہے ہیں، تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ انہوں نے وہ کارنامہ انجام دیا، جس سے لوگ آج بھی اپنے علم کی پیاس بجھا رہے ہیں اور فیضیاب ہو رہے ہیں۔ تو کیا ہم لوگوں کے لیے یہ کافی ہے کہ صرف ایک سیمینار منعقد کر لیا جائے اور آپ کو خراج عقیدت پیش کر دیا جائے تو کیا ہم اس سے بری الذمہ ہو جائیں گے۔

قمر اعظم صدیقی

معاف کیجئے گا، ان کے شایان شان یہ خراج عقیدت نہیں ہو سکتا، سچی خراج عقیدت تب ہوگی جب ہم سب یہ عہد کریں کہ مسلم معاشرے کا ایک بھی بچہ یا بچی غیر تعلیم یافتہ نہیں رہے۔ کیونکہ آج بھی مسلم معاشرے میں تعلیم کی شرح صرف 16 فیصد ہے، ہم سب یہ عہد کریں کہ اپنے بچوں کو اعلی سے اعلی تعلیم سے آراستہ کرائیں گے اور ہر شخص یہ بھی عزم کرے کہ پڑوس میں رہ ر ہے ویسے ایک بچے جن کی تعلیم کا معقول انتظام نہیں ہے، اسے بھی اپنے ذمہ میں لیں تو اس کی بھی تعلیم مکمل ہو جائے گی۔

اس طرح کا کام ہم اور آپ بہ آسانی کر سکتے ہیں لیکن صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے فکر و خیالات کو بلند کرنا ہوگا اور اپنے کو ذمہ دار بنانا ہوگا۔ اگر مسلم معاشرے کا ایک ایک تعلیم یافتہ شخص یہ ذمہ داری قبول کر لے اور تھوڑا وقت عوام الناس میں خرچ کرے، ان کے مسائل کو سنے اور پھر اس کو حل کرنے کے لیے آگے آئے تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ دن دور نہیں ہوگا جب مسلم معاشرے کا ہر فرد تعلیم یافتہ ہوگا اور خوشحال ہوگا۔

ہر موضع میں ایک کمیٹی کی تشکیل دیں اور جو لوگ اس لائق ہیں جن کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے ان سے ملیں، ان کو دین و شریعت کے فضائل اور احکام بتائیں، ان سے مالی تعاون حاصل کریں اور اس رقم کو صرف اور صرف نادار لاچار، بے سہارا بچوں کی تعلیم پہ خرچ کریں، ان شاءاللہ جب آپ کے بچے تعلیم یافتہ ہوں گے تو ان کو دین و دنیاکی سمجھ بھی آئے گی اور وہ حلال و حرام، جائز و ناجائز کی تمیز بھی کر سکیں گے، اور جب بچے تعلیم یافتہ ہوں گے توآپ کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے