مومن کامل کے اوصاف قرآن کریم کی روشنی میں
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
ہر انسان کامیابی کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ خواہش اس کے اندر فطری ہے، اس کی تکمیل کے دنیا بھر کے اہل خرد نئے نئے فامولے پیش کرتے ہیں، بازار میں اس عنوان پر ہندو بیرون ہند کے مصنفین کی بہت ساری کتابیں موجود ہیں او ردعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر ان فارمولوں پر عمل کیا جائے تو کامیابی آپ کا مقدر ہے، جیت آپ کی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کامیاب انسانوں کے اوصاف کا ذکر کیاہے۔ اور اسے فلاح سے تعبیر کیا ہے، فلاح کے معنی ہر مراد کا پورا ہونا اور ہر تکلیف سے محفوظ رہنے کے آتے ہیں، نماز کے لیے اذان کا معاملہ ہو یا اقامت کا مؤذن فلاح کی طرف ہی لوگوں کو بلاتاہے، لیکن آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فلاح کے جو حقیقی معنی ہیں اس کا حصول انسانوں کے لیے اس دنیا میں پورے طور پر ممکن نہیں ہے، دنیاوی زندگی میں نہ تو ہر مراد پوری ہوتی ہے اور نہ ہر تکلیف سے بچناممکن ہوتاہے، اسی طرح زوال نعمت کے امکان سے بھی انسانی قلوب پریشان رہا کرتا ہے، اسی لیے دنیا کو دار المحنت سے تعبیر کیا گیا ہے، اطمینان اور سکون کی جگہ تو صرف جنت ہے، اگر اللہ اپنے فضل سے عطا فرمادیں۔
تزکیۂ نفس
کامیابی کے لیے سب سے پہلی چیز تزکیۂ نفس ہے، اللہ رب ا لعزت کا ارشاد ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ(سورۃ الاعلیٰ: 19) جس نے خود کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہے، مفسرین نے تزکیہ کی تفسیر میں کفر و شرک اور گناہوں سے پاک ہونا لکھا ہے، یہی اصل تزکیہ ہے، کیوں کہ جب نفس کفر وشرک سے پاک ہوگا تو دل اللہ رب العزت کے ذکر کی طرف مائل ہوگا اور وہ اللہ کی یاد کے لیے نماز پڑھا کرے گا، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلیّٰ (سورۃ الاعلیٰ :20) میں یہی بات کہی گئی ہے، جب قلب کفر و شرک سے پاک ہوگا تو آدمی کی رغبت ایمان واسلام، ارکان اور تزکیہ کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے اس کی طرف ہوگی، پھر کامیابی اس کا مقدر ہوگی، اللہ رب العزت نے اٹھارہویں پارہ کے آغاز اور انتیسویں پارہ کے سورۃ معارج میں کامیاب انسانوں کے اوصاف کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، ان میں سے پہلی چیز نماز ہے، جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، نمازی کے دل میں اللہ کی محبت جاگزیں ہوتی ہے، اللہ کی بڑائی اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کا خیال اسے بُرے کاموں سے روکتا ہے، وہ اپنے پاس اللہ کو محسوس کرتا ہے، لیکن یہ اوصاف ایمان والوں میں اسی وقت پیدا ہوں گے جب اس کی نماز خشوع کے ساتھ یعنی سکون کے ساتھ ہو، خشوع میں سکونِ قلبی اور سکونِ جسمانی دونوں شامل ہے، سکون قلبی تو یہ ہے کہ دل اللہ کی طرف ہی پورے طور پر متوجہ ہو اور سکون جسمانی کا مطلب ہے کہ نماز میں فضول حرکتیں نہ کریں، خصوصا ایسی حرکتیں جو نماز میں خلل ڈالنے والی ہوں۔ اس لیے کہ اللہ بڑا بے نیاز ہے، اگر بندہ اس کی طرف متوجہ نہیں رہتا ہے تو اللہ بھی اس سے اپنا رخ پھیر لیتا ہے، اسی لیے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے، بدن کے کسی حصے سے کھیلنے، دامن مڑوڑنے، ڈاڑھی میں بار بار ہاتھ لے جانے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ سب خشوع کے خلاف ہیں، مجمع الزوائد کی ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے امت سے خشوع اٹھ جائے گا او رقوم میں خاشعین کی کمی ہوجائے گی یا وہ نظر نہیں آئیں گے۔ نماز خشوع سے پڑھی جائے تو اس کا اثر زندگی پر وہ پڑتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کیا ہے کہ نماز برے اور فحش کاموں سے روکتی ہے، نماز کو خشوع سے پڑھنے کی وجہ سے یہ صفت خود بخود بندے کے اندر پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ فضول اور لا یعنی بحثوں اور غیر نفع بخش کاموں سے دور بھاگتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں کو چھوڑدے یہ کامیاب ایمان والوں کی دوسری صفت ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ
تیسرا وصف جو ایمان والوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ، اس کی دو شکلیں ہیں ایک تو سال گذرنے کے بعد اپنے مال سے ڈھائی فی صد نکالنا یہ تو فرض ہے، دوسرا ہے صدقات نافلہ یعنی فقراء، یتامیٰ، مساکین پر خرچ کرنا، اس بات کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ تم اس وقت تک خیر کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز کو خرچ نہ کرو، اس کو قرآن کریم میں قرض حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کو قرض حسنہ دو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جسے امام بخاریؒ نے حفص بن غیاث سے روایت کیاہے کہ تمہارا مال تو وہی ہے جو تم نے اللہ کے راستے میں اپنے ہاتھ سے خرچ کر دیا اور جو رہ گیا وہ تمہارا نہیں تمہارے وارث کا مال ہے، ایمان والے کے اندر جب یہ صفت پیدا ہوتی ہے تو وہ بہت سارے گناہ اور رذائل سے بچ جاتا ہے، دینے کا یہ مزاج جب بڑھتا ہے تو آدمی سخی کہلاتا ہے اور جنت میں جانے کے من جملہ اوصاف میں سے ایک سخاوت بھی ہے۔ للزکوٰۃ فاعلون کی تعبیر بتاتی ہے کہ کہ اس وصف میں زکوٰۃ واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں شامل ہیں، کیوں کہ فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قرآن کریم کی تعبیر آتو الزکوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کی رہی ہے۔ بعض نے یہاں زکوٰۃ سے مراد تزکیہ لیا ہے، یعنی روحانی امراض بعض حسد، کینہ، ربا، تکبر، حرص اور بخل وغیرہ سے خود کو محفوظ کر لینا اور محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا۔
چوتھی صفت مؤمن کے اندر یہ ہونی چاہیے کہ وہ محرمات سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرے اور شہوانی خواہشات کا غلبہ اس کے اندر نہ ہو، جو لوگ شہوت پوری کرنے کے لیے اپنی بیویوں تک محدود رہتے ہیں، وہ قابل ملامت نہیں ہیں، جنسی خواہشات کی تکمیل ایک فطری تقاضہ ہے، اس کے لیے بیوی اور باندیوں کا ذکر کیا گیا ہے، باندیاں اب ہوتی نہیں، ا س لیے اب اس کام کا جائز طریقہ بیوی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور وہ بھی شرعی حدود و قیود کے ساتھ۔
امانتوں میں خیانت نہ کرنا
پانچویں صفت امانتوں میں خیانت نہ کرنا اور ان کی رعایت کرنا، یعنی حفاظت کرنا ہے، امانات کہہ کر کے اللہ رب العزت نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس میں ہر قسم کی امانت شامل ہے، بغیر اجازت کے کسی کا راز دوسروں پر کھولنا، ملازمت کے جو اوقات ہیں اس کے مطابق وقت نہیں لگانا، یہ سب امانت میں خیانت ہے اور ایمان والوں کو امانت کی پوری رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا، اسی کے ساتھ اللہ نے معاہدے اور وعدوں کی پاسداری بھی کامل ایمان والوں کی چھٹی صفت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگر کوئی مومن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ دوسرے فریق کو دھوکہ دے رہا ہے، حالاں کہ معاہدہ کی پابندی فرض کے درجہ کی چیز ہے، اسی طرح وعدہ خلافی بھی مذموم ہے، کسی سے وعدہ کرلیا جائے تو اسے پورا کیا جائے، یہ بھی ضروری ہے، معاہدہ کی خلاف ورزی پر تو عدالت تک کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے، البتہ وعدہ کی خلاف ورزی پرداروگیر اللہ ہی کر سکتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی جو پہچان بتائی ہے اس میں امانت میں خیانت اور وعدوں کی خلاف ورزی شامل ہے، اور منافق کامل مومن تو دو ر کی بات ہے، اس کا ایمان بھی محض دکھا وا ہوتا ہے۔
نماز کی حفاظت
اور ساتویں صفت نماز کی حفاظت ہے، یہاں صلوٰۃ جمع لایا گیاہے تاکہ پنج وقتہ نماز یں اس میں شامل ہوجائیں، جنہیں اپنے وقت پر ادا کرنا ہے، پہلی صفت میں نماز کا ذکر خشوع کے حوالہ سے تھا۔ یہاں فرض نماز کی حفاظت کی بات کہی گئی ہے۔ سورۃ معارج میں ’’الذِیْنَ ھُمْ عَلی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْن‘‘ کہہ کر نماز پر مداومت، پابندی اور ہمیشگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس سورۃ میں ان تمام اوصاف کے ساتھ اللہ رب العزت کے عذاب سے ڈرنے اور شہادتوں پر قائم رہنے کا بھی ذکر موجود ہے، اللہ کا ڈر، اللہ کی خشیت اور اللہ کا خوف شاہ کلید ہے، جس سے ہمارے اعمال میں اعتدال اور توازن پیدا ہوتا ہے اور نیک عمل کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے، سورۃ العصر میں جہاں زمانہ کی قسم کھا کر اللہ رب العزت ارشاد فرمایاہے کہ انسان گھاٹے میں ہے، مگر وہ انسان جو ایمان والے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں، حق کی تلقین ان کا شیوہ اور صبر تحمل، برداشت ان کی عادت ہے، ایسے لوگ کامیاب ہیں۔
عباد الرحمن
ان اوصاف کے حاملین کی زندگی میں ایسی تبدیلی آتی ہے جو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے، ایسے لوگ قرآن کی اصطلاح میں ’’عباد الرحمن‘‘ ہوجاتے ہیں جو زمین پردبے پاؤں عاجزی اور نرمی سے چلتے ہیں، جب نا سمجھ اور نادان لوگ ان سے گفتگو کرنے لگتے ہیں تو وہ سلامتی طلب کرکے اپنی راہ لیتے ہیں، ان کی راتیں رب کے سامنے سجدے اور قیام میں گذرتی ہیں، او روہ اللہ سے دوزخ کے عذات سے محفوظ رکھنے کی دعائیں مانگتے رہے ہیں، وہ خرچ میں اسراف اور بخالت سے بچتے ہیں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، وہ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے، وہ ناحق قتل نہیں کرتے، زنا سے پرہیز کرتے ہیں، وہ جھوٹے کاموں میں شریک وسہیم نہیں ہوتے اور لغویات سے با عزت نکل جاتے ہیں، وہ اپنی بیوی اور بچوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے اور انہیں پر ہیز گاروں کا مقتدیٰ بنانے کی دعا مانگتے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔
ان اوصاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پرمزید گفتگو کی جا سکتی ہے، اہل علم نے پوری پوری کتابیں اور مفسرین نے صفحات کے صفحات اس موضوع پرلکھ ڈالے ہیں، لیکن یہاں ایجاز سے کام لیا گیا ہے، امید ہے کہ ان اوصاف کو اپنا کر ہم مومن کامل بنیں گے اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ وماتوفیقی الا باللہ
0 تبصرے