پالیسی اور پلان، نہ کہ بیان
تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری، سہارنپور موبائل نمبر 8860931450
ملک عزیز بھارت جس کو جمہوریت کی ماں Mother of democracy کہا جاتا ہے، جس کی پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر Temple of democracy کہا جاتا ہے، اسی ملک میں 21/ ستمبر 2023 کو لوک سبھا میں چندریان پر بحث کے دوران بی جے پی کے رکن پارلیمینٹ رمیش بدھوری نے بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمینٹ کنور دانش علی کے خلاف انتہائی غیرمہذب ناشائستہ اور فحش زبان کا استعمال کیا ہے رمیش بدھوری نے ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے جو عام طور پر جارح ہندتوا عناصر Agressive hindutva elements مسلمانوں کے خلاف گلیوں میں کرتے ہیں۔ میڈیا نے اس معاملے کو زور و شور سے اٹھایا بی جے پی پر چاروں طرف سے لعن طعن کی گئی تب جاکر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ”اگر مگر“ کے ساتھ معافی مانگی۔ لیکن کچھ پارٹیاں ابھی بھی رمیش بدھوری کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کر رہی ہیں، جس کے چانس بہت کم ہیں۔ دوسری طرف بعض تجزیہ نگار کنور دانش علی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ تم ہی استعفیٰ دیدو جبکہ مولانا سجاد نعمانی صاحب کی رائے ہے کہ استعفٰی بالکل نہ دیا جائے اور اس اس ظلم کا مقابلہ کیا جائے۔
کنور دانش علی صاحب کا استعفیٰ دینا یا نہ دینا، رمیش بدھوری کے خلاف سخت کارروائی کا ہونا یا نہ ہونا بہت چھوٹی باتیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ بی جے پی مہذب چہرہ دکھانے Cultured face کے لیے رمیش بدھوری کو پارلیمنٹ سے معطل کردے اور پارٹی سے نکال بھی دے، مگر اچھی طرح سمجھ لیں مذکورہ کاروائیوں اور مسلم دانشوران و علماء کرام کے اخباری بیانوں سے اصل مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی ہندتوا کے بےلگام گھوڑے کو قابو کیا جاسکتا۔
ہندتوا کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے کے لئے خاموشی سے بند کمروں میں پالیسی اور پلان بنانا پڑے گا، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آزاد بھارت میں ہماری قیادت خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ”خاموش پالیسی“ بنانے میں ناکام رہی ہے، موجودہ زمانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ الیکشن ہو یا میدان جنگ ہر جگہ پالیسی ہی کی ”ہار جیت“ ہوتی ہے اور پالیسی بند کمروں میں ٹیبل پر بیٹھ کر بنائی جاتی ہے ناکہ جلسوں میں، باقی چیزیں تو بنائی گئی پالیسی کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ماشاءاللہ بعض مسلم دانشوران نے تعلیم کے میدان میں خاموش پالیسی بنائی تو اس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔
جو کچھ آج پارلیمنٹ میں ہؤا ہے ویسے تو یہ سب آزادی کے بعد سے ہی ہورہاہے مگر 2014 کے بعد سے تو کھلم کھلا پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقات کے ساتھ بھی ہر دن ہورہاہے اس سے بھی بدتر صورت میں ہورہاہے یعنی موب لنچنگ ہورہی ہے مسلمانوں کا بائکاٹ ہورہاہے، آدی واسیوں پر پیشاب ہورہاہے، دلتوں کو قتل کیا جارہاہے، مکانات بلڈوز کیے جارہے ہیں۔ مگر کیا ہماری قیادت نے کوئی پالیسی بنائی ہے ؟ کیا کبھی متحد ہونے کی کوشش کی ؟ کیا کبھی کسی سے بامعنی مذاکرات کیے ؟ ہرگز نہیں کیوںکہ ان کے پاس کوئی پالیسی ہی نہیں، مزید یہ کہ پالیسی بنانے کے لیے اپنے اور دوسرے سماج کو پڑھنا پڑتا ہے، حالات کا گہرا تجزیہ کرنا پڑتا ہے اور پھر حلووں جلوؤں سے یکسو ہونا پڑتا ہے تب جاکر پالیسی مرتب ہوتی ہے۔ آر ایس ایس یوں ہی کامیاب نہیں ہے ان کی خطرناک پالیسی کے لیے سو سال سے ہندتوا کے غنڈہ صفت رنڈوے محنت کر رہے ہیں۔
کانشی رام ( متوفی 2006) بہوجن سماج پارٹی کو اس وقت کھڑا کر پائے جب کانشی رام نے اپنی جوانی کی قربانی دی اور اپنی قوم کے لیے گھر بار تیاگ دیا، ہم ”رہبانیت“ کے تو قائل نہیں مگر خدا را قوم کے لئے کسی چیز کی تو قربانی دیجیے۔ اچھی طرح سمجھ لیں بھارت اب نہرو اور گاندھی کا بھارت نہیں رہا ہے، اب یہ بھارت آر ایس ایس کے غنڈہ صفت رنڈووں کا ہوچکا ہے، پوری مشینری پر ایک ہی ذہنیت کا قبضہ ہوچکا، اب ہماری قیادت پر ضروری ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے بھارت کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی ترتیب دیں اور ایسا بالکل نہیں کہ ہم آر ایس ایس کو پچھاڑ نہ سکیں، ہندو سماج انتہائی کھوکھلا سماج ہے یہ سماج بالو کے ریت پر ٹکا ہؤا ہے، ہلکا سا جھونکا بھی اسکو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر دے گا، کیا ہماری قیادت نے اس بات پر غور نہیں کیا کیا ؟ کہ رواں ماہ 2/ ستمبر کو تمل ناڈو کی ڈی ایم کے حکومت میں وزیر اور سی ایم اسٹالن کے بیٹے ادھے ندھی نے سناتن دھرم کو ڈینگو اور ملیریا سے تشبیہ دی اور کہا کہ
”کچھ چیزوں کی مخالفت نہیں کی جا سکتی لیکن انہیں ختم کرنا پڑتا ہے، ہم ڈینگی ملیریا یا کرونا کی مخالفت نہیں کر سکتے انہیں ختم ہی کرنا ہے اسی طرح سناتن دھرم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سناتن دھرم سماجی انصاف اور مساوات کے خلاف ہے “ اسی قسم کی آوازیں پسماندہ طبقات کی طرف سے لگاتار اٹھتی رہتی ہیں جو کہ یہ بتلانے کے لیے کافی ہیں کہ ہندتوا طاقتوں کا مفروضہ ”ہندو سماج“ انتہائی کمزور بنیادوں پر استوار ہے۔
قاعدہ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، تو کیا ہماری قیادت کی ذمے داری نہیں بنتی کہ وہ پسماندہ طبقات کے لوگوں سے بامعنی مذاکرات اور معاہدے کرے اور ہندتوا کے بےلگام گھوڑے کو لگام لگائے۔ میں یہاں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر محترم بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آنجناب اپنی سیاسی تقریروں میں پوری طاقت سے دلتوں اور قبائیلیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، ایک تقریر میں تو اویسی صاحب نے کمال کا جملہ کہا تھا کہ ”میں بھیم راؤ امبیڈکر کو گاندھی سے بڑا راہنما مانتا ہوں“ یہ حقیقت بھی ہے اور ہندتوا کے بے لگام گھوڑے کی لگام بھی۔
24/ ستمبر 2023
0 تبصرے