Ticker

6/recent/ticker-posts

سیکولر امیدوار کو آگے بڑھاؤ

سیکولر امیدوار کو آگے بڑھاؤ


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

بھارت میں جب بھی چھوٹے یا بڑے الیکشن ہوتے ہیں تو مولانا ارشد مدنی صاحب سمیت اکثر و بیشتر علماء کرام اور شیروانی میں ملبوس زبردستی کے دانشورانِ قوم اخبارات میں ایک بیان شائع کراتے ہیں کہ ”سیکولر طاقتوں کو آگے بڑھائیں“

ہماری قیادت کا یہ بیان مکمل طور پر جہالت اور ناعاقبت اندیشی کا مظہر ہے، اگر کوئی مسلم قیادت سے معلوم کرے کہ سیکولر کون ہے؟ تو وہ کبھی بھی جواب نہیں دے پائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے بیانات اور سوچ نے مسلم ووٹ کی اہمیت بھی گرادی اور برسراقتدار طاقتوں کا دشمن بھی بنادیا یہ اپیل مسلمانوں کو کنفیوژ بھی کرتی ہے آخر ایک عام مسلمان کس طرح فیصلہ کریگا کہ کون سیکولر ہے ؟ اور کونسا سیکولر امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہے ؟

مذکورہ اپیل پر کسی بھی اینگل سے غور کیا جائے تو نتیجہ یہ ہی نکلے گا کہ یہ اپیل بیہودگی کے سوا کچھ بھی نہیں، آخر ہماری گھسی پٹی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ اگر بی جے پی فاشسٹ اور غیر سیکولر ہے تو مزعومہ سیکولر طاقتوں نے گزشتہ پچھتر سالوں میں کیوں اس کو پنپنے دیا ؟ اگر بی جے پی ملک کے لئے خطرناک ہے تو ملک کے طاقتور ادارے کیوں آر ایس ایس اور بی جے پی کا تعاون کر رہے ہیں، فوج ابھی تک کیوں بیرکوں میں بیٹھی ہوئی ہے ؟ بھارت کی اکثریت بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف کیوں سڑکوں پر نہیں اترتی ؟ صرف اسی لیے نا کہ بھارت کی ہندو اکثریت سیکولر نظریات کو چھوڑ چکی۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اب بی جے پی کی حمایت کی جائے بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ خامخواہ کیوں بی جے پی کی مخالفت کی جاتی ہے ؟ اور بغیر کچھ کیے دھرے ہی دیگر سیاسی پارٹیوں کو کیوں سیکولرازم کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے ؟

ووٹ کس کو دیں اور کس کو نہیں ؟ میرا ناقص خیال ہے کہ اس معاملے میں مسلم قیادت اور دانشورانِ قوم کو اس وقت تک خاموش رہنا چاہیے جب تک مسلمانوں کی اپنی لیڈر شپ تشکیل نہیں پاجاتی، دانشورانِ قوم کو بیہودہ اپیلیں کرنے سے زیادہ اپنی مسلم سیاسی لیڈر شپ کھڑی کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور عارضی طور پر اس وقت تک مسلمانوں کو اپنے اپنے علاقے کے مسائل کی نوعیت کے اعتبار سے تمام پارٹیوں سے رابطے رکھنے چاہیے اور ووٹ بھی دینے چاہیے۔

آخری بات

سوشل میڈیا پر سرگرم بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دانشوران اس ضرورت کا اظہار کرچکے ہیں کہ مسلم لیڈر شپ تشکیل دیے بغیر سیکولر بھارت میں مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا، سیاسی گلیاروں میں اور انتظامی مشینری میں سیاسی طاقت کے بغیر مسلمانوں کی کوئی کچھ نہیں سننے والا، نوجوان مفکر محمد عمار خان نے بھی مسلم قیادت کی ضرورت پر انتہائی بامعنی ویڈیؤ اپلوڈ کیا ہے جسکو ان کے یوٹیوب چینل پر سنا جاسکتا ہے، عمار خان نے اپنی اسی ویڈیو میں مفروضہ سیکولر طاقتوں کے کردار پر انتہائی بامعنی گفتگو کی ہے اور مسلم قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی ہے اور بہت صاف لفظوں میں کی ہے۔ راقم الحروف ایسے سماج کو جس کی اپنی کوئی سیاسی طاقت نہ ہو اس کو ”اپاہج سماج“ کہتا اور لکھتا آیا ہے۔

بھارت میں آزادی کے بعد مسلم سیاسی پارٹی سے دستبرداری کا باقاعدہ اعلان مولانا ابوالکلام آزاد کے اشارے پر کیا گیا تھا، جبکہ مولانا آزاد کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ وہ عظیم قائد نہیں عظیم اسلامی اسکالر تھے، اس معاملے کی گہرائی اور گیرائی مولانا کی دسترس سے باہر تو نہیں تھی ہاں یہ چیز ان کے اصل میدان سے غیر متعلق ضرور تھی، مشہور صحافی شورش کاشمیری مولانا آزاد کے بارے میں لکھتا ہے کہ ”مولانا نے میدانِ سیاست کا انتخاب نہیں کیا تھا بلکہ میدان سیاست نے مولانا آزاد کا انتخاب کیا تھا“

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے