Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو کی ادبی تحریکوں میں ترقی پسند تحریک، مقصد، تعریف، ترقی پسند افسانہ، ترقی پسند شاعری، ترقی پسند تنقید

ترقی پسند تحریک سے کیا مراد ہے | ترقی پسند تحریک کا مقصد اور تعریف

مقصد :
اردو کی ادبی تحریکوں میں ترقی پسند تحریک سب سے طاقتور،‌منظم اور دیر پا اثرات کی حامل تحریک تھی۔ اس نے جہاں سیاست، سماج اور تحریک آزادی پر اپنے اثرات قائم کئے وہیں اردو زبان و ادب پر بھی اس کے اثرات بڑے پیمانے پر مرتب ہوۓ۔ چونکہ اس تحریک سے اردو کے ادیب، شاعر اور قلم کار حضرات بڑی تعداد میں وابستہ تھے اس لئے اس نے اردو کی کئی اصناف مثلاً افسانہ، ناول، شاعری، تنقید وغیرہ میں لسانی اور فکری دونوں سطحوں پر تبدیلیاں پیدا کیں اور ادب کے دھارے کو ایک واضح سمت عطا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس اکائی کا مقصد طلبہ کو ترقی پسند تحریک کے ادبی پہلو اور ادبی خدمات سے روشناس کرانا ہے۔

ترقی پسند تحریک کی تعریف، ترقی پسند تحریک تحریک کیا ہے

تعارف :
ترقی پسند تحریک کا سیاسی پہلو زیادہ فعال تھا اور اس تحریک کا بیشتر ہنگامہ اس کی سیاست پسندی کا ہی زائیدہ ہے۔ تاہم اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ ترقی پسند تحر یک بیسویں صدی کی ایک منظم فعال اور موثر تحریک تھی اور اس کے سیلاب میں اچھے اچھے لوگ تنکوں کی طرح بہہ گئے۔

ترقی پسند تحریک بقول ڈاکٹر سید عبداللہ

بقول ڈاکٹر سید عبداللہ :
یہ تحریک سرسید کے بعد اردو ادب کا سب سے پر جوش اور پرزور تخلیقی مظاہرہ تھا۔ اردو ادب کی تین اصناف یعنی افسانہ نگاری، شاعری اور تنقید کو نہ صرف اس تحریک، نے متاثر کیا بلکہ ادب کی ہیئت اجتماعیہ کو انسانی شعور سے رہنمائی حاصل کر نے،سائنسی انداز میں تجربہ کر نے اور ان دونوں کے امتزاج سے زندگی کی بصیرتوں کو نئے مفاہیم نکھارنے کی قوت عطا کی۔اس تحریک نے منطقی استدلال اور حقیقت پسندانہ تجزیے کو فروغ دیا۔ اور معاشی حقائق کو تسلیم کر کے استحصالی قوتوں کی نشان دہی کی۔ اس تحریک کے مقاصد میں عوام کی بہبودگی اور ایک خوشحال معاشرے کی تعمیر کو فوقیت حاصل تھی۔ چنانچہ بلند انسانیت میں اعتقاد اور کچلے ہوۓ عوام کو ایک باعظمت مقام دلانے کی خواہش نے بہت سے نئے ادبا کو اس تحریک کی طرف متوجہ کیا۔ کچھ ترقی پسند روایت کے ساتھ وابستگی ہی ادب میں ترقی کا وسیلہ شمار ہونے لگی۔ اردو ادب کی سابقہ تحریکیں لالہ خودرو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی ابتدا اور فروغ بیشتر اتفاقات اور معدودے چند افراد کا مرہون منت ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک ہمہ جہت اور جامع تحریک تھی۔ اس کے پس پشت ایک واضح نصب العین اور‌منصوبہ بندی موجود تھی۔ چنانچہ اس نے نہ صرف ادب کے مباحث پیدا کئے بلکہ زندگی پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی۔ اس کا استخراج بھی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۶ء تک ترقی پسند تحریک بکھری ہوئی حالت میں نظر آتی ہے۔ انگارے کی اشاعت نے عوام کو جد ید یت کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۰ء تک اس تحریک نے اپنے نظریات کا بیج بکھیرا اور رفیقوں اور ہمنواؤں کی خاصی بڑی جماعت کو دارۂ اثر میں لے لیا۔ اس عرصے میں تحریک کے دو معاونین جواس کے مقاصد کے ساتھ زیادہ دور تک نہ چل سکے تحریک سے الگ ہو گئے اور تحریک کی قیادت انقلابی نو جوانوں نے سنبھال لی۔ ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۶ء تک کا دور تحریک کا عروجی دور ہے۔ اس زمانے میں نہ صرف تحریک کا حلقہ اثر وسیع ہوا بلکہ اس نے فتوحات بھی حاصل کیں اور تحریک کے نصب العین کو روایت کا درجہ دے کر بہت سے ادبا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس دور میں انتہا پسندی کے رجحانات کو بھی تحریک میں داخلے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ تطہیر احتساب اور سزا کی روش پیدا ہوئی۔ آزادی کے بعد اس تحریک نے عسکری حیثیت اختیار کر لی اور فیصلہ کن فتح حاصل کرنے کے لئے ایک بری۔ قوت سے تصادم کا حوصلہ بھی پیدا کیا۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اُردو ادب

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو ادب تخلیق ہوا اس پر ترقی پسند نظریے کی چھاپ گہری لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس ادب میں پراپگینڈا، تشبیہ اور تبلیغ کا عنصر وافر مقدار میں موجود ہے۔ تحریک کا مقصد بے حد نمایاں نظر آتا ہے۔ تاہم جب زندگی کا مشاہد ہ ادیب کے تجربے کا جزو بن جا تا ہے تو ایسے ادب پارے بھی تخلیق ہوتے ہیں جن میں جمالیاتی شان موجود ہوتی ہے اور جنہیں تنقید کے سخت پیمانوں پر پر کھنے کے باوجود جاوداں قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترقی پسند تحریک کے بعض ادبا نے جو ادب پیش کیا، اس میں زندگی کی تصویر ہی نہیں بلکہ اس کی رواں تنقید بھی موجود ہے اور اس نے مستقبل کو متاثر بھی کیاہے۔

ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند افسانہ | ترقی پسند افسانے کی روایت

ترقی پسند افسانے کی روایت کا تعلق در حقیقت پریم چند کی حقیقت نگاری سے وابستہ ہے۔ پریم چند نے اردو افسانے کو داستانی ماحول سے الگ کر کے افسانے کا رشتہ زندگی کے ساتھ قائم کر دیا ۔ چنانچہ پریم چند کے افسانوں میں ہندوستانی معاشرہ اپنے حقیقی روپ میں نظر آتا ہے اور انہوں نے انسانی عظمت اور محنت کو بلند مقام عطا کرنے کی سعی کی ہے۔ تاہم پریم چند کے ہاں کسی خاص نظریے کی بازگشت نظر نہیں آتی اور مقصد زیر سطح رہتا ہے۔ ان کا افسانہ’’ کفن‘‘ اس کی نمائندہ مثال ہے چنانچہ معنوی طور پر پریم چند کواولین ترقی پسند افسانہ نگار تسلیم کرنا درست ہے۔

ترقی پسند تحریک اور کرشن چندر

کرشن چندر طبعاً رومانی فنکار تھے اور بقول انتظار حسین بیشتر مقامات پر وہ زندگی سے گریزاں بھی نظر آتے ہیں۔ تاہم ان کی معروجیت گہرے سماجی شعور کی آئینہ دار ہے اور اس کا فن عمرانی حقیقت کا عکاس ہے۔ انسانی زندگی کے بنیادی سوال کرشن چندر کے افسانوں کی بنت میں شامل ہیں اور وہ اپنے عہد کی نمائندہ حقیقت کو اسلوب کی فطری رعنائی میں پیش کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ کالو بھنگی۔ ان داتا۔ گرہن، ایک شام۔ بالکونی۔ برہم پترا اور پیاسا وغیرہ چند ایسے افسانے ہیں جن میں انسان کی ازلی اور ابدی محرومیوں کے گرد واقعات کا تانا بانا مرتب کیا گیا ہے اور سانس لیتی ہوئی زندگی کو ارتقا کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کرشن چندر چونکہ ترقی پسند تحریک کے افسانہ نگار اور فنکار تھے اس لئے اکثر اوقات اس کے فن پر نظر یہ غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔’’ تین غنڈے‘‘۔ پشاور ایکسپریس۔ امن کی پانچ انگلیاں اور چیری کے پھول‘‘ وغیرہ افسانوں میں وہ ایک جانبدار ادیب کے روپ میں سامنے آئے اور وہ صداقت کو منوانے کے بجاۓ ترقی پسند نظریے کا جواز تلاش کرنے میں سرگردان نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے افسانوں میں جذبے کی گرفت کمزور ہے اور وہ کرشن چندر جو بقول احتشام حسین جذ باتی وفور کا افسانہ نگار ہےکہیں نظر نہیں آتا۔

ترقی پسند تحریک اوراحمد علی کو اولین شہرت’’ انگارے‘‘

احمد علی کو اولین شہرت’’ انگارے‘‘ نے عطا کی اور ابھی’’انگارے‘‘ کی آگ سر نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے افسانون کا ایک نیا مجموعہ شعلے پیش کر دیا۔ احمد علی نے ان افسانوں میں مٹتی ہوئی تہزیب پر مردانگی و بے باکی سے طنز کیا اور اس قلعے کو پاش پاش کر نے کی کوشش کی۔انگارے نے ڈاکٹر رشید جہاں کو بھی بطور افسانہ نگار متعارف کرایا۔ تاہم افسانہ ان کی زندگی کا مقصد نظر نہیں آتا بلکہ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی ہر تصنیف لطف کا مرثیہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘

ترقی پسند تحریک میں کرشن چندر کے افسانوں کا موضوع

کرشن چندر کے افسانوں میں جذ بہ مائل بہ افق نظر آ تا ہے۔اس کے برعکس را جندر سنگھ بیدی جذبے کی پرواز کو نمایاں نہیں ہونے دیتے اور وہ زمین کے ساتھ لپٹ کر آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی نے انسانی دکھوں، پریشانیوں اور محرومیوں کو ہی موضوع بنایا ہے۔ لیکن ان تمام افسانے میں مستقیم انداز میں وارد ہونے کے بجاۓ اس کی روح میں سماۓ ہوۓ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ گرم کوٹ۔ گرہن، دوسرا کنار ولا جونتی ببل اور متھن میں واضح مقصدیت موجود ہے اور بیدی نے بنیادی اہمیت اپنے تجربے کو دی ہے اور اس کی گہرائی سے صداقت اور معنویت خود بخود افسانے کا حصہ بن گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بیدی کے افسانے کی جڑ یں ہندوستان کی اساطیری روایت میں گہری اتری ہوئی ہیں۔ اور وہ اپنے داخل کی پراسرار آواز پر یوں کان دھرتے ہیں کہ اس کا ماضی فن پارے کی روح میں شامل ہو جا تا ہے۔ یوں تو بیدی کا افسانہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ لیکن ترقی پسندی کے واضح مقاصد کی تبلیغ نہیں کرتا۔

ترقی پسند تحریک کے افسانہ نگار خواجہ احمد عباس

خواجہ احمد عباس ایک ایسا افسانہ نگار ہیں جو زندگی کی تعبیر صرف ترقی پسند نظریات کی روشنی میں کرتےہیں۔ ان کے افسانون میں سماجی مسائل اور الجھنوں کو اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ ہر تازہ واقعے پر افسانہ لکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اس کے مشاہدے اور تخلیق میں ذرا سا وقفہ بھی نظر نہیں آتا۔ خواجہ احمد عباس ترقی پسند تحریک کے ایسے رپورٹر ہیں جس پر افسانہ نگار کا گمان کیا جا تا ہے۔ اس کے کردار حقیقی ہونے کے باوجود غیر فطری نظر آتے ہیں۔ اور اکثر اوقات تو یہ احساس ہوتا ہے کہ خواجہ احمد عباس افسانے کے واقعات کو بھی نظریاتی فوقیت ثابت کرنے کے لئے ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ایک لڑکی۔سردار جی۔ انتقام شکر اللہ کا چڑھاؤ ا تار وغیرہ افسانے تیزی سے معینہ سمت کی طرف بڑھتے ہیں اور وعمل پیدا کئے بغیر ایک مخصوص منزل مراد پرختم ہو جاتے ہیں۔

ترقی پسند تحریک عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری

عصمت چغتائی کی شہرت میں عظمت کم اور حیرت زیاد تھی جنس نگاری کی آڑ میں انہوں نے معاشرتی اقدار کو توڑنے کی کوشش کی اور ترقی پسند تحریک کی نامور افسانہ نگار شمار ہوئیں۔ عصمت بنیادی طور پرحقیقت نگار ہیں لیکن ان کے ہاں ٹھہراؤ اور تو ازن کی کمی ہے۔ عورت ہونے کے ناطے انہیں جنس لطیف کی جذباتی کیفیت بیان کرنے،نسبتا گرم جملے لکھنے اور مرد کے جنسی میلانات کو متحرک کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ اور اسی عادت نے ان کے ہاں فحش لزت پیدا کی ہے۔ ان کے ہاں قدروں کو توڑنے کا رجحان تو موجود ہے لیکن انقلاب کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اِسلئے عملی زندگی میں وہ کسی نئے نظام کی تخلیق میں شامل نہیں ہوتیں۔

ترقی پسند تحریک اور افسانہ نگاری اوپندر ناتھ اشک کے افسانوں میں زندگی

اوپندر ناتھ اشک کے افسانوں میں زندگی کا ارضی پہلو زیادہ نمایان ہے۔ انہوں نے نچلے متوسط طبقے کی معاشی، سماجی اور جنسی محرومیوں کی سچی کہانیاں لکھی ہیں۔ اور خارجی تشنگی کو داخلی حقیقت سے سیراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اشک کے اس قسم کے افسانوں میں نسور، ابال، کونپل اور چٹان کو اہمیت حاصل ہے۔ اشک کے یہاں ترقی پسندی روایتیں نہیں چنانچہ انہوں نے قدروں کو توڑنے کے بجاۓ ان کی صحت مند تبدیلی کی طرف متوجہ کیا ہے۔اشک کے افسانے قفس، ڈاچی اور چین کی ماں اس قسم کے رحجانات کی عمدہ مثالیں ہیں۔

ترقی پسند تحریک میں حیات اللہ انصاری کے افسانوں کا اساسی موضوع

حیات اللہ انصاری کے افسانوں کا اساسی موضوع ہندوستان کی سماجی پستی اور معاشی بحالی ہے۔ ان کے واقعات حقیقی اور کردار فطری نظر آتے ہیں اور ان دونوں کا امتزاج زندگی کو واقفیت کا رنگ دے دیتا ہے۔ آخری کوشش اور شکر گزار آنکھیں وغیرہ افسانے انسانی دکھوں اور پریشانیوں کی عکاسی حقیقت نگاری سے کرتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ حیات اللہ انصاری کا ہموار بیانیہ انسانی بصیرت کو ابھارنے کی سعی کوتا ہ ہے اور جذبات کو مشتعل کرنے کے بجاۓ توازن اور اعتدال کی راہ دکھا تا ہے۔

ترقی پسند تحریک : ندیم قاسمی پر سماجی حقیقت نگاری کا اثر

احمد ندیم قاسمی پر سماجی حقیقت نگاری کا اثر کم اور رومانیت کا اثر زیادہ ہے۔ان کے ابتدائی افسانے بیکارنو جوانوں کے رومانی خوابوں کے عکاس ہیں۔ ندیم کے افسانوں کا دوسرا دور اس جد و جہد کو پیش کرتا ہے جب اس بیکار نوجوان کو ملازمت تو میسر آجاتی ہے لیکن زندگی کے خواب ادھورے رہتے ہیں۔ امیر اور غریب کی آوا زوں کو ابھارنے کے لئے ندیم نے دیہات کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ تاہم دیہات شہر کی طرف للچائی ہوئی نظر سے دیکھتا ہے اور مایوسی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ندیم کے افسانوں میں سماجی کمترین کا جذبہ اور نامساعد حالات میں سمجھوتہ کر لینے کا انداز نمایاں ہے۔ اسی قسم کے افسانوں میں طلوع و غروب۔ الحمد اللہ مولوی ابل کنجری اور رئیس خانہ وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔ اس رجحان نے ان کے ہاں وہ کشمکش پیدانہیں ہونے دی جو حقیقی زندگی کا خاصہ ہے۔ یہ نکہ اس حقیقت سے بھی واضح ہے کہ ترقی پسند تحریک کا انقلابی منشور ان کی معتمدی کے زمانے میں منظور ہوا لیکن جب ترقی پسند تحریک احتساب کی زد میں آ گئی تو اس منور کی تنسیخ کا اعلان بھی انہوں نے ہی کیا۔

ترقی پسند تحریک کے افسانہ نگار

اس لحاظ سے ندیم کا اپنا کردار ان کے افسانوں میں بھی پوری طرح منعکس ہے اور یہ بڑی خوبی کی بات ہے۔

آزادی کے بعد افسانہ نگاری

آزادی کے بعد جن افسانہ نگاروں کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ان میں شوکت صدیقی کو اہمیت حاصل ہے۔ شوکت صدیقی نے بالعموم ایسے کردار پیش کئے ہیں جن کی زندگی میں خیر کا تصور تو موجود ہے لیکن یہ جرم اور گناہ کے ساۓ میں پروان چڑھتا ہے۔خلیفہ جی، وانچو اور نیل کنٹھ مہاراج کا شمار ایسے ہی کرداروں میں کیا جا سکتا ہے۔ شوکت صدیقی کا افسانہ حقیقت کا بے رنگ بیانیہ ہے لیکن اس میں تاثر کی گہرائی یقینا موجود ہے اور وہ طبقاتی نفرت کو ابھار کر نچلے طبقے کو بیدار ہونے اور بالائی طبقے کو تہہ تیغ کر ڈالنے کی کھلی آزادی دیتا ہے۔

ترقی پسند تحریک نے سماجی حقیقت پسندی مقصدیت

ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے کو نہ صرف سماجی حقیقت پسندی کی طرف کیا بلکہ بڑی چابکدستی سے اس صنف اظہار کو مقصد یت کا آلہ کار بنانے کی سعی بھی کی۔ چنانچہ نئے افسانہ نگاروں نے اپنے عہد کے دکھ۔ پریشانیاں، نا رسائیاں۔ طقاقی تضاد، جہالت اور قسم پرستی وغیرہ کو براہ راست اردو افسانے کا موجوع بنایا۔ ان افسانوں میں انسانی فطرت کا مطالعہ زندگی کا مشاہدہ اوران پر مستقیم انداز میں رائے دینے کا رجحان نمایاں ہے۔ ترقی پسند تحریک سے افسانہ نگاروں کی جو نئی نسل معروف ہوئی ان میں ابراہیم جلیس،مہندر ناتھ، پرکاش پنڈت، پریم ناتھ پردیسی، ہنسراج رہبر، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، رضیہ سجاد ظہیر، عابد سہیل، اے حمید اور آغا سہیل وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی کروٹوں کو مرکز نگاہ بنایا۔ چناچہ زندگی کے گھناؤنے پہلو تو نمایاں ہو گئے لیکن افسانہ نگار کا اپنے لاشعور سے رشتہ کمزور پڑ گیا اور وہ موجود زندگی کا نوحہ خوان بن کر رہ گیا۔ حقیقت سپاٹ اور بے رنگ ہوگئی اور افسانہ اپنی فطری لطافت سے محروم ہوکر ایک ایسی شعوری کاوش نظر آنے لگا جس کے اجزا تو میکانکی انداز میں جڑے ہوئے تھے لیکن جس میں داخلی روح نا پید تھی۔

ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند افسانہ نگار پریم چند کی حقیقت نگاری

ترقی پسند افسانہ معنوی طور پر پریم چند کی حقیقت نگاری کی توسیع تھا۔ بقول عزیز احمد’’اگر پریم چند کا افسانہ مشعل راہ نہ ہوتا تو بہت سے نوجوان جو آج کامیاب اور مشہور ہیں، اندھیروں میں بھٹکتے پھرتے ہوتے اور تقلیدی اسالیب کی مقبولیت اور بھی بڑھ گئی ہوتی۔‘‘

ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند افسانے کا دور عروج

اہم بات یہ ہے کہ جن افسانہ نگاروں نے زندگی کو غیر جانبداری سے دیکھا اور نظریاتی انتہا پسندی کا شکار ہوۓ بغیر اسے تخلیقی رعنائی سے موضوع بنایا، ان کے افسانوں میں حقیقت اور تخیل کا امتزاج عمل میں آیا اور انہوں نے زندہ رہنے والے افسانے لکھے۔ ترقی پسد افسانے کا دور عروج انھی افسانہ نگاروں سے عبارت ہے اور ان کی عظمت سے انکار ممکن نہیں۔

ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری | ترقی پسند تحریک کے شعراء

ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری

ترقی پسند شاعری : معنوی اعتبار سے اردو میں ترقی پسند شاعری کی اولین روایت کو علی گڑھ اور انجمن پنجاب کی تحریکوں نے فروغ دیا تھا۔ محد حسین آزاد نے اسے انکشاف، فطرت کے لئے اور حالی نے مقاصد ملی کے حصول کے لئے استعمال کیا۔شبلی نعمانی، چکبست، اکبر الہ آبادی اور ظفر علی خاں کی شاعری میں مقصدیت کی ایک مخصوص اور بالائی سطح پر دوڑتی نظر آتی ہے۔ اقبال نے اخلاقی اور تہذیبی نام کو شکستہ کئے بغیر شاعری کا رخ مسائل حیات کی طرف موڑ دیا۔ چنانچہ اقبال کی ترقی پسندی تخریب کے بجائے تعمیری مقاصد پر مبنی ہے اور یہ اپنی قوت مسلمانوں کے روشن ماضی سے حاصل کرتی ہے۔

ترقی پسند تحریک اور اردو نظم | جوش ملیح آبادی کی ترقی پسندی

جوش ملیح آبادی کی ترقی پسندی ان کے لا ابالی مزاج کا حصہ ہے۔ حیدرآباد کی ملازمت سے برطرفی کے بعد ان کے ہاں احتجاج کا زاویہ اور ردعمل کی قوت پیدا ہوئی اور ان کا روۓ سخن انگریزی حکومت کی طرف ہو گیا۔ جوش کی چند مشہور نظمیں’’غلاموں کی بغاوت‘‘۔ ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام‘‘ ’نظام نو‘اور’ انسانیت کا کورس‘ وغیرہ ہیں۔ ان نظموں میں رجز ک ا انداز اور خطابت کا لہجہ نمایاں ہے۔ بلاشبہ جوش کا تصورِ انقلاب ہندوستان کی غلامی کے رول میں پروان چڑھا تھا تاہم ان کے ہاں انقلاب کا واضح تصور موجود نہیں۔ وہ فر د کو موجودہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن اس بغاوت کی جہت متعین نہیں کرتے۔ چنانچہ قاری ان کے سیل رجز میں شامل ہونے کو ہی قومی خدمت تصور کرنے لگتا ہے۔

فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے دوسرے اہم شاعر ہیں

فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے دوسرے اہم شاعر ہیں اور ان کے ہاں ترقی پسند تجربے کا اور اک واضح انداز میں موجود ہے۔انہوں نے عشق سے انقلاب کی طرف قدم بڑھایا اور خوبانِ جمال سے علیحدگی اختیار کر کے کشمکش اضطراب میں مبتلا ہوۓ۔ چنانچہ فیض کے بارے میں دو قسم کی آرا کا اظہار بر ملا ہوا۔ پہلا یہ کہ فیض کسی نظریے کا شاعر نہیں صرف احساسات کا شاعر ہے اور دوسرا یہ کہ ’’فیض کا ہر شعر بلندیوں کو چھو رہا ہے جس کی آج ترقی پسند ادب کو ضرورت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ فیض کی شاعری میں فکر ور نظریہ دونوں موجود ہیں۔ عاشقی فیض کی عبادت ہے اور ترقی پسندی فیض کی عقیدت۔ جب فرض غالب آ جا تا ہے تو ان دونوں میں حد ِفاصل قائم ہو جاتی ہے لیکن جب وہ عشق کی عبادت کی طرف راغب ہوتے ہیں تو یہ حد ِفاصل مٹ جاتی ہے فیض کی شاعری میں عبادت کے ان احساسات کا ورد مختلف ادوار میں متعدد مرتبہ ہوا ہے۔

ترقی پسند شاعری میں فیض کی کامیابی

ترقی پسند شاعری میں فیض کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے نظریے کی ترسیل کو مستقیم اور غیر مستقیم انداز میں پیش کر نے کے تجربے کئے۔ چنانچہ ان کی بیشتر نظموں میں حقیقت نگاری علامتی روپ میں ڈھل گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی شاعری کے گرد ایک دائرۂ نور گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ فیض نے بہت سے ہنگامی موضوعات پر بھی نظمیں کہی ہیں اور جب موضوع ان کے داخل سے ہم آہنگ ہو جا تا ہے تو کائنات کا غم ایک مثبت کردار کی طرح پوری نظم میں مرکزی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور قاری اس ہنگامے کی معنویت سے گہرا تاثر قبول کرتا ہے۔

فیض کی منفرد پہچان یہ ہے کہ انہوں نے لفظ کے گرد نیا حساسی دائرہ مرتب کیا اور اسے سیاست آشنا بنا دیا۔ ترقی پسند شعرا کے ہاں سرخ سویرا، حریری پر چم کاغذی ملبوس اور گلنار ہاتھ وغیرہ اس کثرت سے استعمال ہوۓ ہیں کہ ان کی شعریت ہی زائل ہوگئی ہے۔ فیض نے نہ صرف نئے استعارے تخلیق کئے بلکہ قدیم شعرا کے مستعمل الفاظ کو بھی نئی تابندگی عطا کی اور ایسی تراکیب وضع کیں جو فیض کی شاعری لا منفرد لہجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوش نے ترقی پسند کے دور میں انقلاب کی جو صدا لگائی تھی اس کی جہت فیض نے متعین کی اور ترقی پسند شاعری پر اتنے اثرات مرتب کئے کہ بالآخر وہی ’’گلشن کی طرز فغاں‘‘ بن گئی اور اب یہ کہنا درست ہے کہ ترقی پسند تحریک کی نظریاتی شاعری میں اگر کسی ایک شاعر میں زندہ رہنے کی قوت موجود ہے تو وہ فیض احمد فیض اور ان نظموں کو دوام ابد حاصل ہوگا جن میں فن اور نظریے کا کیمیائی امتزاج عمل میں آیا ہے۔

علی سردار جعفری نے ترقی پسند تحریک کا پیغام طالب علمی کے زمانے میں سنا

علی سردار جعفری نے ترقی پسند تحریک کا پیغام طالب علمی کے زمانے میں سنا اور پھر اس کی شعوری سطح پر یوں قبول کیا کہ علی سردار جعفری کی پہچان ترقی پسند تحریک کے وسیلے سے ہی ہوتی ہے۔ سردار جعفری کو مارکسی فلسفے نے نیا شعور عطا کیا تھا اور انہوں نے اپنے شعری عمل کو بالعموم اشتراکیت کے مقاصد کے حصول کا وسیلہ بنایا جنانچہ ان کی شاعری اس مخصوص ڈگر پر چلنے لگی جسے جوش نے لفظوں کی خشت بندی سے آراستہ کیا تھا۔ فرق یہ کہ جوش کے ہاں نظریاتی فکر کچھ زیادہ روشن نہیں لیکن سردار جعفری کسی تذبذب کا شکار ہوئے بغیر نظریے کو بالر است استعمال کر تے ہیں۔ تلنگانہ،جشن بغاوت، سامراجی لڑائی، انقلاب روس، سیلاب حسین اور ملاحوں کی بغاوت جیسے موضوعات پر انہوں نے طغیان خیال کو پورے ولولے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔مثال کے طور پر یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

ترقی پسند تحریک اور علی سردار جعفری کی شاعری 
ترقی پساند تحریک علی سردار جعفری کی نزم نیگاری

علی سردار جعفری کی اس قسم کی نظموں میں لفظ اکہری صورت میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ان کے بیانیہ انداز سے جذباتی لطافت زائل ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ سردار جعفری کی شاعری اشتراکیت کا کھلا پروپگینڈا ہے اور ان مصروعوں کا سپاٹ پن اور نثری انداز کھٹکتا ہے ہے۔

مخدوم محی الدین کی شاعری او ترقی پسند تحریک

مخدوم محی الدین کی شاعری میں رومان اور انقلاب کی اواز بیک وقت سنائی دیتی ہے ان کے ناقدین نے ان کی شاعری کو خلوص کی پیداوار قرار دیا ہے اور مخدوم نے اس خلوص کو اپنی محبوب اور نظریے کے لئے یکساں طور پر برتا ہے۔ مخدوم سے عشق میں دفور اور وارفتگی ہے۔ اور عشق سے انقلاب کی طرف پیش قدمی میں بھی مخدوم کا والہانہ پن قائم رہتا ہے۔ چنانچہ مخدوم نے انقلاب کی آواز کو اپنی روح کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور کبھی کبھی زیرلبی کی لطیف کیفیت بھی پیدا کی۔

مخدوم محی الدین کی شاعری میں اور ترقی پسند تحریک

مخدوم نے ترقی پسند تحریک کی سیاسی جہت کو بھی اہمیت دی اور بہت جلد ان کی شاعری پر بغاوت کا عنصر غالب آ گیا۔ چنانچہ مخدوم کا لہجہ جارحانہ اور آواز با غیانہ ہو گئی۔

مخدوم محی الدین کی شاعری اردو ترقی پسند ادبی تحریک


ترقی پسند شاعری میں مخدوم عرفانِ انقلاب کا علمبردار
ترقی پسند شاعری میں مخدوم عرفانِ انقلاب کا علمبرداروں میں سے ہے اور اس نے ایسی شاعری پیدا کی جس میں نعرے کی گونج اور محبوب کے قدموں کی چاپ دونوں شامل تھیں۔ اس ضمن میں مخدوم فیض کی شاعری سے متاثر نظر آتا ہے۔

ترقی پسند تحریک اسرار الحق مجاز کی شاعری

اسرار الحق مجاز کی شاعری میں تین اہم مقام آئے ہیں۔ وہ اولا محبوبہ دلنواز کے حسن فسوں گر کی مدح و توصیف کرتا ہے۔ دوسرے ظالم سماج اپنے نو کیلے کانٹوں سے مجاز کو نہ صرف زخم لگا تا ہے بلکہ یہ محبوبہ اور شاعر کے درمیان دیوار بھی بن جا تا ہے اور اس مقام پر مجاز و هشت دل کا شکار ہو جا تا ہے۔ آخری مقام وہ ہے جب مجاز انقلاب کا نعرہ بلند کرتا ہے اور اپنے ساتھ عوام کو بھی مشورہ دیتا ہے کہ :

اسرار الحق مجاز کی شاعری اور ترقی پسند تحریک


مجاز بنیادی طور پر رومانی شاعر ہے
مجاز بنیادی طور پر رومانی شاعر ہے۔ تاہم’’ رات اور ریل‘‘۔’’انقلاب‘‘ اور ’’ شوق گریزاں‘‘ وغیرہ میں اس نے واضح طور پر خارج کی طرف جست بھری ہے اور وہ ترقی پسند تحریک کے اہم شعرا میں شمار کیا گیا ہے۔

ترقی پسند شعرا کیفی اعظمی، جاں نثار اختر اور ساحر لدھیانوی

کیفی اعظمی، جاں نثار اختر اور ساحر لدھیانوی کا شمار ایسے ترقی پسند شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے نقطہ نظر کی فوقیت کو تسلیم کیا اور شاعری کو مستقیم انداز میں نظریاتی تبلیغ کا وسیلہ بنایا۔ ان کی شاعری میں محبت کا عمودی زاور یہ بہت جلد حقیقت کے ارضی زاویے کے ساتھ منطبق ہو جا تا ہے اور اس کی جگہ مزدور کا اور دہر کاغم بتدریج ابھرتا چلا جاتا ہے۔ ان میں سے کیفی اعظمی کے لہجے میں جلالی گھن گرج زیادہ ہے۔

جاں نشار اختر

جاں نشار اختر نے غربت اور امارت کے اتضاد کو خوبی سے ابھارنے کی کوشش کی ہے۔اس کے برعکس ساحر لدھیانوی کے لہجے میں طنز کی زہرنا کی زیادہ ہے۔


میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے

غدر کی ساعت نا پاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے

( ساحر )

ترقی پسند شاعری

ترقی پسند شاعری میں زندگی کے خارج کو موضوع بنانے اور قاری کو براہ راست مخاطب کرنے کا رجحان نمایاں ہے۔ اس تحریک نے زندگی کی جبریت کو براہ راست مخاطب کرنے کا رجحان نمایاں ہے۔ اس تحریک نے زندگی کی حیز بیت کو طنز کا نشانہ بنایا اور شاعر کواس کے خلاف اونچی آواز میں احتجاج کرنے کی دعوت دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سماجی اقدار کے خلاف ردعمل کے جذ بہ پیدا ہوا اور معنوی طور پر اشترا کی حقیقت نگاری کو ادب کی اصلی نہج قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ ترقی پسند شاعری نے جذباتی اظہار کے لئے جو تین ذرائع استعمال کئے ان کی تفسیل حسب ذیل ہے :

اول۔ طبقاتی کشمکش کو متحرک کرنے کے لے مزدور اور محنت کش کو موضوع بنایا گیا۔
دوم۔ نظام کہنہ کی شکست وریخت کے لئے انقلاب کو وسیلہ اور نئی سحر کونشان منزل قرار دیا گیا۔

سوم۔ اولا شاعری کا مرکز تو بجہ گوشت پوست کی عورت بنی لیکن انقلاب کے دور عروج میں اس عورت کی جگہ عروس وطن نے لے لی۔

ترقی پسند نظریے

ترقی پسند نظریے کے مطابق ادب اور سماج کا ہیرو ایک ہی ہے۔ چنانچہ ترقی پسند تحریک نے مزدور کو سماج کا ہیرو بنا کر پیش کیا اور اس کی عظمت اور انسانیت کے گیت والہانہ انداز میں گاۓ۔ ترقی پسند شعرا نے اپنی پہچان کے لئے اپنے آپ کو بلا واسطہ طور پر مزدور طبقے کے ساتھ ہی منسلک کیا۔ چنانچہ جب ترقی پسند شعرا ہیرو کی عظمت کے ترانے لکھنے لگے تو اس میں انہیں اپنی ذات کا عکس بھی نظر آنے لگا اور ترقی پسند شاعری نہ صرف ہیرو پرستی کا شکار ہوگئی بلکہ اس میں طرفداری کا جذ بہ بھی پیدا ہو گیا۔

ترقی پسند شاعری کا بنیادی مقصد

ترقی پسند شاعری کا ایک بنیادی مقصد چونکہ نظریے کی ترسیل ہے اس لئے شاعری میں بیانیہ اسلوب اور منطقی انداز فروغ پانے لگا۔ وہ کام جو نثر آسانی سے سر انجام دے سکتی تھی۔ جب نظم کو تفویض کیا گیا تو اس کی داخلی آنچ سرد پڑ گئی اور شاعری نثر کے قریب آ گئی۔

دوسری طرف پا بند ظم کی اصناف میں سے مسدس شمس، اور مربع کی ہیئت کو زیادہ استعمال کیا گیا اور خیال کو ذہن نشین کرانے کے لئے مترادفات کے ذریعے تکرار پیدا کی گئی۔ چنانچہ اس قسم کی نظموں میں بے جا طوالت پیدا ہوئی اور الفاظ شاعری کے موضوع پر حاوی ہو گئے۔ بلاشبہ ترقی پسند شاعری نے ہیجان پیدا کر نے میں خاصی کامیابی حاصل کی۔ اس دور میں ایسی شاعری بہت کم تخلیق ہوئی جو واقعاتی تناظر اور ردعمل سے آزاد ہو۔ آج صرف ان شعرا کی نظمیں ہی زندہ ہیں جنہوں نے اپنی ذات سے رابطہ قائم کیا اور نا معلوم کے گہرے سمندر سے فن کے آبدار موتی حاصل کرنے کی سعی کی۔

ترقی پسند تنقید :

ترقی پسند تنقید نے اپنے سانچے مارکس لینن، اینگلز اور گور کی کے نظریات سے اخذ کئے اور ادب کو معاشرے کی جد و جہد میں ایک کار آمد تجربے کے طور پر استعمال کرنے کی طرح ڈالی۔ ترقی پسند تحریک نے نہ صرف مصنفین کا ایک سریع الارحلقہ قائم کیا بلکہ مصنفین کی تخلیقات کو جدلیاتی فلسفے پر پر کھنے کے لئے ناقدین کی ایک فعال جماعت بھی پیدا کی ترقی پسند ناقدین نے ادب کا تجزیہ سماجی، سیاسی اور تاریخی پس منظر میں افادی حیثیت کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوۓ کیا اور اس مقصد کے لئے تنقید کا مارکسی پیمانہ اور سائنسی انداز استعمال کیا۔ ترقی پسند ناقدین نے مارکسی فلسفے کی ان جزئیات کو واضح کرنے کی کوشش کی جن کے بارے میں ہندوستانی مصنفین کا ذہن صاف نہیں تھا اور جن کی عدم تفہیم کی بنیاد پر ترقی پسند تحریک کو قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ اس نئے اندازِ تنقید نے اردوادب کو فائدہ پہنچایا اور اد بانے نہ صرف نئے مباحث پیدا کئے بلکہ فلسفہ، تاریخ اور نفسیات وغیرہ علوم کو بھی تنقید میں آزمانے کی سعی کی۔

ترقی پسند تنقید

ترقی پسند تنقید میں اولین اہم نام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا ہے۔ ان کا مقالہ’ادب اور زندگی‘‘ ترقی پسند تحریک کا نقطہ آغاز تصور کیا جا تا ہے۔ اختر راۓ پوری کا نظریہ یہ ہے کہ’’ آرٹ کا مقصد تلاش حسن نہیں بلکہ ادب زندگی کا ایک شعبہ ہے اور انسانیت اس سے اثرانداز ہوتی ہے۔ انہوں نے تقاجا کیا کہ’’ادب ان جذبات کی ترجمانی کرے جو دنیا کوترقی کی راہ دکھائیں‘‘ اختر رائے پوری کے یہ نظریات زیادہ تر اشتراکی فلسفہ ادب سے ماخوذ ہین اور ان میں گور کی اور طالسطائی کی بازگشت موجود ہے ڈاکٹر اختر راۓ پوری نے ادب کا مقصد تو تعین کیا ہے لیکن ادب کی تخلیق کے پیچید گی پر روشنی نہیں ڈالی۔ اس لئے ان سے سو فیصد اتفاق ممکن نہیں۔ اختر راۓ پوری نے قدیم اور جدید ادب کا تجزیہ افادی نقطہ نظر سے کیا تو وہ انتہا پسندی اور شدت کا شکار بھی ہوۓ۔ اس کے باوجود تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اختر رائے پوری نے اردو تنقید کو پہلی مرتبہ مارکسی نظریات سے آگاہ کیا اور تنقید کو ایک نئی جہت سے آشنا کرنے کی سعی کی۔ چنانچہ وہ مارکسی تنقید کے اولین اہم نقاد ہیں اور بہت کم لکھنے کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت برقرار ہے۔

سجا ظہیر نے ترقی پسند تحریک کو نظریاتی اساس مہیا کی
سجا ظہیر نے ترقی پسند تحریک کو نظریاتی اساس مہیا کی اور پھر عمد ہ وکالت سے اس تحریک کی سب سے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کی کتاب’’روشنائی‘‘ ترقی پسند تحر یک کی تاریخ بھی ہے اور کسی حد تک تنقید بھی۔ ان کے نقطۂ خیال میں بنیادی اہمیت مارکسیت کو حاصل ہے۔ وہ انسانی رشتوں کے تعین میں مادی حالات اور ذرائع پیداوار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، چنانچہ خیالات، تصورات اور عقائد وغیر و سماجی عمل کانکس ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ موجودہ دور میں احیا پرستی، ریا کاری اپنے وطن سے غداری ہے۔ اور آلات ہنر زندگی کا دھارا موڑ دیتے ہیں۔سجادظہیرنے اپنے نقطہ نظر کواشد لال اور وسیع مطالعے کی روشنی میں ثابت کر نے کی کوشش کی۔ تاہم چونکہ وہ دعا پرستی کا شکار ہو گئے تھے اس لئے ان کی تنقید میں شد ید کلمیت نظر آتی ہے۔ معنوی طور پر ان کی تنقید اشترا کی نقطہ نظر کی وضاحت اور ادب میں اس کے فیصلہ کن اظہار کی مثال ہے۔ اس تنقید نے ترقی پسند تحریک کی نظریاتی اساس کو مستحکم بنانے میں خاصی مدددی۔

مجنوں گورکھ پوری کی تنقید

مجنوں گورکھ پوری کی تنقید نے رومانیت سے مارکسیت کی طرف آہستگی سے سفر کیا۔ انہوں نے وجدانی تاثر کو فیصلہ کن صورت میں پیش کرنے کے بجاۓ اپنا نقطہ نظر سماجی تناظر میں پیش کیا۔ مجنوں کا مقالہ ادب کی جدلیاتی ماہیت مارکسی فلسفے کی بنیاد سائنس کو تجزیاتی انداز میں پیش کرتا ہے۔ ان کی کتاب ’’اب اور زندگی‘‘ میں حسن اور فن کاری، ادب اور ترقی۔ادب اور مقصد وغیرہ موضوعات سے عمرانی سوالات ابھارے گئے ہیں اور مسائل کو مستقیم انداز میں حل کرنے کے بجاۓ قول محال پیدا کر دیا گیا ہے۔ مجنوں چونکہ رومانی تنقید سے مارکسی تنقید کی طرف آئے ہیں اس لئے ان کے اسلوب میں ایک تخلیقی شان موجود ہے اور وہ اس تحریک میں شائستگی اور لطافت کے نمائندہ شمار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدلعلیم نے ادب اور زندگی کی بحث میں حسن کو خیر اور صداقت کی طرح ایک قدر کا درجہ دیا۔ چنانچہ انہوں نے انسانی روح اور کائنات میں ادب کے وسیلے سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی اور ترقی پسند تنقید کی گم شدہ کڑی کو دوبارہ تلاش کر کے ناقدین کو جمالیاتی زاویے کی طرف متوجہ کرا دیا۔ تاہم ڈاکٹر عبد العلیم کا تنقیدی سرمایہ اتناکم ہے کہ بعض لوگ شایدان کے نام سے بھی واقف نہ ہوں۔

سید احتشام حسین ترقی پسند تنقید

سید احتشام حسین ترقی پسند تنقید کے سب سے موقر معتبر اور معتدل نقاد تھے انہوں نے نہ صرف مارکسی تنقید کو اساس بنایا بلکہ اسے زندگی کے طرزعمل کے طور پر بھی قبول کیا۔ احتشام حسین نے تاریخی، معاشی اور ثقافتی پس منظر میں نئے ادب کی تنقید، قدیم ادب کی پہچان اور مستقبل کے ادب کی تخلیق کے معیار وضع کئے اور تنقید میں معیاروں کی صداقت ثابت کرنے کی سعی کی۔احتا م حسین ادب کو زندگی کے عام شعور کا حصہ تسلیم کرتے تھے۔ان کے خیال میں ادب مقصد نہین ذریعہ ہے۔ اس کی تعبیر کے لئے انہوں نے حکیمانہ شعور کور ہنما بنایا اور مارکسی نظریۂ ادب کو حکیمانہ شعور کی مؤثر قوت قرار دیا۔ چنانچہ ان کی تنقید کے بیشتر زاویے شعور کی اس حکمت سے ہی پھوٹے ہیں اور انہیں مندرجہ ذیل اجزا میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اول۔ مختلف تنقیدی نظریات کی تنقید اور مارکسی نظریہ ادب کی توضیح و تشریح۔ مارکسی نظریے کے مطابق ماضی کے ادب کا تنقیدی و تجزیاتی جائزہ۔

دوم۔مارکسی نظریے کے مطابق ماضی کے ادب کا تنقید و تجزیاتی مطالعہ۔
سوم۔ معاصر ادب کی تنقید، تجزیہ اور توضیح۔

ان تینوں جہتوں کے تحت احتشام حسین نے وہ فریضہ ادا کیا جو ترقی پسند تحریک نے انہیں سونپا تھا اور جسے رو بہ عمل لاکر وہ ادب میں انقلاب اور ارتقائے زندگی کو تیز تر کر سکتے تھے۔ ادب کی اس بحث میں بلاشبہ احتشام حسین نے مابعد الطبعیات، روحانیات، جمالیات، رومانیت اور تا ثریت وغیرہ کو بھی درخور اعتنا سمجھا۔ تاہم ان کا اساسی مقصد ترقی پسند ادب کی فوقیت ثابت کرنا اور شعر و ادب کا مصرف تلاش کرنا تھا اور اس کو انہوں نے مدلل انداز میں پیش کر کے عزت و توقیر کا مقام حاصل کیا۔ ترقی پسند تنقید میں احتشام حسین نظریاتی استقلال کی سب سے مستحکم آواز تھے اور آج ترقی پسند تحریک میں جتنی روشنی نظر آتی ہے۔ اس میں سے بیشتر احتشام حسین کی تنقید سے ہی پھوٹی ہے۔ ترقی پسند تنقید میں احتشام حسین اعتدال اور توازن کی مثال ہے تو علی سردار جعفری انتہا پسندی کا زاویہ پیش کرتے ہیں۔ علی سردار جعفری کی روش جارحانہ لہجہ تیز اور انداز قدرے تلخ ہے۔ ان کی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ پر مناظرے کا رنگ غالب ہے۔

ترقی پسند تنقید کو احتشام حسین نے سنجیدگی عطا کی

ترقی پسند تنقید کو احتشام حسین نے جو سنجیدگی عطا کی تھی ظہیر کاشمیری نے اس میں چربی زاویہ شامل کر دیا۔ چنانچہ اور عمل اور ردِ عمل کا جو ہنگامہ پیدا ہوا اس میں چند ایسے ناقدین بھی سامنے آئے جنہوں نے اس برق زدہ ادبی فضا کو مائل بہ اعتدال کرنے کی سعی کی۔ اس قسم کے ناقدین میں اختر انصاری دہلوی، ڈاکٹر عبادت بریلوی،سید وقار عظیم فیض احمد فیض اور عارف عبدالمتین کو اہمیت حاصل ہے۔ ان میں سے اختر انصاری نے مقصدی ادب کا دائرہ وسیع کیا اور اسے ایک کارآمد اصطلاح’’ افادی ادب‘‘ سے تعبیر کیا۔ فیض ترقی پسند تنقید میں جمالیاتی اسلوب کے نقاد ہیں۔ بلاشبہ ان کی فکری اساس بھی جدلیاتی فلسفے پر مبنی ہے تاہم انہوں نے حسن کی محرک قوت سے انکار نہیں کیا بلکہ اسے فعال اور خلا ق تسلیم کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فیض نظریاتی برتری ثابت کرنے کے لئے حقائق کو مسخ نہیں کرتے بلکہ تنقید کو تاریخی صداقت سے منتقل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید کا داخلی مزاج خاصہ خنک ہے اور قاری کو مشتعل کرنے کے بجاۓ سوچنے پر مائل کرتی ہے۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ترقی پسند تنقید میں حقیقت نگاری کو ملحوظِ نظر رکھا

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ترقی پسند تنقید میں حقیقت نگاری کو ملحوظِ نظر رکھا اور مارکسزم کوا پنا عقیدہ بنائے بغیر اس سے ادب پارے کی تنقید اور تفسیر میں معاونت حاصل کی۔ چنانچہ انہوں نے تنقید کے دوسرے کارآمد تجربوں کے ساتھ ساتھ مارکسی نظریے کو خوبی اور افراط سے استعمال کیا اور اس سے غیر جانبدارانہ نتائج اخذ کئے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا طریق عمل سائنسی انداز منطقی اور اسلوب جمالیاتی ہے اور وہ قاری پر یورش کرنے کے بجاۓ اسے ادب پارے کی افادیت اور داخلی حسن کی طرف متوجہ کراتے ہیں۔ انہوں نے محدود موضوعات پر کام کرنے کے بجاۓ تنقید کو وسعت عطا کی اور اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے۔ اردو شاعری کے جدید رجحانات۔ ادب کا افادی پہلو۔ جدید اردو شاعری میں عریانی۔ اردو افسانہ نگاری پر ایک نظر۔ جدید شاعری کا انحطاط وغیرہ مضامین میں سیر حاصل جائزے مرتب کئے۔ بلاشبہ ترقی پسند ادب کو جو قبول عام حاصل ہوا ہے اس میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کی عملی تنقید نے ایک اہم کردار ادا کیا۔

سید وقار عظیم کی تنقید

سید وقار عظیم کی تنقید سماجی اور عمرانی تجزیے پر استوار ہوئی۔ انہوں نے مارکس نظریات کی بلا واسطہ تائید نہیں کی اور وہ ادب کی اعلی قدروں کو صداقت کی بنیادی قدروں سے الگ شمار نہیں کرتے۔ تاہم انہوں نے معنوی طور پر ادب کی مقصدیت کو قبول کیا اور ادیب کو حقیقت کے شاعرانہ اورٖ فنی ٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖ انعکاس پر مائل کیا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے جو خدمت ترقی پسند شاعری کو مقبول بنانے کے لئے سرانجام دی وہی خدمت سید وقار عظیم نے ترقی پسند افسانے کے سلسلے میں خوش اسلوبی سے کی۔ بلاشبہ وقا ر عظیم اگر افسانے تنقید کا موجوع نہ بناتے تو اس صنف کے محاسن و معائب، اصول فن اور اسلوب بیان طویل عرصے تک غیر دریافت پڑے رہتے۔

آل احمد سرور کا تنقیدی نظریہ

آل احمد سرور کا تنقیدی نظریہ یہ ہے کہ زندگی کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے سے ادب میں جان آ جاتی ہے۔ ان کے نزدیک ادب نہ تو ذہنی دیا شی ہے اور نہ اشتراکیت کا پر چار بلکہ انہوں نے ترقی پسند تحر یک کو ایک ایسی تحریک قراردیا جس نے ادب کو باغ زندگی کی ہوا کھانے کی دعوت دی۔ انہیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ ترقی پسند ادب پیش کر نے والوں کا شعور بہت گہرا نہیں تھا۔ اس میں مشرق سے زیادہ مغرب، ہندوستان سے زیادہ روس اور اردو سے زیادہ انگریزی جلوہ گر تھی۔ بالفاظ دیگر آل احمد سرور نے ترقی پسند تحریک کی داخلی کیفیت دریافت کی اورا سے غیر جانبداری سے بیان کر دیا۔ چنانچہ ان کی تنقید میں صداقت اور توازن کے علاوہ عدل کا عنصر بھی موجود ہے۔

ترقی پسند تحریک کے دور آخر کے نقادوں میں ڈاکٹر محمد حسن اور عابد حسن منٹو


ترقی پسند تحریک کے دور آخر کے نقادوں میں ڈاکٹر محمد حسن اور عابد حسن منٹو شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کی ایک طرفہ قصیدہ خوانی کرنے کے بجائے اس تحریک کے معائب کو بھی درخور اعتنا سمجھا اور ترقی پسند ادبا کی سطحیت پر کھلی تنقید کی۔ ڈاکٹر محمد حسن نے ادب کے خارجی یا داخلی اثرات کو موضوع بحث بنانے کے بجاۓ ادب کے خارجی عوامل کو موضوع بنایا اور زندگی پر ادب کے بالواسطہ اثرات کی نشاندہی کی۔ محمد حسن عظیم ادب کی تخلیق میں نقطہ نظر کی ضرورت سے انکار نہیں کرتے۔ وہ نقطہ نظر کی وسعت، گہرائی اور کشادگی کو اہمیت دیتے ہیں اور شعر وادب میں انہیں کے رنگ ونور سے کیف واثر پیدا کرنے کے آرزومند ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن کی تنقید ترقی پسندانہ نظریے کے آزادانہ استعمال کی مثال ہے۔ چنانچہ جب ترقی پسند ادب یکسانیت کا شکار ہوگیا اور اس کی میکانیکت بڑھنے لگی تو انہوں نے لکھا کہ :

ترقی پسندی ایک شاداب، نمو پذیر ادبی تحریک کے بجاۓ اعتقاد پرست اور جامد صحافتی تحریک بن کر رہ گی........ ترقی پسند ادیب اور نقاد مذاق سلیم اور توازن کھو بیٹھے اور جب نیا ز حیدر،مجروح، جیب تنویر اور وشوامتر عادل کی تنک بندیاں ان کے سامنے پیش کی گئیں تو ان میں سے کوئی بھی اس بازی گری کے خلاف احتجاج نہ کر سکا۔ عابد حسن منٹو کا موقف یہ ہے کہ زمانہ اپنا شعور خود وضع کرتا ہے اور ہر دور میں اپنے زمانے کے اعتبار سے ترقی پسند رحجانات موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک ترقی پسند تحریک اس لئے نئی ہے کہ اسے نئے مادی علوم کے ذریعے ادب، معاشرہ،ثقافت اور زندگی کے ہر شعبہ حیات کو پرکھنے کا ایسا شعور حاصل ہے جو مشینی زمانے کی پیداوار ہے۔

مجموعی اعتبار سے ترقی پسند تنقید تین ادوار میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ پہلے دور میں اختر رائے پوری نے اس کا اولین نظریہ پیش کیا اور سجاد ظہیر۔ عبدالعلیم اور احتشام حسین نے اس نظریاتی اساس کو مضبوط بنانے اور تحریک کے بارے میں ابھرنے والے مباحث میں شکوک اور غلط فہمیوں کو روفع کرنے کی کوشش کی۔ اس دور میں تنقید کا زاویہ ناتراشیدہ اور اسلوب ہو جاتی ہے۔ دوسرے دور میں علی سردار جعفری، ظہیر کاشمیری اور ممتاز حسین نے تحریک کے تنقیدی نظریات کو فروغ عام دینے کی سعی کی۔ چنانچہ ان کے بان خلوص کی فراوانی نظریاتی شدت میں ملفوف ہے اور قطعیت اور جارحیت کا عنصر نمایاں ہے تیسرے دور میں سید وقار عظیم اور عبادت بریلوی نے تحریک کے مثبت پہلو ابھارنے کے لئے نسبتا وسیع کینوس پر کام کیا اور ترقی پسند شاعری اور افسانے کے نقوش اجا گر کر دیئے۔ اس دور میں آل احمد سرور، عابد حسن منٹو اور ڈاکٹر محمد حسن نے نسبتا معتدل فضا میں تحریک کا تنقیدی جائز ہ لیا اور اس کی ناہموار میں اجاگر کر تے رہیں۔ اس دور کی تنقید زمانہ امن کی تنقید معلوم ہوتی ہے۔ تاہم اس زمانے میں چونکہ تہذیب بکھر رہی تھی۔ اس لئے اس کے اثرات صرف ترقی پسند ادبا تک محدود نہ رہے بلکہ ان کا اثر پورے ادب نے قبول کیا۔ اور نئی تحریکوں کی نمو میں معاون بھی بنا۔

ترقی پسند ناقدین کی نظر میں ادب برائے مقصد سے کیا مراد ہے

ترقی پسند تنقید کی اساسی خوبی یہ ہے کہ اس میں ادب پارے کو مارکسی نظریے کے معین اصولوں پر پرکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر وہ ادب پارہ جو زندگی کے ارتقاء میں معاون بن سکتا ہے۔ ترقی پسند کہلانے کا مستحق ہے۔ تنقید نگاری کے اس انداز نے ادب میں صاف گوئی حقیقت بیانی اور بے رحم صداقت کو پیش کرنے کا رجحان پیدا کی۔ نقصان یہ ہوا کہ ترقی پسند نظریے کی شدت اور اس کے جامد اخلاق نے تنقید کو ایک مخصوص سانچے میں مقید کر دیا اور بیشتر ناقدین ایک ہی مصرع طرح پر گر ہیں لگانے میں مصروف ہو گئے۔ ترقی پسند تنقید نے سائنس شعور کو راہنما بنایا اور حسن کو افادیت کے ساتھ مشروط کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نقاد نے جذباتی لطافتوں کی نفی کر نی شروع کر دی چنانچہ افسانہ میں صحافت اور شاعری میں نعرہ بازی کی حمایت ہونے لگی۔ ان کمزوریوں کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف ضرری ہے کہ ترقی پسند تنقید نے ادب پارے کی تفہیم تجزیہ اور تشریح کا ایک نیا انداز پیدا کیا اور اس کی معنوی خوبیوں سے تنقید کے دورے دبستانوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔

خلاصہ

ترقی پسند تحریک مجموعی طور پر مایوسی اور قنوطیت کا ردعمل تھی جسے بیسویں صدی کے ربع سوم نے اچانک ابھار دیا تھا۔ یورپ میں اس زمانے میں فسطائی طاقتوں کو عروج حاصل ہوا تو دنیا میں انسانیت کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔ ہندوستان کی سیاسی تحریکوں نے عام لوگوں میں آزادی کا احساس بیدار کر دیا تھا۔ ادب میں حقیقت نگاری کی تحریک رومانیت پر غالب آ رہی تھی۔ انگریزی علوم کے فروغ نے سائنسی شعور کو کروٹ دے دی۔ چنانچہ جاگیرداری نظام آہستہ آہستہ رو بہ زوال ہونا شروع ہو گیا اس قسم کا ماحول ترقی پسند تحریکوں کے فروغ میں ہمیشہ معاون ہوتا ہے۔ چنانچہ جب سجاد ظہیر نے اس تحریک کا آغاز کیا تو اس تحریک کا بیج قبول کرنے کے لئے زمین ہموار ہو چکی تھی اور اسے پھلنے پھولنے میں دیر نہ لگی۔ سجاد ظہیر اگر اس تحریک کی با قاعد ہ تنظیم نہ بھی کرتے تو پریم چند کی حقیقت نگاری اور روسی نظریات کا فروغ کسی ایسی تحریک کے فروغ پر یقینا شروع ہوتا جو لکھے ہوۓ منشور کے بغیر ہی ادب کوئی ڈگر پر ڈال دیتا۔

چونکہ ترقی پسند تحریک کی قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں تھی اس لئے انہوں نے اس تحریک کو پروان چڑھانے کے کی لئے تازہ خون اور نیا ولولہ فراہم کیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہوش پر جوش غالب آ گیا اور یہ فعال تحر یک انتہا پسندی کا شکار ہوکر زوال آمادہ ہوگی۔ ترقی پسند تحریک نے عقلیت پسندی اور سائنسی شعور کو منظم طور پر بیدار کیا۔ افعالی رومانی پر غالب آنے کی کوشش کی اور ادب کو گرد و پیش کی باس اور زمین کی خوشبو لکھنے کی طرف متوجہ کرایا۔اس لحاظ سے ترقی پسند تحریک کی ایک عطا یہ بھی ہے کہ اس نے اردو ادب کو غیرملکی استعاروں، رموز و علائم اور تشبہوں سے نجات دلانے کی سعی کی، اور اد با کو اپنے ملک کی اچھائی اور مظاہر تخلیقات میں شامل کرنے کی مثال پیش کی۔ تاہم زمین سے مجبوت وابستگی اختیار کر کے اس تحریک نے آسمان کی نفی کی اور اس طرح روحانیت کے اس سر چشمے سے جو مشرقی انسان کو داخلی طور پر رفعت آشنا کرتا ہے اپنا رشتہ منقطع کر لیا۔ ترقی پسند تحر یک کی جہت مستقبل کی طرف تھی اور اس کے سامنے ایک واضح نصب العین بھی تھا۔ لیکن اس تحریک کا سفر افقی تھا اور یہ عمودی پرواز سے گریزاں رہی۔ چنانچہ اس تحریک نے فرد کو مادی اعتبار سے آسودگی کا خواب دکھا یا اور اس کے بیشتر ادبا زندگی کے عمل میں منفعت کے کاروبار کو اہمیت دینے لگے اور یوں ادیب کی روایتی بے نیازی، انکسار اور استغنا کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔

ترقی پسند تحریک بنیادی طور ادبی تحریک تھی لیکن اس کے معاونین میں بہت سے ایسے ادبا بھی شامل تھے۔ جن کے سیاسی نظریات ان کی زندگی کے پورے کل پر محیط تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے جب ایک ادبی تحریک کی قیادت سنبھالی تو ادب کو سیاست میں استعمال کرنے کی کوشش کی اور ذہنی پیش قدمی کو تیز تر کر دیا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ برصغیر میں ادب کی کسی تحریک کو سیاسی مقاصد کے لئے زیادہ کامیابی سے استعمال نہیں کیا جا سکا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آنے لگی تو بہت سے ادبا اس تحریک سے الگ ہو گئے۔ اس تحریک کی دوسری بدقسمتی تھی کہ اس نے صرف نوجوان طبقے کو ہی متاثر کیا۔ پرانے اور ثقہ ادبا میں سے چند ایک نے ابتدا میں اسے سر پرستی عطا کی لیکن جب اس تحریک کے غیراد بی مقاصد نمایاں ہونے لگے تو ان ادبا نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس دور میں رشید احمد صدیقی۔ نیاز فتح پوری۔ اختر علی تلہری۔ مولا نا صلاح الدین احمد۔ اثر لکھنوی، عبدالماجد دریابادی اور کشن پرشاد کول وغیرہ چند ایسے ادبا تھے جنہوں نے ترقی پسند تحریک اور اس کے ادب پر شدید نکتہ چینی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحریک کے ادب کو اشترا کی اور ملحدانہ سمجھا جانے لگا۔ آزادی کے بعد یہ کر دتو بیٹھ گئی۔ تاہم سیاست کی افراتفری نے ایک مرتبہ پھر اس تحریک کوا پنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر اس تحریک کا مضبوط ڈھانچہ سیاسی انداز میں ٹوٹ پھوٹ گیا۔

۱۹۷۲ء میں جب ملک میں نئی بیداری آئی تو ترقی پسند تحریک کے احیاۓ نو کی کوشش ہوئی۔ کراچی، لاہور اور پشاور میں اس تحریک کی تنظیمیں قائم کی گئیں اور قدیم ترقی پسند ادبا کی شفقت اور تعاون بھی حاصل کیا گیا۔ لیکن اب دریا کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ تحریک اپنا فعال دور ختم کر چکی تھی مزید یہ کہ ترقی پسند مصنفین کی نئی انجمن کو سجاد ظہیر حبیا مخلص، انقلابی اور ایثار یہ رہنما نصیب نہ ہو سکا۔ جن ادبا نے اپنے عہد شباب میں اس تحریک کے لئے تازہ خون دیا تھا ان میں سے بیشتر اب بڑھاپے کے برگد تلے آسودگی سے سستا رہے تھے یا کاروبار حیات میں بری طرح مصروف تھے۔ ان میں تحریک کے لئے پسینہ بہانے کی سکت بھی نہیں تھی حقیقت میں یہ وقت ترقی پسند تحریک کے انقلابی ثمرات سمیٹنے کا وقت تھا۔ چنانچہ تحریک کے قدیم رہنما اپنی سابقہ خدمات کا اعتراف کرانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ادب میں شخصیت سازی کا رجحان پیدا ہوا۔ ادیب نے انقلابی ہیرو کا درجہ اختیار کرلیا۔ کتابوں کی رونمائی، ترقی پسند شخصیتوں پر رسائل کے خاص نمبروں کی اشاعت، ادبا کے ساتھ شامیں منانے اور سالگرہ کے جشن منعقد کرنے کے رجحانات اس ہیرو پرستی کا ہی شاخسانہ ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترقی پسند تحریک اس جذ بۂ ایثار سے محروم ہوگئی جس کے زیر اثر ادیب ادب کی آبیاری کرتا ہے۔ بلاشبہ تنظیمی سطح پر انجمن ترقی پسند مصنفین زندہ ہوگئی لیکن یہ اچھی قیادت سے محرومی کی بنا پر پرانی تحریک کی محض ایک یاد تھی اور آخرکار ادب کی دنیا میں کوئی نمایاں کارنامہ سرانجام دینے سے قبل ہی تنظیم بھی مردہ ہوگئی۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے