Ticker

6/recent/ticker-posts

M Hasnain Ka Ghalat Faisla

ایم حسنین کا ’غلط فیصلہ‘


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

محمد حسنین قلمی نام ایم حسنین (پیدائش 25/ ستمبر 1957 جمشید پور جھارکھنڈ) دہلی کے جعفرآباد علاقے میں رہائش پذیر تھے وہ ایک سیاسی وسماجی کارکن اور صحافی تھے وہ ایک پارٹی ”قومی پارٹی آف انڈیا “ کے صدر بھی تھے ، ایم حسنین صاحب اپنا ایک اخبار بھی نکالتے تھے جسکا نام تھا دی میڈیا پروفائل The media profile آنجناب نے راقم الحروف کے تین مضامین اس وقت ، غالبًا 2014 میں شائع کیے تھے جب کہ نوآزمودہ قلم کاروں کو اپنی تحریریں شائع کرانے کے لیے ایڈیٹروں کی منت سماجت کرنی پڑتی تھی ، پھر انٹرنیٹ کی برکت سے مختلف قسم کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم منظر عام پر آنے کی وجہ سے اور ان تک عوام کی رسائی ہونے کی وجہ سے ایڈیٹروں کی دادا گیری ختم ہوگئی ، ایسے وقت میں ایم حسنین صاحب نے اپنے چار ورقی‌ اخبار میں ہمارے تین مضمون شائع کیے تھے اس فراخدلی کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

کل 1/ اکتوبر 2023 کو ملت ٹائم نیوز چینلز پر شمس تبریز قاسمی نے بتلایا کہ ایم حسنین صاحب اپنے بیٹے اسحاق امیر کے ساتھ 5/ ستمبر 2023 کو بھارت چھوڑ کر دبئی اور افغانستان ہوتے ہوئے غیر قانونی طورپر پاکستان پہنچ گئے اور حکومت پاکستان سے وہیں پر رہائش کی اور مرنے جینے کی بھیک مانگ رہے ہیں ، پاکستان کے میڈیا کو بھارتی مسلمانوں پر ہندوؤں کے مظالم کی داستان سنا رہے ہیں۔ یہ سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور فوراً زبان سے نکلا کہ ایم حسنین صاحب کا یہ فیصلہ غلط ہے۔ 2014 میں ایم حسنین سے ان کے آفس میں گفتگو ہورہی تھی مجھے آج بھی ان کا وہ جملہ یاد ہے جو انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کا مسلمان مولانا آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کے کہنے کے پر یہاں ٹھہرا تھا مگر ان لوگوں نے یہاں رہنے کے بعد بھارتی مسلمانوں کے لیے کوئی مستقل حل نہیں نکالا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر گفتگو ہوتی رہے گی یہ موضوع بہرحال بحث کی گنجائش رکھتا ہے۔ ایم حسنین صاحب کی گفتگو اور طرزِ زندگی میں مایوسی ضرور تھی مگر کیا وہ بھارت چھوڑنے کا فیصلہ کریں گے ؟ اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔

اہم حسنین صاحب کا یہ فیصلہ

ہمارے خیال میں اہم حسنین صاحب کا یہ فیصلہ اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ بھارت کی تقسیم کا فیصلہ غلط تھا ، ایم حسنین صاحب کا یہ فیصلہ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ بزدلانہ بھی ہے اور بے حسی کا بھی ، وہ پاکستان میں ہندوؤں کے حملے سے بچ سکتے ہیں مگر کیا پاکستان میں جمعہ کی نمازوں میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں سے بچ سکتے ہیں ؟ ایم حسنین صاحب کے اس فیصلے سے بھارتی مسلمانوں کو کیا ملا ؟ کچھ نہیں ، سوائے اس بات کے کہ ان کے اوپر شک کے دائرے مزید وسیع ہو گئے ، بھارت میں رہ کر حق کی اواز اٹھانا اور حق کی اواز اٹھاتے ہوئے مر جانا یہ اس سے بہتر تھا کہ ایم حسنین صاحب پاکستان میں اپنے 30 کروڑ بھارتی مسلمانوں کو بھول کر — جن سے انکا مذہبی رشتہ بھی ہے اور اخوت کا رشتہ بھی ہے — اور اپنے ضمیر پر بے حسی کا پتھر رکھ کر زندگی گزاریں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم کے وقت جامع مسجد دہلی سے جو مشہور تقریر کی اس میں کہا تھاکہ

” یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدّس نام پر اختیار کی ہے ، اُس پر غور کرو۔ تمہیں محسوس ہو گا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دِلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟“

ایم حسنین نے ہجرت نہیں کی بلکہ فرار اختیار کیا ہے

حقیقت یہ ہے کہ ایم حسنین نے ہجرت نہیں کی بلکہ فرار اختیار کیا ہے انہوں نے فرار اختیار کیا ہے اپنی ذمہ داری سے انہوں نے فرار اختیار کیا ہے اپنے مظلوم بھائیوں ( خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ہوں ) کو سہارا دینے سے ، انہوں نے فرار اختیار کیا ہے بھارت کے اندر اپنے ابا و اجداد کی عظیم تاریخی ملکیت سنبھالنے کی ذمے داری سے۔ آخر ان مسلمانوں کا کیا ہوگا جو بھارت کے دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں میں ہندوؤں کے بیچ میں رہتے ہیں ؟ ان کو کون سہارا دے گا ؟ ان کی آواز کون اٹھائے گا ؟ ان کے لیے کون بولے گا ؟ ہم کس کے سہارے ان کو چھوڑ کر پاکستان چلے جاتے ہیں ؟ فرار کی راہ تقسیم کے وقت بھی غلط تھی اور آج بھی غلط ہے اور مستقبل میں بھی غلط رہے گی ، اللہ کے نبی صلّی اللہ علیہِ وسلم نے صاف منع کردیا لا ھجرۃ بعد الفتح یعنی فتح مکہ کے بعد کوئی ھجرت نہیں ، اب جو صاحب ایمان جہاں پر ہے وہیں رہتے ہوئے حالات کو بدلنے کے لیے جما رہے ڈٹا رہے۔

ایم حسنین صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ تقسیم کی جو مخالفت ہمارے محترم علماء کرام کی طرف سے کی گئی تھی وہ بہت سوچ سمجھ کر کی گئی تھی اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ تقسیم کا کوئی ایسا فارمولا ممکن نہیں ہے کہ جس سے ہندو ایک طرف اور مسلمان ایک طرف ہو جائیں ؟ اور پھر یہاں کے چپے چپے پر مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کے نشانات ہیں ان سے ہم کیسے دستبردار ہوسکتے ہیں ؟ یہاں ہمارے تاریخی ادارے ہیں ، تاریخی مساجد ہیں ، ہماری عظمت رفتہ کے حسی نشانات Physical Signs ہیں ، چودہ سوسال سے ہماری عظیم شخصیات یہاں کی زمین میں دفن ہیں اس پورے تاریخی سیاسی مذہبی تہذیبی معاشرتی ورثے کو چند ہندو غنڈوں کی وجہ سے کیسے چھوڑدیں ؟ مولانا ابوالکلام آزاد نے جامع مسجد کی اپنی اسی تاریخی تقریر میں کہا تھاکہ

”میں کہتا ہوں جو اُجلے نقش و نگار تمہیں اِس ہندوستان میں ماضی کی یاد گار کے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمہارا ہی قافلہ لایا تھا۔ اُنہیں بھُلاؤ نہیں۔ اُنہیں چھوڑ و نہیں۔ اُن کے وارِث بن کر رہو اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لئے تیار نہیں تو پھر تمہیں کوئی طاقت نہیں بھگا سکتی “۔ یہاں ہندوؤں کے بیچ میں مسلمان اور مسلمانوں کے بیچ میں ہندو رہتے ہیں ، تقسیم کی صورت میں دونوں طرف کی اقلیتیں زبردست نقصان اٹھائیں گی اس لیے محترم علماء کرام کی طرف سے تقسیم کی سخت مخالفت کی گئی اور اج وہ اندیشے حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے ہیں ، جو بزدلی اور بےحسی مسٹر محمد علی جناح نے کی تھی وہی بزدلی اور بےحسی اہم حسنین نے کی ہے اور ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ مظالم ، نفرت قتل وغارت گری لنچنگ اور تعصب سے انکار نہیں کیا جاسکتا بھارت کی موجودہ صورت حال کا انکار مولانا وحیدالدین خان مرحوم جیسا ”مرغے کی ایک ٹانگ“ والا مفکر ہی کرسکتا ہے ، مگر اچھی طرح جان لینا چاہیئے جس طرح موت سے فرار موت سے بچاؤ نہیں ، بعینہٖ اسی طرح مظالم سے فرار مظالم کا علاج نہیں۔
2/ اکتوبر 2023

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے