Ticker

6/recent/ticker-posts

امام الہند مولانا آزاد ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار

امام الہند مولانا آزاد ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار


از قلم : مجاہد عالم ندوی
صدر مدرس : مدرسہ مریم لتعلیم البنات تین کھمبا بیلا ارریہ بہار
رابطہ نمبر : 8429816993


مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں وہ اگر مجاہد آزادی تھے تو ایک عالم دین بھی تھے، انہیں قرآن، فقہ علم الکلام، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی ایک عظیم خطیب زبردست صحافی، عالی مرتبہ مجتہد، عظیم دانشور، بلند پایہ مفکر، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم قومی رہنما تھے، آپ نے ملک کی جد وجہد آزادی میں بہت اہم رول ادا کیا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مولانا کی آزادی کے لیے کی جانے والی جد وجہد کے ان گنت نقوش مہاتما گاندھی جی پر دیکھے جاسکتے ہیں، آپ نے اس ملک و قوم کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گے۔

مولانا ابوالکلام آزاد 11/نومبر 1888ء کو دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، 1895ء میں آپ کلکتہ پہنچے، یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی، اللّٰہ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے فراخ دلی کے ساتھ نوازا تھا، انہوں نے تیرہ چودہ برس کی عمر میں فقہ، حدیث، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا، 1902ء تک آپ کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ مکمل ہو چکا تھا، اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم، مولوی محمد عمر، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، آپ نے دس گیارہ برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا، اور مولوی عبدالواحد کی تجویز پر آزاد تحلص پسند کیا بعد میں نثر نگاری کی طرف توجہ کی، مولانا ابوالکلام آزاد نے قرآن و حدیث و فقہ کا گہرا مطالعہ کیا، مولانا کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے مولانا ادبی، سماجی، تاریخی اور سیاسی تحریروں میں قرآن کے حوالے موجود ہیں، رانچی قیام کے زمانے میں ترجمان القرآن ترتیب دیا اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ٫ الصلٰوۃ و الزكوة ٬ اور ٫ النکاح ٬ وغیرہ تصانیف مکمل کی۔

مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی اور سیاسی میدان میں گزرا آپ نے بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے اور کئی ادبی رسالے شائع کئے، مولانا نے سب سے پہلا رسالہ ماہ نامہ ’’نیرنگِ عالم‘‘ 1899ء میں جاری کیا اس وقت مولانا کی عمر صرف گیارہ برس تھی، یہ رسالہ سات، آٹھ مہینے جاری رہا بعد میں المصباح، احسن الاخبار ہفت روزہ پیغام، الجامعہ وغیرہ رسائل میں خدمت انجام دیں۔

1909ء میں ’’لسان الصدق‘‘ ماہ نامہ رسالہ کا پہلا شمارہ کلکتہ سے شائع ہوا اس کا اول مقصد اصلاح معاشرت، دوسرا مقصد ترقی، تیسرا مقصد علمی ذوق کی اشاعت اور چوتھا مقصد تنقید یعنی اردو تصانیف کا منصفانہ جائزہ لینا، مولانا نے 31 جولائی 1906ء کو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا، اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا، ٫ الہلال ٬ مسلمانوں کی ملی غیرت، ایمانی حرارت اور مذہبی حمیت کا بڑا محاذ بن گیا ٫ الہلال ٬ میں ادبی، علمی، سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے ، سماجی و تہذیبی مسائل پر اظہار خیال ہوتا، مختصراً یہ کہ ٫ الہلال ٬ نے اردو صحافت کو نیا راستہ دکھایا۔

٫ الہلال ٬ ہندوستان کا پہلا اخبار تھا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے سیاسی و غیر سیاسی مقاصد کی تکمیل اور اپنے اعمال میں اتباع شریعت کی تلقین کے ساتھ ساتھ ادبی، علمی، سیاسی اور تاریخی مضامین بھی شائع ہوتے تھے، حکومت نے ٫ الہلال ٬ پریس کو ضبط کرلیا تو مولانا نے ٫ البلاغ ٬ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا جس میں ادب، تاریخ، مذہب اور معاشرت کے مسائل بیان کئے جاتے تھے، ٫ البلاغ ٬ کو مذہبی تبلیغ کا ذریعہ بنایا گیا، جنگ آزادی کی طویل جد وجہد میں جو شعلہ بیان مقرر پیدا ہوئے ان میں مولانا کا نام سر فہرست ہے، مولانا ایک بے باک مقرر تھے جب وہ کسی موضوع پر بات کرتے تھے تو ان کا ایک خاص پر وقار اور پر جلال انداز ظاہر ہوتا تھا۔

ڈاکٹر کیٹلر کے مطابق میں نے آج تک ایسا مقرر نہیں دیکھا جس کی زبان میں مولانا کی زبان سے زیادہ مٹھاس ہو، میں نے جب بھی ان کی تقریر سنی ہے ہر بار محسوس کیا ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر بول رہے ہیں، زبان ان کے تابع ہوتی ہے، غالباً مولانا پہلے جلیل القدر مسلم رہنما تھے جنھوں نے اپنی زور قوت کے ساتھ ہندوستان کی متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا اور اسے ملک کے عوام و خواص میں رائج و راسخ کرنے کے لیے اپنی تمام تر ذہنی، علمی اور استدلالی صلاحیتیں صرف کر دیں، اور وہ اس طرح سیاست کے میدان میں اپنی مستقل مزاجی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کر کے حب الوطنی، قومی یک جہتی کے اعلٰی سے اعلٰی مثالیں پیش کیں۔

مولانا کے کارناموں میں ٫ غبار خاطر ٬ کو ایک اہم امتیازی مقام حاصل ہے، غبار خاطر مولانا کے خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے دوسری جنگ عظیم کی نظر بندی کے دوران مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی کو لکھے، اس وقت مولانا احمد نگر کے قلعہ میں قید تھے ٫ غبار خاطر، میں جو خطوط شامل ہیں وہ خطوط نہیں بلکہ مختلف موضوع پر انشائیے ہیں، بڑی تعداد میں غبار خاطر کے خطوط نثری نظم کی تعریف پر پورے اترتے ہیں غبار خاطر مولانا کے خطوط کا پہلا مجموعہ تھا جسے اجمل خان نے مرتب کرکے 1946ء میں شائع کیا، دوسرا مجموعہ کاروان خیال ہے، جسے شاہد خاں شیروانی نے شائع کیا تھا، ان کے خطوط کا ایک اور مجموعہ برکات آزاد کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں مولانا سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا بادی، نیاز فتح پوری، خواجہ حسن نظامی وغیرہ کے نام خطوط شامل ہیں۔

مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہ تھے بلکہ ان کی شخصیت متنوع تھی، آپ نہ صرف مسلمانوں کے لیے تعمیری سوچ و فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدار جید عالم دین ہی نہ تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہد آزادی کے لیے ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے، مولانا مسلمانوں کی نئی نسل کو قدیم تاریخ، تہذیب و تمدن سے روشناس کرانے والے مؤرخ بھی تھے اور کانگریس پارٹی کے لیے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے، انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک ملک و قوم کی خدمت کر کے ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کے سچے سپوت ہیں، مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ٫٫ مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلیٰ ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے،

سیاست میں مولانا آزاد کا نظریہ خالص وطن پرستی اور ہندو مسلم اتحاد تھا انہوں نے مذہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا مولانا سیاسی میدان میں قدم رکھا تو کسی ذاتی مفاد یا نام و نمود کی خواہش کے لیے نہیں تھا بلکہ ان کا خیال تھا کہ مسلمان جنگ آزادی کے مرکزی دھارے سے ذرا بھی ہٹتے ہیں تو اس سے ملک اور قوم کو نقصان ہوگا اور ملک میں نفرت کی دیوار کھڑی ہو جائے گی، اپنی تقریر میں وہ نہایت ہی جذباتی اور انقلابی تھے مگر ان کے سیاسی نظریات جذبات کی پیداوار نہیں تھے۔

مولانا کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ٫٫ میں سیاست کا طالب علم ہوں اور میں نے سیاست کی کتابیں ہندوستان میں سب سے زیادہ پڑھی ہیں یوروپ کے دورے میں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور میں سمجھتا ہوں کہ میں سیاست کے اعلیٰ ترین علم سے واقفیت حاصل کرلی ہے لیکن جب ہندوستان پہنچ کر مولانا آزاد سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت آگے ہیں طویل جد وجہد کے بعد جب ملک کو آزادی ملی تو ملک میں عبوری حکومت قائم ہوئی ابتداً مولانا آزاد اس میں شریک نہیں تھے لیکن پنڈت نہرو کے اصرار پر حکومت میں شامل ہوئے اور وزارت تعلیم اور سائنسی تحقیقات کے قلم دان کی ذمہ داری بحسن وخوبی نبھائی بقول آزاد ٫٫ وزارت تعلیم کی ذمہ داری سنبھالتے ہی میں نے پہلا فیصلہ جو لیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلیٰ و فنی تعلیم کے حصول کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی ضرورتیں پوری کریں، میں اس دن کا منتظر ہوں جب ہندوستان میں باہر سے لوگ آ کر سائنس اور فنی تعلیم میں تربیت حاصل کریں ان مقاصد کی تکمیل کے لیے مولانا نے کئی اہم اور ٹھوس قدم اٹھائے اور انہوں نے کئی اداروں کا قیام عمل میں لایا۔

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، انڈین کونسل فار اگریکلچر اینڈ سائنٹیفک ریسرچ، انڈیا کونسل فار میڈیکل ریسرچ، انڈین کونسل فار سائنس ریسرچ وغیرہ، سنٹرل کونسل فار انڈسٹریل ریسرچ ادارے کو متحرک بناتے ہوئے انہوں نے اس میں تحریک پیدا کیا اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور کی توسیع و ترقی کی نیشنل کونسل فار ٹکنیکل ایجوکیشن کے توسط سے ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا جال بچھا دیا۔

مولانا آزاد کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے فنی تعلیم و تربیت کے لیے 1951ء میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے قیام کو عمل میں لایا، مولانا آزاد آخری دم تک ملک کی اعلیٰ اور فنی تعلیم کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے، جدید ہندوستان میں 1947ء سے 1957ء تک فنی تعلیم کی سہولتوں اور ان سے استفادہ کنندگان کا جائزہ اس بات کو ظاہر کرتا ہےکہ مولانا کے دور وزارت میں اعلیٰ اور فنی تعلیم کے ارتقاء کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے، رہتی دنیا تک ملک کے عوام اسے یاد رکھیں گے ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی نازک ترین عہد تھا اور اسی عہد کی "نازک مزاجیوں" کی وجہ سے مولانا کی مذہبی و علمی و ادبی حیثیت پس پردہ چلی گئی حالانکہ مولانا کو سولہ سترہ برس کی عمر ہی میں مولانا کہا جانا شروع ہو گیا تھا۔

جدید ہندوستان کی تعمیر میں مولانا نے اہم حصہ ادا کیا عالم اسلام خصوصاً ہندوستان کی یہ روشن ترین شمع 22 فروری 1958ء کو گل ہوگئی اور دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان انہیں سپرد لحد کیا گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے