Ticker

6/recent/ticker-posts

مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ادب اطفال کے معمار

مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ادب اطفال کے معمار


از قلم : مجاہد عالم ندوی
صدر مدرس : مدرسہ مریم لتعلیم البنات تین کھمبا بیلا ارریہ بہار
رابطہ نمبر : 8429816993


مولانا محمد اسماعیل میرٹھی اردو زبان و ادب کے بلند پایہ ادیب و شاعر تھا، معروف ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ان کا شمار مولانا خواجہ الطاف حسین حالی اور مولانا محمد حسین آزاد جیسے جدید اردو ادب کے اہم ترین ادباء و شعراء میں کیا ہے، ان کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا، ان کی ولادت 12 نومبر 1844ء کو میرٹھ کے محلہ ٫ مشائخان ٬ میں ہوئی تھی، موجودہ وقت میں وہ علاقہ ٫٫ اسماعیل نگر ٬٬ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، مولانا اسماعیل میرٹھی تقریباً 73 برس کی عمر طبعی گزار کر یکم نومبر 1917ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

مولانا محمد اسماعیل میرٹھی نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، فارسی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مرزا رحیم بیگ کے شاگردگی اختیار کیا، فارسی میں اچھی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے ٹیچرس ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور وہاں سے ٹیچر اہلیتی سرٹیفکیٹ حاصل کیا، ان کو علم ہندسہ سے خاص دلچسپی تھی، انھوں نے فزیکل سائنس اور علم ہیئت بھی پڑھا، اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے رڑکی کالج میں اوور سیئر کے کورس میں داخلہ لیا، لیکن مزاج میں ہم آہنگی نہیں ہونے کے سبب انہوں نے اس کورس کو پائے تکمیل تک نہیں پہچایا، اسے ناتمام چھوڑ کر میرٹھ واپس آ گئے، وہ اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کرسکے اور نا ہی یونیورسٹیوں سے بڑی بڑی ڈگریاں لے سکے، مگر اپنی بےپناہ محنت اور اعلیٰ ذوق و شوق کے باعث اپنے اندر بےپناہ صلاحیت و قابلیت پیدا کر لی تھی، اپنی زندگی کی ابھی سولہویں بہار ہی دیکھ رہے تھے تو محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت اختیار کر لی۔

1867ء میں ان کا تقرر سہارنپور میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے ہوا، جہاں انھوں نے تین سالوں تک بڑی دلجمعی کے ساتھ خدمات انجام دیں، بعد ازاں پھر میرٹھ اپنے پرانے دفتر منتقل ہو گئے۔

1888ء میں وہ آگرہ کے ایک اسکول میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے بحال کئے گئے، جہاں تقریباً گیارہ برسوں تک ناقابلِ فراموش تدریسی خدمات انجام دیں اور وہیں سے وہ 1899ء میں سبکدوش ہوئے، اس کے بعد مستقل میرٹھ میں مقیم ہو گئے اور تاحیات تالیفات، تصنیفات اور شعریات میں ہمہ تن مصروف و منہمک ہو گئے، ان کی نو کتابیں اردو کتب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اسماعیل میرٹھی کے معاصر ادباء، شعراء اور عوام کو تو ان کی صلاحیت، قابلیت اور ادبی و شعری خدمات کے اعتراف تھا ہی مزید برآں یہ کہ حکومت وقت تک بھی معترف تھی، چنانچہ اس نے ان کو ٫٫ خان صاحب ٬٬ کا خطاب دیا تھا۔

مولانا محمد اسمٰعیل میرٹھی کو ابتدائی دور میں شاعری سے دلچسپی نہیں تھی، قلق میرٹھی کی صحبت نے انہیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا تھا پھر اس کے بعد وہ نظموں کی طرف متوجہ ہوئے، قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ ٫ جواہر منظوم ٬ کے نام سے کیا تھا، اس ترجمے سے اسماعیل میرٹھی اتنا متأثر ہوئے کہ ان کی شاعری میں جدت و ندرت کا دریا متموج ہوگیا، یہی نہیں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالا مال ہو گیا۔

پروفیسر حامد حسین قادری نے مولانا اسماعیل میرٹھی کی خدمات کو جدید اردو نظم میں بہت اہمیت کا حامل قرار دیا ہے، اور اس حقیقت سے نقاب کشائی کی ہے کہ نظم جدید کے میر کارواں کے طور پر آزاد اور حالی کا نام لیا جاتا ہے، لیکن آزاد کی کاوشوں سے انجمن تحریک پنجاب کے تحت 9/ اپریل 1874ء کو منعقدہ تاریخ ساز مشاعرہ سے بہت پہلے میرٹھ میں قلق اور اسمٰعیل میرٹھی نظم جدید کے ارتقاء کے باب رقم کر چکے تھے، اس طرح اسمٰعیل میرٹھی کو محض بچّوں کا شاعر سمجھنا غلط ہے، ان کی تمام تحریروں کا خطاب بڑوں سے نہ سہی، ان کے مقاصد بڑے تھے، ان کی شخصیت اور شاعری کثیر الجہت تھی، بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی ہوں یا دوسری اصناف سخن، اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔

اسمٰعیل میرٹھی کے کلام کے مطالعہ سے ہمیں ایک ایسے ذہن کا پتہ چلتا ہے جو مخلص اور راست گو ہے، جو خیالی دنیا کی بجائے حقیقی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے، انھوں نے اس دنیائے فانی کی مبنی بر حقیقت تصویر کشی کی ہے، ان کے یہاں انسانی ابتلاء اور کلفتوں کے نقوش میں اک نرم دلی اور خلوص کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں، وہ زندگی کی نا پائیداری کے قائل ہیں، لیکن اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کی تلقین نہیں کرتے، وہ خواب و خیال کی دنیا کے شاعر نہیں بلکہ ایک عملی انسان تھے، ان کے بہت سارے اشعار ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیں اور زبان زد خواص وعوام بھی ہیں۔

اسماعیل میرٹھی قوم و ملت کے بہت بڑے بہی خواہ اور سچے ہمدرد تھے، وہ اپنی قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے، اسی لیے انھوں نے بچوں کی ذہن سازی کو خاص اہمیت دی، ان کی خواہش تھی کہ بچے صرف علم نہ سیکھیں بلکہ وہ اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات سے بھی با خبر رہیں۔

اسماعیل میرٹھی کا اردو زبان و ادب اور شاعری میں بہت بلند مقام ہے، بعض ناقدین کا تو خیال یہ ہے کہ حالی اور آزاد کے ہمعصر انّیسویں صدی کے بہترین شاعر مولوی اسمٰعیل میرٹھی ہیں، جن کی نظمیں محاسن شاعری میں آزاد و حالی دونوں سے بہتر ہیں، بہرحال! اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہت ساری کہانیاں اور نظمیں لکھیں، اسی لیے انہیں بچوں کا شاعر و ادیب کہا جاتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف بچوں کی کہانیوں اور شاعری تک ہی محدود تھے، سچی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے بچوں سے لےکر جوانوں اور بوڑھوں تک سبھی کے لیے نظمیں اور نثریں دونوں لکھیں، اس لیے ان کو بچوں تک محدود کر دینا مجھے لگتا ہے ان کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی، بلکہ زیادتی کی بات ہے۔

اردو کو جدید نظم سے روشناس کرانے والوں میں اسمٰعیل میرٹھی کو نمایاں مقام حاصل ہے، انہوں نے جو نظمیں، کہانیاں اور کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں وہ یقیناً اردو زبان و ادب کا بیش قیمتی اثاثہ ہیں نیز مولانا محمد اسماعیل میرٹھی کی شش جہت و نابغۂ روزگار شخصیت، حیات و خدمات ہم اردو والوں کے لیے سرمایہ افتخار کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے