Ticker

6/recent/ticker-posts

گاندھی جی کے سپنوں کا ہندوستان

گاندھی جی کے سپنوں کا ہندوستان


محمد قمر الزماں ندوی

آج جنوری کی 30/ تاریخ ہے، آج گاندھی جی کی یوم شہادت ہے، آج ہی کے دن 1948ء کو ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی ماری تھی۔ مہاتما گاندھی کے تعلق سے یو آر راؤ کے ذریعہ لکھی گئی کتاب، ”ایسے تھے گاندھی جی“ انہوں نے مہاتما گاندھی کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھا ہے، ان کا پورا نام موہن داس کرم چند گاندھی تھا، موہن داس اس کا اپنا نام، کرم چند ان کے پتا کا نام اور گاندھی ان کا خاندانی نام تھا۔ بچپن میں انہیں منو، مونیا، موہن، اور موہن داس جیسے متعدد ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ جنوبی افریقہ میں ان کے ساتھی اور ساتھ مل کر کام کرنے والے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور جب وہ بھارت لوٹے تب انہیں مہاتما مہان آتما کہہ کر ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اس کے بعد سے ساری دنیا نے انہیں مہاتما گاندھی کے نام سے یاد کیا، لیکن سابرمتی کے آشرم اور بعد میں سیوا گرام کے سارے مکینوں اور ساتھیوں کے لئے وہ باپو اور ان کی پتنی کستوربا، با، یعنی ماں تھیں۔ جیسے جیسے ان کی ہمدردی اور شفقت کا دائرہ لوگوں کے لیے وسیع تر ہوتا گیا سارا ملک ان کے دائرے عمل میں آگیا۔ وہ لوگوں کے دلوں کے قریب ہوگئے اور ہر جگہ لوگ انہیں باپو کہہ کر پکارنے لگے۔ (انقلاب روزنامہ 30 جنوری 2024ء)

گاندھی جی ایک عظیم دانشور، مفکر اور سیاست دان تھے، آج بھی ان کی شخصیت ان کے افکار و نظریات پر لوگ لکھ اور بول رہے ہیں اور ان کے کارناموں کو اجاگر کر رہے ہیں۔
 
گاندھی جی ایک سیاسی مدبر اور مفکر تھے وہ ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے وہ چاہتے تھے کہ ملک میں پریم و بھائی چارہ اور امن و شانتی کی فضا قائم رہے اور ہندو مسلم سکھ عیسائی سب مل کر رہیں اور مل کر ملک کی ترقی اور بکاس کریں اور اس ملک کے تکثیری سماج میں کہیں دڑار اور تناؤ نہ رہے، ملک کی رنگا رنگی تہذیب و ثقافت قائم رہے ہر شخص پوری آزادی کیساتھ مذہبی زندگی گزارے اور نفرت کا کبھی کوئی ماحول نہ بنے۔

ا‌گر لوگ گاندھی جی کے آدرش پر پورے طور پر چلتے توآج ملک کا یہ حال نہ ہوتا اور بھید بھاؤ اور آپسی رنجش نہ ہوتی۔ ۔ مذہب کے نام پر ہنگامے نہ ہوتے اور کہیں اس طرح کا ماحول ہوتا تو اس کو ختم کرنے کے لئے سارے لوگ بلا فرق مذہب و ملت کھڑے ہو جاتے۔

ذ‌را یاد کیجیے اس وقت کو جب آزادی کا سورج طلوعِ ہو رہا تھا دہلی اور پورے ملک میں جشن کا ماحول تھا، بابائے قوم بنگال کے نوا کھولی کے سفر پر تھے، جہاں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا تھا اور اس وقت تک نہیں لوٹے جب تک لوگوں نے یہ اطمینان نہیں دلایا کہ ہم لوگ سب مل کر رہیں گے اور نفرت کو ہم ختم کر چکے ہیں۔ گاندھی جی یہ اپیل کرکے لوٹے کہ اگر دو بارہ ایسے حالات کی خبر ملے گی تو مجھے دکھ ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح جب آزادی کے دن دہلی میں فساد ہوا تو بابائے قوم نے مون دھارن کیا اور اپواس پر بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک انہیں یقین نہیں دلایا گیا کہ اب دہلی کے حالات ٹھیک ہوگئے ہیں۔

آ‌ج ہمارا وہ گاندھی جی والا ہندوستاں کتنا بدل چکا ہے، ہم گاندھی جی کو کیا سچا خراج عقیدت پیش کرسکیں گے؟ لوگوں نے ان کے لٹریچر اور کیریکٹر دونوں کو بھلانا شروع کر دیا ہے آج کتنے نیتا اور لیڈر ہیں جو گاندھی جی کی سوچ رکھتے ہیں ان کے افکار و نظریات پر چلتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کو دنیا کے نیتاوں نے اپنے لئے ادرش مانا اور آج خود ہندوستان میں ان کے خوابوں کے ہندوستان کا چکنا چور ہو رہا ہے۔ ان کے راستے پر چلنے کی بات دور کی ہے اب ان کے ماننے والوں میں بھی ان کی تعلیمات مٹ رہی ہیں، ضرورت ہے کہ اس وقت اس ہندوستان کی تعمیر کی فکر کی جائے، جس ہندوستان کا خواب گاندھی جی نہرو جی ولبھ بھائی پٹیل مولانا آزاد مولانا مدنی حسرت موہانی اور ہمارے دوسرے پروجوں نے دیکھا تھا، اس کے لئے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ تبھی وہ خواب پورا ہوگا۔

نوٹ / اس مضمون کو ملکی اور سیاسی اصطلاحات و تعبیرات کی روشنی میں پڑھا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے