Ticker

6/recent/ticker-posts

ارتداد کی زد میں مسلم لڑکیاں، کیا کرے والدین

ارتداد کی زد میں مسلم لڑکیاں، کیا کرے والدین


مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ

اولاد کی پرورش و پرداخت، تعلیم و تربیت، والدین کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے، جہاں جسمانی طور پر مستحکم کرنے کی فکر ہوتی ہے وہیں پر ذہنی و فکری تربیت کی جانب بھرپور توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے، اولاد یقیناً قیمتی اثاثہ بلکہ خزینہ ہے اور اولاد ہر بشر کی مانگ ہے لیکن صرف اس کو قیمتی سمجھ کر اس سے دلی سکون حاصل کرنا کافی نہیں ہے، ایک ہیرا اس وقت کارآمد ہوتا ہے جب اس کو کسی جوہری کے پاس تراش و خراش کرکے اس کو کسی صورت میں ڈھال کر بازار میں پیش کیا جائے، انسان یہ سمجھے کہ ہمارے پاس سونے کی ڈلی ہے تو یہ سونے کی ڈلی اس کا بھوک مٹانے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اس سونے کی ڈلی کو کسی مروجہ چیز میں ڈھال کر اس کی قیمت وصول کرے تب انسان کے کام آتا ہے۔

اسی طرح اولاد بھی ایک ہیرا ہے اب ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ کس طرح کے جوہری کے پاس اس کو تراش کر مفید و کارآمد بنایا جائے، بازاروں کی بھیڑ میں ہر جوہری ہیرے کو تراشنے پر قادر نہیں ہوتا کوی اس کو خراب بھی کرسکتا ہے، اسی طرح اولاد کی تربیت کیلئے اور اس کو صحیح طرح سے تراشنے کیلیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح جگہ کا انتخاب کرے۔

احادیث مبارکہ میں اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں بہت تاکید آئ ہے، ایک حدیث میں تو یہاں تک ارشاد فرمایا گیا کہ ایک باپ جو اپنی اولاد کو سب سے بہترین تحفہ دے سکتا ہے وہ اس کی صحیح تربیت ہے، اولاد کیلیے والدین طرح طرح کے ناز اٹھاتا ہے اس کی رہائش کا انتظام کرتا ہے اس کے جسمانی آرام و راحت کا خیال کرتا ہے لیکن اس کو کارگر نہیں بتایا گیا، بیٹیوں کے سلسلہ میں تو یہاں تک فرمایا کہ۔ ۔ ۔ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی اس کی صحیح تربیت کی اور اچھے گھرانے میں اس کا نکاح کرادیا تو قیامت میں وہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔

ا‌ولاد کی تربیت و تعلیم ایک بہت ہی وسیع مفہوم اپنے اندر شامل ہے، تعلیم فقط اس کا نام نہیں کہ کسی اسکول کالج یونیورسٹی یا پھر کسی مدرسہ یا مکتب میں داخل کرکے اس کو علم کے حصول کیلیے چھوڑ دے بلکہ تعلیم کے حصول کا اصل مقصد یہ ہے کہ حصول علم کے بعد وہ کس ڈگر پر چل رہا اور اسی کا نام تربیت ہے، معلوم یہ ہوا کہ فقط علم کافی نہیں بلکہ تربیت بھی ضروری اور صرف تربیت ضروری نہیں بلکہ علم بھی ضروری ہے یہ دونوں چیزیں کامیابی کی شاہراہ ہیں۔

اس وقت جب کہ ارتداد کی لہریں چل پڑی ہیں، مسلم لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر غیروں سے شادیاں رچارہی ہیں، والدین کے ہاتھوں سے اولادیں نکل رہی ہیں اور آئے دن اخبارات کی سرخیاں بٹور رہی ہیں ماں باپ خون کے آنسو رو رہے ہیں لیکن۔ اب پچتاوت کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، غیروں نے ایک اسکیم کے تحت مسلم لڑکیوں کے اپنے قبضہ میں لینے کا عزم کرلیا ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں اپنے سر پھرے نوجوانوں کو اس کیلیے مقرر کر رکھا ہے یہ نوجوان نہ صرف باہر کی دنیا میں گردش کررہے ہیں بلکہ ہاسٹلوں تک بھی ان کی رسائی ہے، عاشقی کے نام پر اور وعدوں کے پھول سجا کر سات جنم کا ساتھ نبھانے کا وعدہ دیکر اپنی جال میں پھانس کر ایمان پر ڈاکہ زنی کرکے اپنی ازدواجی زندگی میں داخل کررہے ہیں، افسوس یہ نہیں کہ غیروں نے اسکیم چلا رکھا ہے افسوس یہ ہے کہ ہمیں سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بھی ہوش نہیں آیا۔

یقیناً ہر والدین کو تعلیم کی فکر ہے لیکن کیا ہر تعلیم گاہ اپ کی اولاد کیلیے مفید ہے، آپ اپنے چھوٹے بچوں یا بچیوں کو اسکول تو بھیج دیتے ہیں لیکن کیا کبھی خبر لی کہ اسکول میں اپ کے بچے کیا سیکھ رہے ہیں، آپ نے یہ سوچ کر کہ اسکول میں سائکل ملتی ہے کچھڑی ملتی ہے، بیگ اور پیسے ملتے ہیں اس سے اچھا اور کیا ہوسکتا ہے لیکن آپ نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ وہاں آپ کے بچوں یا بچیوں کا ایمان سلامت ہے یا نہیں، متعدد ویڈیوز ہماری نظروں سے گزریں جسمیں شرکیہ کلمات سکھایا جارہا ہے شرکیہ نعرے لگوائے جارہے ہیں اور نہ جانے کیا کیا ایمان پر بکھیڑا ہورہا ہے، پھر اعلی تعلیم کیلئے آپ کالجوں میں بھیجتے ہیں یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں اور آپ بڑے فخریہ انداز میں کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری لڑکی فلاں کالج میں تعلیم حاصل کررہی ہے لیکن آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی لڑکی وہاں کیا گل کھلا رہی ہے پھر جب آپ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آپ خون کے آنسو روتے ہیں حالانکہ آپ نے اپنی اولاد کا ایمان وہیں گنوا دیا تھا جب چھوٹے سے اسکول میں وہ شرکیہ کلمات سیکھ رہی تھی، کہنے اور لکھنے کیلے تو بہت کچھ ہے لیکن ایک ہی بات اپ سے عرض کرنی ہے کہ ہر تعلیم گاہ آپ کی اولاد کیلئے مناسب اور مفید نہیں ہے۔

اگر آپ اپنی اولاد کے ایمان کا تحفظ چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہماری لڑکی ہمارے قبضہ میں رہے تو آپ کو بہت غور فکر کے بعد کسی اسکول یا تعلیم گاہ کا انتخاب کرنا ہے، یہی ایک طریقہ ہے غیروں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کا اور اپنی لڑکی کے ایمان بچانے کا، الحمد للہ بہت سے اسکول اور کالج ایسے ہیں جہاں مکمل شرعی اصولوں کے ساتھ اعلی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے آپ ایسے ہی تعلیم گاہوں کا انتخاب کریں تاکہ خون کے آنسو نہ رونا پڑے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے