عالمی یوم خواتین – تحفظ یا استحصال
مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ
7061674542
ہر سال مارچ کی ایک مقررہ تاریخ کو عالمی یوم خواتین کے نام سے منایا جاتا ہے، اور اس تاریخ کو بنظر تحسین دیکھا جاتا ہے، محفلیں سجائ جاتی ہیں، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، عمدہ قسم کے ڈشز تیار کئے جاتے ہیں، اور نہ جانے کیا کیا تکلفات و تصنعات کا بازار گرم ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عورتیں کائنات کا حسن ہیں، کائنات کی رنگا رنگی تصویر ہے، اور عورتوں کے تصور سے ہی وجود کائنات ہے، نسلوں کی افزائش بھی عورتوں ہی کے دم سے ہے، اور قدرت نے اس اس کو جو عزت اور وقار بخشا ہے وہ کسی دُوسرے کے حصہ میں نہیں ہے، اسی لئے اس کی عزت حیا، پاکدامنی، عصمت و عفت کو ایک دبیز چادر سے ڈھانپ دیا ہے تاکہ مکمل طور سے عورتوں کو تحفظ فراہم ہو، دنیا بھی اس چیز کو سمجھتی اور مانتی ہے شاید اسی لئے یاد گار کے طور پر ایک تاریخ مقرر کرلیا ہے جس میں اس نزاکت سے معمور مخلوق کے شان میں قصیدہ پڑھے جاتے ہیں، ان کی عزت اور پاکدامنی کو یقینی بنانے کیلئے منصوبے بنے جاتے ہیں، ہر طرح کی شرانگیزی سے محفوظ رکھنے کیلئے بل پاس کئے جاتے ہیں، اور ان کی شہریت کے استحکام کیلئے عزائم اور تقاضے رکھے جاتے ہیں۔
لیکن زمینی سطح پر اگر غور کیا جائے تو معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے سب کے نظروں کے سامنے ہے جس طرح آج عورتیں نیلام ہو رہی ہیں سرعام جس طرح سے ان کا استحصال ہورہا ہے ان کی آبرو جس طرح پامال ہو رہی ہے وہ تقریبات منانے والوں پر ایک طمانچہ ہے، کس گاؤں اور کس شہر کی لڑکیاں محفوظ ہیں؟
کہیں جہیز کے نام پر قتل ہورہا ہے، کہیں پیار کے نام پر آبرو ریزی کی جارہی ہے، کہیں نوکری اور جاب کے نام پر پامالی ہورہی ہے، کہیں پارٹی اور دعوت میں عزتیں لوٹی جاتی ہیں، تو کہیں شام کو رنگین بنانے کیلیے عورتوں کا استعمال کیا جارہا ہے، اور نہ جانے کیا کیا تماشے کئے جاتے ہیں، آخر وہ کونسا میدان ہے جس میں عورتیں محفوظ ہیں، تو پھر صرف دکھلاوے کیلیے ڈے منانا کہاں تک درست ہے، کیا جو منصوبہ بنے گئے اس پر عمل درآمد ہوا، کیا حکومتی سطح پر کسی ظلم کی روک تھام کی گئ ؟
ایسے خرافات سے باہر آئے اور ڈے منانے سے بہتر ہے کہ جو جس کا حق ہے اسے وہ حق فراہم کیجیے، ہر گارجین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرے، اپنی بیٹیوں پر صحیح نظر رکھیں، بلاشبہ وہ آپ کی عزت ہیں اور عزت ایسی چیز ہے جو پردہ چاہتی ہے اور جب پردہ سے باہر آجائے تو پھر ذلت بن جاتی ہے۔
0 تبصرے