Ticker

6/recent/ticker-posts

کتاب (شیخ صدیقی برادری کا ذکرجاوداں ) ایک مطالعہ

کتاب (شیخ صدیقی برادری کا ذکرجاوداں ) ایک مطالعہ


°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آفتاب عالم ندوی


از ----- آفتاب عالم ندوی

ناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد،

کچھ روز پہلے گڈا کے ڈاکٹر عبد المجید صاحب ندوی نے اپنی تصنیف،، ضلع گڈا، بھاگلپور اور بانکا میں آباد،

شیخ صدیقی برادری کا ذکر جاوداں،بھیجوائی، ابھی تک انہیں اسکی رسید بھی نہیں دے سکے تھے، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے پیش لفظ میں لکھا ہے ندوہ کے زمانۂ طالبعلمی ہی سے اس موضوع پر وہ لکھنا چاہتے تھے،‌اور اسی وقت سے اسکیلئے انہوں نے مواد جمع کرنا شروع کر دیا تھا، ندوہ سے فراغت کے بعد بی یو ایم ایس کی انہوں نے تکمیل کی، شروع سے ڈاکٹر صاحب سنجیدہ اور محنتی رہے ہیں، حکیم بننے کے بعد بھی قرطاس وقلم سے تعلق انکا بر قرار ہے بلکہ یہ کتاب بتا رہی ہیکہ تعلق بڑھ گیا ہے۔

مصنف نے194صفحات کی کتاب میں سیکڑوں عنوان کے تحت اپنی تحقیقات و معلومات کو سلیس اور سہل زبان میں تحریر کیا ہے، شروع میں مولانا ثمیر الدین صاحب قاسمی گڈاوی مقیم لندن،مولانا ثناء الھدی صاحب قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب اور مولانا قمر الزماں صاحب ندوی گڈ اوی کی تقریظات ہیں، ان حضرات نے مصنف کی محنت کی دل کھول کر تحسین کی ہے , ڈاکٹر صاحب کیلئے یہ بڑی سند ہے۔

اسکے بعد مصنف کا پیش لفظ ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ کتاب کی تصنیف کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما ہے،‌ سنئے مصنف کی زبانی,, لیکن افسوس کہ جس برادری کے ہم چشم و چراغ ہیں اج تک اس کی کوئی جامع تاریخ موجود نہیں ہے آج کی ہماری نئی نسل جاننا چاہتی ہے کہ ہمارے آبا ء و اجداد کیسے تھے ان کا ماضی اور حال کیسا تھا، وہ اسی علاقہ کے باشندے ہیں یا یا کسی جگہ سے نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہو گئے ہیں ؟یہ ایسا سوال ہیکہ اسکا صحیح جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

اصل کتاب،،علاقہ کی تاریخ اور جغرافیہ،، سے شروع ہوتی ھے، اسکے بعد اس برادری کی تہذیبی ا ور ثقافتی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئ ہے، جن بزرگوں نے علاقہ میں اصلاح وتعلیم وتربیت کے کام کئے ان کا تذکرہ کرتے ھوئے حضرت پیر شمس الدین لکھنوی کی خدمات کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے، قدیم و جدید مدارس، اسکول اور انجمنوں کے ساتھ ان اساتذہ اور ٹیچروں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جنکی جانفشانیوں اور خلوص ولگن سے علاقہ میں علم کی روشنی پھیلی۔

اخیر میں علاقہ کی اہم شخصیات کا تعارف کروایا گیا ہے،‌ان شخصیتوں میں علماء بہی ہیں، اور سماجی کارکنان بھی، تعلیم وتعلم سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں اور تصنیف وتالیف کے میدان کے شہسوار بھی، کتاب کو حسن ترتیب اورزبان میں سلاست و روانی کے لحاظ سے ایک کامیاب تصنیف قرار دیا جاسکتا ہے، کا غذ و طباعت معیاری ہے۔

،،،علاقہ کی تاریخ اور جغرافیہ،،، کتاب اسی اہم باب سے شروع ہوتی ہے، مؤلف نے اس میں اعداد وشمار اور بنیادی معلومات دیکر قاری کو صدیقی برادری کے اس خطہ سے اور اسکے کلچر سے متعارف کروانے کی کوشش کی ہے،دوسو اکسٹھ مسلم گا ؤں کی فہرست دی گئ ہے، اسلام کا نظریہ بالکل واضح ہے، تمام انسان حضرت آدم حوا کی اولاد ہیں، پوری انسانیت ایک کنبہ ایک برادری ہے،‌ ایک ہی ماں باپ کی اولاد میں، اونچ نیچ اور اعلی وادنی نا قابل فہم ہے، رسول انسانیت خاتم الانبیاء رحمۃ للعالمین نے یہ اعلان کرکے علاقائی، نسبی اور لسانی عصبیتوں کی جڑ کاٹ دی ہے کہ نہ عربی کو عجمی پر، نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر، نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے، تمہارے باپ آدم ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے، قرآن نے اعلان کردیا،، لوگو ! تمہیں قوموں اور قبیلوں میں پہچان اور تعارف کیلیے تقسیم کیا، اور اللہ کے نزدیک تم میں باعزت وہی ہے جو تم میں تقوی والا ہے، اوراللہ خوب جانتا ہیکہ کون تقوی والا ہے، اللہ ا ور رسول کے ان صریح اعلانات کے باوجود دوسرے مذاھب والوں کی طرح تمام مسلمان اعلی اور ادنی میں تقسیم ھوگئے، یہاں بھی برہمن، راجپوت، یادو اور شودر پائے جاتے ہیں، فقہاء نے ازدواجی زندگی میں نباہ کیلئے مسلمانوں کی درجہ بندی کی کہ اگر اسکا لحاظ نہیں رکھا جائےگا تو ازدواجی زندگی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کی شکار ھوجائیگی، اہل افتاء نے اسکو اتنا پھیلایا اتنا بڑھا یا کہ شائد اتنے درجے اور اتنی برادریاں دوسرے دھرم والوں میں بھی نہ ھوں، یہ داستان دل خراش طویل ہے، افسوسناک بات یہ ہیکہ مساوات پر کتابیں لکھنے والے اور داد خطابت دینے علماء بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں،، دل چسپ بات یہ ہیکہ یہاں کے مسلمانوں میں اسی نوے فیصد کے باپ دادا یہیں کے ہیں اور بیشتر لوگوں کو کچھ ہی پیڑھیوں کی جانکاری ہے، آگے اندھیرا ہے، اسکے باوجود اپنی برادری پر فخر اور دوسری برادریوں کو حقیر سمجھنا کس قدر افسوسناک ہے،ملک میں لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان ہیں جنکا کہنا ہیکہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رض کی اولاد میں ہیں، حضرت علی کی طرف نسبت کرنے والے علوی، حضرت عمر فاروق کی طرف نسبت کرنے والے عمری لکھتے ہیں، شیخ کی نسبت کس کی طرف ہے ؟ ذکر جاوداں کے فاضل مصنف نے ایک بھی ایسی چیز ذکر نہیں کی ہے جو یہ ثابت کرے کہ شیخ صدیقی کہلانے والوں کا تعلق حضرت ابوبکر صدیق سے ہے، شروع میں انہوں نے اعتراف بھی کیا ہیکہ ہم کون ہیں اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، انصاری برادری کا بھی یہی حال ہے، کوئی دلیل نہیں جو انصاری برادری کے تعلق کو انصار مدینہ سے ثابت کرے، اترپردیش میں بھی شیخ صدیقی کہلانے والوں کی بڑی تعداد بستی ھے، بلکہ ایسے بے شمار شواہد ہیں جو بتاتے ہیں کہ تمام برادریوں کے باپ دادا ھندوستانی ہیں، ہندوستان میں دس بیس ہی خانوادے ایسے ہیں جو واقعتا سید، حسنی، حسینی، علوی، فاروقی، انصاری ہیں، انکا نسب محفوظ ہے، اور ہر دور میں ان میں علماء، مجاہدین، ۔مصنفین اور اہل طریقت ہوتے رہے ہیں، مولانا سید محمد علی مونگیری، مولانا علی میاں ندوی، خانقاہ مجیبیہ، کچھوچہ، شاہ والی اللہ محدث دہلوی، مجدد الف ثانی جیسے خاندانوں کا دعویٰ درست ہے، ھوا یہ کہ برادران وطن کی اپرکاسٹ میں سے کسی نے اسلام قبول کیا تو سید، صدیقی اور خان وغیرہ کا لقب اختیار کر لیا، اور جنہوں نے سماج میں حقیر سمجھے جانے والے کام اور پیشے اختیار کئے انہیں پیشے کے مطابق جولاہا بھشتی وغیرہ کہا گیا، اسے سماج نے برادری قرار دیا، بعد میں ان لوگوں نے انصاری، منصوری جیسے لاحقے لگالئے، یا کسی نے باہر کے کسی شیخ کے ذریعہ اسلام قبول کیا تو شیخ کا اور کسی خان کے ذریعہ مشرف بہ اسلام ہوا تو خان کا لقب اپنے لئے پسند کرلیا، یہ کس قدر ناسمجھی کی بات ہیکہ پیشہ کی وجہ سے برادریاں بنیں لیکن اب آپ کچھ بھی کرلیں، عالم بن جائیں، مفتی اور شیخ الحدیث بن جائیں، ڈاکٹر بنجائین، بڑے سے بڑا منصب حاصل ھوجائے، آپکا خاندان دس پشت پہلے روایتی پیشہ چھوڑ چکا ہو لیکن آپ عراقی ہیں تو عراقی ہی رہیں گے، جولاہے ہیں تو جولاہے ہی رہیں گے،آپ کی برادری نہیں بدلے گی، ماہنامہ زندگئ نو کے مارچ 2024کے شمارہ میں ڈاکٹر غطریف شہباز صاحب نے اپنے مضمون میں پروفیسر آرنلڈ مصنف پریچنک آف اسلام کی رائے نقل کی ہیکہ،، مسلمانوں کی اکثریت جو اپنے آپکو غیر ملکی مسلم القاب شیخ، خان اور حتی کہ سید سے بھی موسوم کرتی ہے انکی اکثریت مقامی مذہب تبدیل کرنے والوں کی تھی،،(صفحہ 69)، شیر شاہ سوری کی فوج میں جو لوگ شامل ہوئے وہ سب خان بن گئے، بہارشریف میں مدفون مشہور مجاھد ملک بیا رح کی فوج میں جو لوگ تھے وہ سب ملک ہوگئے یعنی سید، کچھ لوگ یقینا انکی اولاد میں ہیں، فاضل مصنف نے اپنا شجرہ اس طرح درج کیا ہے ؛ عبد المجید بن ہشام الدین منڈل بن چولہائے منڈل بن کیلو منڈل۔

کیا حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد کیلو منڈل ہوگی ؟ 

گجرات جہاں مشرقی اور شمالی ہندوستان کے مقابلہ میں اسلام کی روشنی پہلے پہنچی وہاں لوگوں نے اپنی برادری اور ٹائٹل نہیں بدلا پٹیل، جناح وغیرہ مسلمانوں میں بھی ہیں اور غیر مسلموں میں بھی، اپنے کو بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے حضرت ابوبکر صدیق یا حضرت عمر فاروق کی اولاد قرار دینا معلوم نہیں کس طرح جائز ودرست ہوتا ہے، کم ازکم علماء کو ضرور سوچنا چاہئے کہ جو چیز روح اسلام سے متصادم ہے، قرآن وحدیث میں صراحتا جسکو غلط کہا گیا اس سے ہمیں بچنا چاہئے یا اسے بڑھاوا دینا چاہئے ؟!



،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے