Ticker

6/recent/ticker-posts

مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز

مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز

مفتی محمد ثناء الہدی کاشمی



مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ نے " مدارس اسلامیہ کنونشن " منعقدہ المعہد العالی ہال پھلواری شریف پٹنہ

بتاریخ: 15/ ستمبر 2024ء روز اتوار بعد نماز مغرب مدارس اسلامیہ کو درپیش خطرات کی روشنی میں تجاویز پیش کیں،جس کو شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر منظوری دی تجاویز کا متن حسب ذیل ہے۔

مدارس اسلامیہ اور اس کا تعلیمی تدریسی اور تربیتی نظام ہر دور میں فرقہ پرستوں کی سازش کا نشانہ بنتا رہا ہے، مختلف موقعوں پر اس کی کار کردگی پر سوالات اٹھائے گئے اور اس کی خدمات کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی، امارت شرعیہ کے اکابر نے ہر دور میں ایسی مذموم کوششوں کا دفاع کیا، ملک میں نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی تو مدارس کے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہو گیا، یہ فرضی اور موہوم احساس نہیں بلکہ آسام میں مدارس کو سرکاری طور پر اسکول میں تبدیل کرنے کی عملی کوشش اور اتر پردیش میں یوگی حکومت کے ذریعہ مداس بند کر کے طلبہ کو اسکولوں میں منتقل کرنے کا حکم اس احساس کو یقین میں تبدیل کرتا ہے، ضرورت ہے کہ مدارس کے ذمہ داران اس طرف توجہ دیں؛ تا کہ ملت کے اس قیمتی اثاثے کاتحفظ ہو سکے، اس صورت حال کے پیش امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی صدارت میں منعقد کنونشن کے شرکاء متفقہ طور پر درج ذیل تجاویز منظور کرتے ہیں اور ان تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی مدارس کے ذمہ داروں سے اپیل کرتے ہیں:

(1) مدارس اسلامیہ نے ہر دور میں ملک میں خواندگی کے تناسب کو بڑھانے، غریبوں میں خصوصیت سے تعلیم کو فروغ دینے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے میں لائق تحسین اور قابل قدر خدمات انجام دی ہیں، یہ مدارس دستور ہند کی دفعات 29اور 30 کے تحت قائم ہیں، یہ اجلاس اسے غیر قانونی قرار دیکر بند کرانے کی کوششوں اور منصوبوں کی پرزور مذمت کرتا ہے اور حکومت پرواضح کر دینا چاہتا ہے کہ مسلمان اس قسم کی نازیبا حرکت کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے دستوری حقوق کی بقاء، بازیابی اور رو بعمل رکھنے کے لیے ضروری اقدامات سے باز نہیں آئیں گے۔

(2) مدارس اسلامیہ کی آراضی جائیداد وغیرہ کو سرکاری ضابطوں کے مطابق رجسٹر ڈ کرایا جائے، رجسٹریشن کا یہ کام سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ بنا کر بھی کرایا جا سکتا ہے۔

(3) معاصر دینی تعلیم کو مدارس کے بنیادی رول میں تبدیلی کیے بغیر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

(4) تعلیم کو معیاری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مدارس میں تدریسی آلات کا سہارا لیا جائے، اس سے افہام وتفہیم میں سہولت پیدا ہوتی ہے، مدارس میں بھی عملی تدریس ( پریکٹیکل ) کو رائج کیا جائے عملی تدریس کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق صبح کاذب، سایہ اصلی مثل مثلین، شفق وغیرہ کی تدریس صرف کتابی نہ ہو اس کا مشاہدہ بھی کرایا جائے۔ (5) سرکاری محکمہ کو مطمئن کرنے کے لیے مدارس میں آمد و خرچ اور گوشوارے کا اندراج محاسبی کے جدید اصول و ضوابط کے مطابق کیا جائے۔ اگر حسابات کا جمع کرنا سرکاری دفاتر میں ضروری ہو تو اس سے کسی بھی حال میں صرف نظر نہ کیا جائے۔

(6) محکمہ بہبودی اطفال کے معیار کے مطابق مد اس میں طلبہ کے خوردونوش اور رہائش کا انتظام کیا جائے یہ طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

(7) طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے، غیر شرعی اعمال اور لہو ولعب سے بچانے کے لیے ان پر نگاہ سخت رکھی جائے، اس کا مطلب جسمانی تعذیب نہیں ہے، نفسیاتی طور پر بار بار کی کونسلنگ کے ذریعہ انھیں نماز پنج گانہ، تلاوت قرآن، درس کی پابندی،ضروری ورزش کا پابند بنایا جائے۔

(8) امارت شرعیہ کا وفاق المدارس الاسلامیہ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی صدارت میں انھیں خطوط پر کام کرتا ہے یہ وفاق ایک نظام و نصاب کو مدارس میں رائج کرانے کی ایک کوشش ہے، مدارس کا الحاق اس سے کرانا بھی مفید ہے، اس سے طلبہ میں ریاستی سطح پر امتحانات میں مقابلے اور مسابقے کا مزاج بنے گا اور وہ تمام مدارس کے طلبہ سے مقابلہ کی ہمت جٹا پائیں گے،مدارس میں پڑھا کر خود سے امتحان لینا طلبہ کی صلاحیت کو محد و داور ان کے مسابقاتی مزاج کو ختم کرتا ہے۔

(9) بنیادی دینی تعلیم کا حصول تمام مسلمانوں پر فرض ہے، مدارس اسلامیہ اپنے قریب کے چند گاؤں کو گود لے کر وہاں مکتب کا نظام قائم کریں تا کہ کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہے۔

(10) اصلاح معاشرہ کی ضروت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اس کام کو صرف جلسے جلوس پر منحصر نہ رکھا جائے، بلکہ غیر رسمی انداز میں اصلاح کی شکلیں پیدا کی جائیں، معاشرہ کی اصلاح کے ذریعہ ہی ہم مسلم لڑکیوں میں ارتداد کے بڑھتے فتنہ کو روک سکتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے