اخلاق کے بارے میں احادیث | اخلاق قرآن کی روشنی میں
﷽
اِصْلاح الاخلاق
بُرے اخلاق اور ان کا علاج
تکبر اور عُجُب کا علاج
تکبر کا علاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو یاد کرے اور اپنے خاتمہ کوسوچےکہ نہ جانے کس طرح خاتمہ لکھا ہوا ہے اور ممکن ہے کہ ہماراکوئی کام اللہ تعالیٰ کو ایسا ناپسند ہوگیا ہو کہ سب نیکیوں پرپانی پھرجاوے اور جس کو ہم حقیر سمجھتے ہیں ممکن ہے کہ اس کاعمل زندگی بھر میں ایسا اللہ تعالیٰ کو پسند آیا ہو کہ اس کی برکت سے اس کی تمام خطائیں معاف ہوجاویں اور بزرگوں نے ایک حکایت بیان کی ہے کہ اس سے اس بیماری کے علاج میں بڑی مددملتی ہے ۔ وہ قصہ یہ ہے کہ ایک لڑکی کو محلّہ کی لڑکیوں نے خوب سجایا، وہ جب زیور اور عمدہ کپڑوں سے خوب اچھی لگنے لگی تو سہیلیوں نے بہت تعریف کی کہ بہن تم بہت اچھی لگتی ہو، اب اس حالت میں تم شوہر کے پاس جب جاؤگی تو خوب قدر ہوگی تو وہ لڑکی رونے لگی اور کہا اے میری سہیلیوں اور بہنوں! تمہاری ان تعریفوں سے ہم کوکچھ خوشی نہیں، جب ہمارا شوہر ہم کو دیکھ کرپسند کرلے گا اور تعریف کرے گا توہم کوواقعی خوشی ہوگی ۔ اس واقعہ کو سن کر بعض بزرگ روتے روتے بےہوش ہوگئے کہ دنیا میں تو لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں مگر قیامت کے دن ہم کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کیافیصلہ فرمائیں گے اس کا یقینی علم ہم کو نہیں پس دنیا میں اپنے کواچھا اور بزرگ سمجھنا حماقت ہے۔ اس لڑکی کی عقل سے سبق لینا چاہئے۔ حضرت بڑے پیر صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ جب ہمارا خاتمہ ایمان پرہوجاوے گا اس وقت ہم بےشک اپنی زندگی کے تمام کارناموں پرخوشیاں منائیں گے، اس سے قبل خوشی منانا اور لوگوں کی تعریف سے اپنے کوبڑا سمجھنا نادانی ہے اور عجب کا علاج یہ ہیکہ ہرکمال اور نعمت کواللہ تعالیٰ کی عطا سمجھے اور ڈرتا رہے کہ نہ معلوم کب اور کس وقت ہماری کس شامت اعمال سے چھن جاوے۔ اللہ تعالیٰ کے استغناء اور شانِ بے نیازی ہے سے ہروقت ڈرتارہے ۔ بزرگوں نے فرمایا کہ نیکیاں کرتارہے اور ڈرتارہے۔ یہی سبق حدیث شریف سے ملتا ہے حضرت اماعائشہؓ نے جب اس آیت کا مطلب دریافت کیا کہ "وجلت قلوبھم"کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جوشراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں؟ آپﷺنے فرمایا کہ نہیں اے صدیق کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جوروزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور اس کے باوجود خداسے ڈرتے ہیں کہ ان کے ان اعمال کوشاید قبول نہ کیا جائے، یہی وہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں ۔مشکوۃ شریف
رزائل اخلاق سے کیا مراد ہے | اخلاقیات کی تعریف
اس حدیث سے معلوم ہواکہ نیک اعمال کرکے دماغ خراب نہ ہونا چاہئے بلکہ ڈرتابھی رہے اور دعا بھی کرتا رہے کہ ہمارا یہ عمل قبول ہوجاوے اور قبول نہ ہونے کا خوف بھی رہے اور اُمیدِ قبولیت بھی رہے ۔ ایساخوف بھی نہ ہو کہ عدم قبولیت کے خوف سےعمل ہی چھوڑ بیٹھے۔ اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے آخرمیں یہی فرمادیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جونیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں ۔ عام لوگ توصرف گناہوں سے مغفرت مانگتے ہیں مگر خاص بندے اپنی نیکیوں کے بعد بھی استغفار کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی کبریائی اورشانِ عظمت کاحق ہم سے کہاں ادا ہوسکتا ہے چنانچہ حضورﷺفرض نماز کےبعد تین بار استغفار فرمایا کرتے تھے۔ جس کی حکمت بزرگوں نے یہی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کاحق کسی سے ادا نہیں ہوسکتا، اسلئے عارفین اپنے اعمال کے بعد بھی استغفار کرتے ہیں ۔
تکبر اور غرور | تکبر کا انجام
تنبیہ
حضورﷺسے ایک شخص نےعرض کیاکہ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو {یعنی کیا یہ سب تکبرہے}آپﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال کوپسند فرماتے ہیں، تکبر تو یہ ہے کہ حق کوقبول نہ کرے اور لوگوں کوحقیر سمجھے ۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ بعض اللہ والے اچھا لباس پہنتے ہیں ان کے متعلق دل برانہ کرے کہ یہ تکبر والے ہیں۔ بزرگی پہاڑ کے دامن میں رہنے، چھونپڑی بنانے، سوکھی روٹی کھانے اورموٹا کپڑا پہننے کا نام نہیں ۔ اگر ایسے شخص کے دل میں دنیا ہے تو یہ بھی دنیا دار ہے اور اگر دل میں دنیا نہ ہوتو بادشاہت کے ساتھ بھی حق تعالیٰ کے بندے ولی ہوئے ہیں ؎
؏ اگر مال وجاہ ست وزرع وتجارت
؏ چو دل باخدا ایست خلوت نشینی
یہ شعر شرح مشکوٰۃ شریف مظاہرحق میں درج ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر مال وعزت اور کھیتی اور تجارت کے ساتھ بھی دل اللہ کے ساتھ ہروقت لگا ہوتو یہ شخص خلوت نشین اور اللہ والا ہے اور اگر پہاڑ کے دامن اور جنگل میں بیٹھ کرانتظار کررہا ہے کہ کوئی شکار آوے اور نذرانہ اور حلوا مجھے پیش کرے تویہ مکار اور پکا دنیا دار ہے۔
خلاصہ یہ کہ فقیری اور اللہ تعالیٰ کی دوستی اچھا کھانے اور اچھے لباس میں اور اچھے مکان میں بھی کسی بزرگ کی صحبت سے نصیب ہوسکتی ہے بشرطیکہ اتناعِ سنت اور تقویٰ کامل کا اہتمام ہو۔
0 تبصرے