Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو زبان کا آغاز و ارتقاء

اردو زبان کا آغاز و ارتقاء


اردو زبان برصغیر پاک و ہند کی ایک اہم اور مقبول زبان ہے، جو اپنی منفرد تاریخ، تہذیب، اور مختلف زبانوں کے میل جول کا نتیجہ ہے۔ اردو نے تاریخی طور پر مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا ہے اور اپنے اندر کئی زبانوں کے اثرات کو جذب کیا ہے، جیسے کہ فارسی، عربی، ترکی، اور سنسکرت۔ اردو کا آغاز ایک لشکری زبان کے طور پر ہوا، مگر بہت کم وقت میں ہی یہ علمی، ادبی اور معاشرتی زبان کے طور پر فروغ پانے میں کامیاب ہوئی۔ اردو زبان کا ارتقاء ایک طویل اور پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہے جس میں صدیوں کی تہذیبی اور لسانی تبدیلیاں شامل ہیں۔

اردو زبان کی تاریخ مختلف ادوار میں بٹی ہوئی ہے اور ہر دور نے اردو کی شکل و صورت اور مواد میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہ زبان نہ صرف ایک علمی زبان کے طور پر سامنے آئی بلکہ عوامی بول چال میں بھی نمایاں حیثیت اختیار کی۔ اس مضمون میں اردو زبان کے آغاز و ارتقاء کے متعلق مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

اردو زبان کا آغاز:

اردو زبان کا آغاز 11ویں اور 12ویں صدی کے درمیان ہوا جب ترک اور افغان فاتحین نے ہندوستان میں قدم رکھا۔ ان کے ساتھ فارسی اور ترکی زبانیں بھی برصغیر میں آئیں۔ اس دوران مقامی بولیوں، جیسے کہ برج بھاشا اور کھڑی بولی، نے ان غیر ملکی زبانوں کے ساتھ مل کر ایک نئی زبان کی شکل اختیار کی، جسے ابتدا میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا۔

لشکری زبان کا تصور:

اردو کا پہلا تصور لشکری زبان کے طور پر سامنے آیا۔ جب ترک، افغان، اور دیگر مسلم فوجیں ہندوستان میں آئیں تو انہیں مقامی لوگوں کے ساتھ رابطے کے لیے ایک ایسی زبان کی ضرورت محسوس ہوئی جو مختلف زبانوں کا مجموعہ ہو۔ اس طرح اردو زبان نے لشکر میں پیدا ہونے والی ایک مخلوط زبان کے طور پر جنم لیا۔ اسی وجہ سے اسے "اردو" یعنی لشکر کی زبان کہا گیا۔ لشکری ماحول میں یہ زبان ایک ذریعۂ رابطہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی، جہاں مختلف قوموں کے سپاہی آپس میں بات چیت کرتے تھے۔

فارسی اور عربی کا اثر:

اردو زبان کی ابتدا میں فارسی اور عربی زبانوں کا گہرا اثر شامل رہا۔ فارسی مغلیہ دور کی سرکاری زبان تھی، اور عربی مذہبی زبان کے طور پر اہمیت رکھتی تھی۔ اردو نے ان دونوں زبانوں سے الفاظ اور اسلوب اخذ کیے۔ فارسی کی شاعری اور نثر نے اردو کے ادبی معیار کو مضبوط کیا، جب کہ عربی کے علمی اور مذہبی الفاظ اردو میں داخل ہوئے۔

ہندوستانی زبانوں کے اثرات:

اردو زبان نے مقامی زبانوں جیسے سنسکرت، پراکرت، اور اپ بھرنش سے بھی بہت سے الفاظ اور محاورے حاصل کیے۔ ان زبانوں کی روایات اور ثقافتی مظاہر اردو زبان کا حصہ بن گئے، جس سے اردو ایک جامع اور مربوط زبان کے طور پر سامنے آئی۔ ہندوستانی دیسی بولیوں کے اثرات نے اردو کی بنیادی ڈھانچے کو مقامی رنگ دیا، جس سے یہ زبان عوام میں مقبول ہوئی۔

اردو زبان کے ارتقاء کے مختلف مراحل:

اردو زبان کا ارتقاء مختلف تہذیبی اور لسانی تبدیلیوں کے زیر اثر ہوا۔ یہ تبدیلیاں مختلف ادوار میں رونما ہوئیں اور ہر دور نے اردو زبان کو نئے رنگ میں ڈھالا۔

اردو زبان اور دہلی سلطنت کا دور:

اردو زبان کے ارتقاء کا پہلا اہم دور دہلی سلطنت کے زمانے میں شروع ہوا۔ دہلی سلطنت کے حکمرانوں نے فارسی کو سرکاری زبان کے طور پر اپنایا، مگر عوام میں رابطے کے لیے ایک ایسی زبان کی ضرورت تھی جو مختلف قوموں کو سمجھنے میں مدد دے۔ اس طرح اردو نے دہلی کے حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔

اردو زبان پر مغل دور کا اثر:

مغل دور اردو زبان کے ارتقاء کا ایک سنہری دور ثابت ہوا۔ مغل بادشاہوں نے فارسی کو دربار کی زبان کے طور پر اپنایا، مگر عوام میں مقبولیت کے لیے اردو کو فروغ دیا۔ اردو ادب نے مغلیہ دربار میں ترقی پائی اور اس دوران فارسی کی شان و شوکت اور ہندوستانی ثقافت کا ملاپ ہوا۔ امیر خسرو جیسے شاعروں نے فارسی اور ہندی کے امتزاج سے اردو کی بنیاد رکھی، جس نے آگے چل کر ایک مستقل زبان کی شکل اختیار کی۔

مغل بادشاہوں نے اردو شاعری، نثر اور ادب کی سرپرستی کی، جس نے اردو کو ادبی زبان کے طور پر مقبول بنایا۔ مغل دور میں اردو کو مختلف طبقوں میں مقبولیت حاصل ہوئی اور یہ زبان علمی اور ادبی حلقوں میں تیزی سے پھیل گئی۔

دکنی اردو کا دور:

اردو زبان کے ارتقاء کا ایک اور اہم باب دکن میں رقم ہوا۔ دکن کے علاقے میں بہمنی سلطنت اور گولکنڈہ کے حکمرانوں نے اردو کو فروغ دیا۔ اس دور میں اردو کو "دکنی" کے نام سے جانا جاتا تھا اور یہ زبان شمالی ہندوستان کے مقابلے میں دکن میں زیادہ ترقی کر رہی تھی۔ دکنی اردو میں مقامی بولیوں کے زیادہ اثرات تھے اور یہ زبان اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے مشہور تھی۔

دکنی اردو میں ولی دکنی کا نام بہت اہم ہے، جنہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ولی دکنی کی شاعری نے اردو زبان کو شمالی ہندوستان میں بھی مقبول بنایا اور انہیں اردو شاعری کا بانی کہا جاتا ہے۔

اردو ادب کی ترقی اور ارتقاء:

اردو زبان کی ترقی میں اردو ادب کا بڑا حصہ رہا ہے۔ اردو ادب نے نہ صرف زبان کو علمی اور ادبی سطح پر بلند کیا بلکہ اس کے ارتقاء میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اردو شاعری کا آغاز:

اردو شاعری کا آغاز امیر خسرو سے ہوتا ہے، جنہوں نے فارسی اور ہندی کو ملا کر ایک نئی زبان میں شاعری کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد میر تقی میر اور مرزا غالب جیسے عظیم شاعروں نے اردو شاعری کو عروج پر پہنچایا۔ ان شاعروں کی غزلیں، نظمیں اور رباعیات اردو زبان کا اہم حصہ بن چکی ہیں۔

غزل اور قصیدہ کی روایت:

اردو ادب میں غزل اور قصیدہ کی روایت فارسی زبان سے آئی۔ مغلیہ دور میں فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی غزل اور قصیدہ کی صنفیں مقبول ہوئیں۔ غالب، میر اور انیس جیسے شعراء نے غزل کو اردو شاعری کی اعلیٰ صنف بنا دیا۔ غزل میں عشق، جمالیات، اور فلسفہ جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا، جب کہ قصیدہ میں درباری روایات اور مذہبی واقعات کو بیان کیا جاتا تھا۔

ناول اور افسانہ نویسی:

انیسویں صدی میں اردو ادب میں ناول اور افسانہ نویسی کا آغاز ہوا۔ سرسید احمد خان اور ان کی تحریک نے اردو زبان کو جدید تعلیمی اور ادبی موضوعات کے لیے استعمال کرنے کی راہ ہموار کی۔ ڈپٹی نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار، اور پریم چند جیسے ادیبوں نے اردو میں ناول اور افسانہ کی صنف کو فروغ دیا۔

اردو زبان کا جدید دور:

اردو زبان کا جدید دور خاص طور پر 19ویں اور 20ویں صدی میں شروع ہوا۔ اس دور میں اردو کو نہ صرف برصغیر میں بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں بھی فروغ حاصل ہوا۔

سرسید احمد خان اور علیگڑھ تحریک:

سرسید احمد خان نے اردو زبان کو جدید تعلیم اور سائنسی مضامین کے لیے ایک ذریعہ بنایا۔ علیگڑھ تحریک نے اردو زبان کو مسلمانوں کے تعلیمی اور سماجی ارتقاء کے لیے ایک اہم ذریعہ کے طور پر فروغ دیا۔ اس تحریک نے اردو کو جدید علوم و فنون کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، جس سے اردو زبان کی علمی اور فکری حیثیت مزید مضبوط ہوئی۔

قیام پاکستان اور اردو کا قومی زبان کا درجہ:

قیام پاکستان کے بعد اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ اس فیصلے نے اردو کو ایک نئی زندگی دی اور یہ ملک کے مختلف علاقوں میں ایک سرکاری اور علمی زبان کے طور پر رائج ہوئی۔ اردو زبان کو تعلیم، سرکاری امور، اور عدالتی نظام میں اہمیت دی گئی، جس سے اس کی ترقی کی رفتار میں تیزی آئی۔

اردو زبان اور جدید ٹیکنالوجی:

اردو زبان نے جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ترقی کی ہے۔ انٹرنیٹ، موبائل فون، اور سوشل میڈیا کی آمد نے اردو کو نئی نسلوں تک پہنچا دیا ہے۔ اردو میں سوشل میڈیا پر مواد تخلیق کرنے والے لکھاریوں، بلاگرز، اور یوٹیوبرز نے اس زبان کو عالمی سطح پر مقبول بنا دیا ہے۔

اردو زبان میں بلاگ، ویب سائٹ، اور مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر مواد کی موجودگی نے اس زبان کو عالمی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ اس سے اردو زبان کی ترقی میں مدد فراہم ہو رہی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی میں اردو کی موجودگی:

جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر کمپیوٹر اور سمارٹ فونز کی دنیا میں اردو کی موجودگی ابھی تک محدود ہے۔ اگرچہ گوگل اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اردو کی سپورٹ فراہم کی ہے، مگر اردو میں معیاری سافٹ ویئر، ایپلی کیشنز، اور آن لائن مواد کی تعداد اب بھی کم ہے۔ اس سے اردو بولنے والے افراد کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

اردو زبان اور جدید دور کی تشکیل:

اردو زبان کا جدید دور نہایت اہم اور معنی خیز ہے، کیونکہ اس دور میں اردو نے اپنی جڑوں کو مزید مضبوط کیا اور ایک عالمی زبان کے طور پر ابھرنے لگی۔ اس ارتقاء کے دوران مختلف ادبی تحریکات، سیاسی واقعات، اور جدید ٹیکنالوجی نے اردو زبان کی شکل کو بدلا اور اسے نئے مواقع فراہم کیے۔

ادبی تحریکات کا اثر:

اردو زبان کی ترقی میں مختلف ادبی تحریکات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ 20ویں صدی کے آغاز میں "انجمن ترقی پسند مصنفین" کی تحریک نے اردو ادب میں جدیدیت اور ترقی پسند خیالات کا فروغ کیا۔ اس تحریک کا مقصد معاشرتی اور سماجی انصاف، آزادی، اور انسانی حقوق جیسے موضوعات کو اردو ادب میں شامل کرنا تھا۔ فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، اور کرشن چندر جیسے ادیبوں نے اس تحریک کو تقویت بخشی اور اردو ادب میں نئے موضوعات اور رجحانات کو متعارف کرایا۔

ترقی پسند تحریک کے بعد "حلقہ ارباب ذوق" بھی ایک اہم ادبی تحریک کے طور پر ابھری۔ اس تحریک نے اردو ادب میں جمالیات اور ادب برائے ادب کے نظریے کو فروغ دیا، جس کا مقصد ادب کو محض جمالیاتی اظہار کا ذریعہ بنانا تھا۔ اس تحریک سے اردو نثر اور شاعری میں تخلیقی تنوع پیدا ہوا اور ادبی زبان کی شکل کو نئی جہتیں ملیں۔

اردو صحافت کی ترقی:

اردو زبان کے فروغ میں صحافت کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں اردو صحافت نے اہم پیشرفت کی۔ اردو اخبارات اور رسائل نے عوام کو سیاسی، سماجی اور تعلیمی معاملات سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سرسید احمد خان کے رسالہ "تہذیب الاخلاق" اور مولانا محمد علی جوہر کے "ہمدرد" جیسے رسائل نے اردو صحافت کو نئی راہوں پر ڈالا اور اسے علمی اور فکری زبان کے طور پر مستحکم کیا۔

اردو صحافت نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد اردو صحافت نے قومی زبان کے طور پر اپنی جگہ بنائی۔ پاکستان میں "جنگ" اور "نوائے وقت" جیسے بڑے اردو اخبارات نے عوام کو خبریں، تجزیے، اور فکری مضامین فراہم کیے، جنہوں نے عوامی رائے سازی میں اہم کردار ادا کیا۔

اردو زبان کا تعلیمی نظام میں کردار:

اردو زبان نے تعلیمی میدان میں بھی بڑی ترقی کی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں اردو کو ابتدائی اور ثانوی تعلیمی نظام میں اہمیت دی گئی ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں نے اردو زبان کو فروغ دیا اور اسے نئی نسلوں تک منتقل کیا۔

ہندوستان میں اردو تعلیم:

ہندوستان میں آزادی کے بعد اردو کو کئی ریاستوں میں سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا، خاص طور پر اتر پردیش، بہار، اور مغربی بنگال میں۔ وہاں اردو کو اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں نے اردو کی تعلیم و تدریس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان میں اردو تعلیم:

پاکستان میں اردو کو قومی زبان کے طور پر تعلیم کے میدان میں خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ملک کے بیشتر اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، اور بیشتر تعلیمی اداروں میں اردو میڈیم کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے۔ اردو زبان میں سائنسی، ادبی، اور تاریخی مضامین پر بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہوتی ہیں، جو طلبہ کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اردو کا عالمی پھیلاؤ:

اردو زبان کا ارتقاء صرف برصغیر تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کا اثر عالمی سطح پر بھی محسوس کیا گیا۔ برصغیر کے لوگوں کی دنیا بھر میں ہجرت نے اردو زبان کو عالمی منظرنامے پر متعارف کرایا۔

مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں اردو:

مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں پاکستانی اور ہندوستانی تارکین وطن کی بڑی تعداد مقیم ہے، جہاں اردو زبان کو روزمرہ کے معاملات، کاروباری لین دین، اور سماجی رابطے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اور دیگر خلیجی ممالک میں اردو ریڈیو، ٹی وی چینلز، اور اخبارات نے اردو کو مزید فروغ دیا ہے۔

یورپ اور امریکہ میں اردو:

یورپ، امریکہ، اور کینیڈا میں بھی اردو زبان بولنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہاں اردو بولنے والے تارکین وطن اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف تنظیموں، اسکولوں، اور میڈیا کے ذریعے اردو کی ترویج کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں بی بی سی اردو سروس اور امریکہ میں وائس آف امریکہ اردو سروس نے اردو زبان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں اردو زبان کے ادبی محافل، مشاعرے، اور ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

اردو اور سوشل میڈیا:

جدید دور میں سوشل میڈیا نے اردو زبان کو عالمی سطح پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم پر اردو میں مواد تخلیق کرنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان پلیٹ فارمز پر اردو میں ویڈیوز، بلاگز، مضامین، اور شاعری کا تبادلہ کیا جاتا ہے، جس سے اردو کو نئی نسلوں میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔

اردو زبان کو درپیش چیلنجز:

اگرچہ اردو زبان نے تاریخی طور پر بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، مگر آج کے دور میں اسے کئی چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔

تعلیمی اور سرکاری سطح پر انگریزی کا غلبہ:

پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں تعلیمی اور سرکاری سطح پر انگریزی کا غلبہ اردو کے فروغ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ بہت سے ادارے انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے اردو کی تدریس اور استعمال محدود ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود، عوام میں اردو کی مقبولیت برقرار ہے اور تعلیمی نظام میں اسے بہتر مقام دلانے کی کوششیں جاری ہیں۔

دیگر علاقائی زبانوں کا اثر:

برصغیر میں اردو کے ساتھ دیگر علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں، جیسے پنجابی، سندھی، بنگالی، اور گجراتی۔ یہ زبانیں اردو کے ساتھ مقابلے میں ہیں اور اکثر تعلیمی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر اردو کو کم ترجیح دی جاتی ہے۔ خاص طور پر ہندوستان میں اردو کو ایک مخصوص مذہبی پس منظر سے جوڑنے کی کوششوں نے بھی اس کی ترقی کو محدود کیا ہے۔

اردو زبان کے مستقبل کا منظرنامہ:

اردو زبان کا مستقبل اس کی مقبولیت، استعمال اور تعلیمی میدان میں اس کی ترقی پر منحصر ہے۔ اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے، میڈیا، اور حکومتیں اس کے فروغ کے لیے مزید اقدامات کریں۔

میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار:

اردو زبان کے فروغ میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ اردو ٹی وی چینلز، ریڈیو اسٹیشنز، اور آن لائن پلیٹ فارمز کو مزید مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ عوامی رابطے میں اردو زبان کا استعمال بڑھایا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر بھی اردو زبان میں مواد کی تعداد اور معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

ادبی محافل اور مشاعروں کا فروغ:

اردو زبان کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے ادبی محافل اور مشاعرے ایک اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ اردو شاعری اور نثر کو عوام تک پہنچانے کے لیے ایسی تقریبات کا انعقاد ضروری ہے جہاں نئی اور پرانی نسل کے لوگ مل کر اردو زبان کو آگے بڑھا سکیں۔

نتیجہ

اردو زبان کا آغاز مختلف تہذیبی اور لسانی ملاپ کا نتیجہ ہے، جس نے برصغیر کے مختلف لسانی اور ثقافتی عناصر کو اپنے اندر سمو لیا۔ یہ زبان نہ صرف ایک ادبی اور علمی زبان کے طور پر ابھری بلکہ عوامی بول چال میں بھی مضبوطی سے اپنی جگہ بنائی۔ اردو نے فارسی، عربی، ترکی اور مقامی زبانوں کے اثرات کو جذب کرتے ہوئے ایک منفرد شناخت حاصل کی، جس نے اسے ایک عالمی زبان بنا دیا۔

اردو کا ارتقاء مغلیہ دور سے لے کر دکنی دور تک اور بعد میں جدید دور تک ایک مسلسل ترقی کا سفر رہا ہے، جس میں مختلف ادبی تحریکات، سیاسی واقعات، اور تہذیبی میل جول نے اہم کردار ادا کیا۔ اردو نے شاعری، نثر، صحافت، اور تعلیم کے میدان میں بے شمار کامیابیاں حاصل کیں اور ایک جامع اور مستحکم زبان کے طور پر تسلیم کی گئی۔

اگرچہ اردو کو موجودہ دور میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے انگریزی کا غلبہ، جدید ٹیکنالوجی میں اس کی محدود موجودگی، اور علاقائی زبانوں کا اثر، مگر اس کے باوجود اردو آج بھی ایک زندہ زبان ہے، جو عالمی سطح پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا، تعلیم، اور عالمی رابطوں نے اردو زبان کو نئی نسل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور اردو بولنے والے افراد اسے عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

اردو زبان کا مستقبل تابناک ہے، بشرطیکہ تعلیمی ادارے، حکومتیں، اور سماجی ادارے اس کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ اردو کی ادبی روایت، اس کا جمالیاتی حسن، اور اس کی عوامی مقبولیت اسے ایک ایسی زبان کے طور پر پیش کرتی ہے جو مستقبل میں بھی اہمیت اور مقام برقرار رکھے گی۔ اس لیے اردو زبان کی حفاظت اور ترویج نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ہماری تہذیبی ورثے کی بقا کے لیے بھی لازم ہے۔

اردو زبان کا یہ سفر آج بھی جاری ہے، اور جب تک اس زبان کو سراہا جاتا رہے گا، یہ ترقی کرتی رہے گی، نئے فکری و لسانی افق کی طرف بڑھتی رہے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے