اردو زبان کے آغاز و ارتقاء کے متعلق مختلف نظریات
جب سے اردو زبان کی ابتدا ہوئی اور اس کے اغاز و ارتقا کے متعلق تحقیق شروع ہوئی تب سے ہی محققین کے بیچ اس بات پہ تنازعہ شروع ہو گیا کہ اردو کی ابتدا کب سے ہوئی اور یہ زبان کس زبان سے نکلی ہے۔ لسانیات کے ماہرین کے مطابق اردو کی ابتدا سے متعلق الگ الگ نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔آج کے پوسٹ میں ہم اردو زبان کے آغاز و ارتقاء کے متعلق مختلف نظریات سے متعلق بحث کرنے جا رہے ہیں۔
لسانیات کے ماہرین اور محققین نے ہمیشہ اپنے اپنے طور پر اردو زبان کی ابتدا سے متعلق بحث کرتے ہوۓ لکھا ہے کہ اس کا ماخذ برج بھاشا، کھڑی بولی، ہریانوی، پنجابی، دکنی، گجراتی اور سندھی وغیرہ ہندوستانی زبانیں اور بولیاں ہیں۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو یہ اختلافات اردو اور دیگر زبانوں کے درمیان پائی جانے والی مشابہت کی وجہ سے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس بات پر سبھی محققین اور ماہر لسانیات کا اتفاق رہا ہے کہ باہر سے آنے والی قوموں اور مقامی لوگوں کے سماجی، معاشرتی، سیاسی اور تجارتی میل جول کی وجہ سے ہی اردو زبان وجود میں آئی ہے۔ اسی میل جول سے جو مخلوط زبان پیدا ہوئی وہ ابتدا میں ہندی، ہندوی، دہلوی، گجری، دکنی، لشکری زبان، ریختہ اور اردوئے معلیٰ وغیرہ کہلائی اور بعد میں یہی مختلف ناموں والی زبان کو اردو کے نام سے جان پہچان ملی۔
اردو زبان کی پیدائش کے سلسلے میں مختلف نظریات
اکثر ماہرین لسانیات اور محققین نے اردو زبان کی پیدائش کے سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیا ہے۔ کچھ محققین نے تو اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے تاریخی حالات اور واقعات کا بھی بھرپور سہارا لیا ہے۔ کچھ ماہر لسانیات اور محقق نے لسانی خصوصیات کو بھی اپنی دلیل میں شامل کیا ہے۔ تو کچھ لوگوں نے فقط ضمنی طور پر اپنی تحریروں میں اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوششیں کیں ہیں۔ چند محققین نے اردو کی ابتدا سے متعلق اپنے نظریے پر باقاعدہ کتابیں بھی تصنیف کی اور اپنے نظریے کو ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
جن لوگوں نے ضمنی طور پر اپنے نظریے کو پیش کیا ہے۔ ان میں میرامن دہلوی بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو عہدِ اکبر میں پیدا ہوئی۔ ان کے نظریہ کے مطابق اردو ہندوؤں اور مسلمانوں کے میل جول کا نتیجہ ہے۔ کچھ کچھ اسی طرح سر سید احمد خاں نے بھی اردو کی ابتدا شاہجہاں کے عہد کو بتایا ہے اور اردو کو مخلوط زبان قرار دیا ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی لوگوں نے ضمنی طور پر ہی اردو کی ابتدا سے متعلق اپنے الگ الگ نظریات پیش کیے ہیں۔
محمد حسین آزاد کا نظریہ:
اپنی کتاب ”آب حیات“ میں محمد حسین آزاد نے اردو کی ابتدا سے متعلق اپنے نظریے کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے۔ انہوں نے اسے ثابت کرنے کیلئے یہ دلیل پیش کی ہے کہ مغل بادشاہوں کی حکومت کا مرکزی علاقہ آگرہ تھا۔ آگرہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں برج بھاشا بولی جاتی تھی جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس نظریے سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آزاد نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے سماجی، معاشرتی اور سیاسی اختلاط سے ہی اردو زبان وجود میں آئی ہے۔
شوکت سبزواری کا نظریہ:
اسی طرح سے شوکت سبزواری، حافظ محمود شیرانی، محی الدین قادری زور، سنیتی کمار چٹرجی، سہیل بخاری، گیان چند جین اور مسعود حسین خاں نے بھی اردو کی ابتدا کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات کو پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کئی کتابیں بھی ہیں۔
محی الدین قادری زورؔ:
محی الدین قادری زورؔ نے اپنا نظریہ”ہندوستانی لسانیات“ میں پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق اردو پنجابی سے نکلی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو اس زبان سے ترقی پاکر بنی جو پنجاب میں بارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ اردو زبان کی بنیاد مسلمانوں کے دلی فتح کرنے سے قبل پڑ چکی تھی اور جب مسلمانوں نے دلی کو پایہ تخت بنایا تب وہاں یہ زبان پہنچی اور اس کی مکمل پہچان ہوئی۔
حافظ محمود شیرانی:
اپنی کتاب ”پنجاب میں اردو“ میں حافظ محمود شیرانی نے اپنے نظریات کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اردو زبان اور پنجابی کی شکل آپس میں بہت ملتی ہے۔ اس لیے اردو زبان پنجاب میں پیدا ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم حکمران ہندوستان میں پنجاب کے راستے سے آئے اور کچھ بادشاہوں نے پنجاب کو ریاست بنائی۔ مثلاً محمود غزنوی نے لاہور کو راجدھانی بنائی تھی۔ اس لیے وہاں مسلمانوں اور پنجابیوں میں تہذیبی اور سماجی رشتے قائم ہوگئے ہوں گے۔ انہوں نے طویل عرصے تک وہاں حکومت کی اس لیے عربی، فارسی اور ترکی کے الفاظ پنجابی میں شامل ہوتے چلے گئے ہوں گے اور پھر آگے چل کر وہی زبان فوجیوں، سپاہیوں اور تاجروں کے ساتھ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پہنچی اور اس طرح اردو زبان بنی۔
انہوں نے اپنے نظریات کو پیش کرتے ہوۓ آگے لکھا ہے کہ یہی زبان محمد تغلق کے زمانے میں دکن تک پہنچی۔ وہاں صوفیوں اور اس وقت کے شاعروں نے اسے اپنایا اور وہاں اس کی بھرپور پرورش ہوتی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ زبان دہلی پہنچی اور شمالی ہند کے علاقوں میں پھیل گئی۔ انہوں نے اپنے نظریے کی دلیل بھی پیش کی ہے۔ لفظوں اور جملوں کی بناوٹ اور تراکیب میں اردو اور پنجابی ملتے جلتے ہیں، اس طرح دو زبانوں کے قواعد بھی ایک جیسے ہیں اس لیے اسی پہلو کو انہوں نے بطور دلیل پیش کیا ہے۔
سید سلیمان ندوی:
اردو زبان سے متعلق سید سلیمان ندوی کا نظریہ یہ ہے کہ اردو سندھی زبان سے نکلی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی کتاب ”نقوش سلیمانی“ میں لکھا ہے۔ انہوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ باہر سے آنے والے مسلمان سب سے پہلے سندھ میں ہی داخل ہوۓ تھے۔ وہاں پر وہ تقریباً چار سال تک حکومت کرتے رہے۔ اس طرح وہاں مقامی لوگوں کے ساتھ ان کا سماجی، تجارتی اور کاروباری میل جول رہا جس سے ایک ملی جلی زبان پیدا ہوئی۔ پھر وہی زبان ترقی کرتے کرتے اردو زبان بن گئی۔
نصیر الدین ہاشمی:
اردو کی ابتدا سے متعلق نصیر الدین ہاشمی کا نظریہ یہ ہے کہ اردو زبان دکنی بولی سے نکلی ہے۔ ان کی کتاب ”دکن میں اردو“ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ساتویں صدی میں عرب سے کچھ تاجر تجارت کے سلسلے میں ہندوستان آئے تھے اور مالابار کے ساحلی علاقوں میں ان کا قیام ہوا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ لوگ پھیلتے گئے۔ مقامی لوگوں سے انہوں نے اپنے رشتے بھی قایم کیے اور پھر بات چیت میں انہوں نے ملی جلی زبان کا سہارا لیا جس سے عربی کے الفاظ اور مقامی بولیوں کے الفاظ آپس میں ملتے جلتے گئے اور اس طرح ایک نئی زبان بن گئی۔ پھر یہی زبان ترقی کرنے کے بعد اردو کہلائی۔ لیکن محققین نے ان کے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
شوکت شبزواری:
شوکت شبزواری نے اپنی کتاب ”اردو زبان کا ارتقا“ میں پہلے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اردو زبان پالی سے نکلی ہے۔ لیکن بعد میں خود ہی اسے رد کر دیا اور اپنی دوسری کتاب ”داستان زبان اردو“ میں انہوں نے اردو کو کھڑی بولی پر مبنی قرار دیا ہے۔ اسے انہوں نے ہندوستانی بھی کہا ہے۔ یہ بولی دلی اور میرٹھ کے آس پاس بولی جاتی تھی اور اردو اسی کھڑی بولی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ انہوں نے اس نظریے پر مدلل گفتگو کی ہے اور دوسرے ماہرین کے نظریات پر بھی گفتگو کی ہے۔
مسعود حسین خان:
مسعود حسین خان کا نظریہ یہ ہے کہ اردو زبان کی بنیاد کھڑی بولی ہے۔انہوں نے یہ نظریہ اپنے ایک مضمون میں پیش کیا ہے۔ لیکن انہوں نے اسے خاص نہیں کیا ہے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ اردو کی پیدائش دہلی کے آس پاس ہوئی اور دہلی کے آس پاس چار بولیاں بولی جاتی تھیں۔ وہ چاروں بولیاں کھڑی بولی، ہریانی، میواتی اور برج بھاشا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان چاروں بولیوں نے اردو پر مختلف ادوار میں اپنے اثرات ڈالے۔ اسی پر مسعود حسین نے اپنا نظریہ قائم کیا ہے کہ نواح دہلی کی یہ چاروں بولیاں اردو کا سرچشمہ ہیں اور دلی مولد ہے۔ ان بولیوں میں کھڑی بولی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
سہیل احمد بخاری:
انہوں نے شروع میں اپنے ایک مضمون "اردو کا قدیم ترین ادب" میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے کہ اردو کی اصل کھڑی بولی ہے اور اردو ہندی کھڑی بولی کے دو روپ ہیں۔ لیکن بعد میں انہوں نے اپنی کتاب "اردو کے روپ" میں الگ نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ یہ کہ اردو ہند آریائی نہیں بلکہ دراوڑی خاندان کی زبان ہے اور اس کے پیدا ہونے کی جگہ اڑیسہ ہے۔ ان نظریے کو لوگوں نے سراسر رد کیا ہے۔
گیان چند جین:
انہوں نے اردو کی اصل کھڑی بولی کو قرار دیا ہے۔ انہوں نے پنجابی، ہریانی، برج بھاشا اور دکنی وغیرہ کے نظریات کو رد کیاہے۔ انہوں نے چند بنیادی الفاظ کو دیکھتے ہوئے اردو، ہندی اور کھڑی بولی کو ایک مانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
"اردو کے آغاز کو دو منزلوں میں ڈھونڈھنا چاہیے۔ اول کھڑی بولی کا آغاز، دوسرے کھڑی بولی میں عربی فارسی لفظوں کا شمول، جس کا نام ارد و ہوجاتا ہے۔"
بہر حال مجموعی طور پر دیکھا جائے تو زیادہ تر ماہرین نے کھڑی بولی کو اردو کی اصل قرار دیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس نظریے کو صحیح بھی مانا ہے۔ کسی نے کھڑی بولی کے اثرات سے انکار بھی نہیں کیا ہے۔ یعنی اکثر کا ماننا ہے کہ اردو پر کھڑی بولی کے اثرات زیادہ رہے۔ اس طرح زیادہ لوگوں کی رائے یہی رہی کہ اردو زبان کھڑی بولی سے نکلی جو کہ دہلی کے آس پاس بولی جاتی تھی۔
0 تبصرے