Ticker

6/recent/ticker-posts

علامہ عبد اللطیف رحمانی عظیم محدث و فقیہ

علامہ عبد اللطیف رحمانی عظیم محدث و فقیہ


( 1871-1959 )

از- آفتاب عالم ندوی دھنباد - جھارکھنڈ

دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی روز نئی نئی اورچھوٹی بڑی کتابیں مارکیٹ میں آرہی ہیں، اور پہلے کے مقابلہ میں طباعت اور کاغذ کی کوالیٹی کافی بہتر ہوگئ ہے، لیکن تحقیق اور زبان و اسلوب میں افسوسناک حدتک گراوٹ اور پستی دیکھی جارہی ہے، دوسری چیز یہ کہ آج جبکہ لوگوں کے پاس وقت کم ہے، ہر میدان میں شارٹ کٹ اور مختصر راستے اور تدابیر اختیار کی جارہی ہیں بلاضرورت بھی بہت سے اہل قلم کئ کئ جلدوں میں کتابیں تیار کر رہے ہیں، سرقہ بھی زوروں پر ہے، پہلے بھی اسکے ماہرین ہوتے تھے لیکن بہت کم، آج اسکے بڑے بڑے شہسوار پیدا ہوگئےہیں، طبقۂ علماء میں شرح نویسی ایک مقبول صنف بن گئ ہے،ایک ایک درسی کتاب کی دسیوں شرحیں آچکی ہیں، ملفوظات، شروح و دروس کے چھپنے چھاپنے کا سلسلہ بھی دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، شروحات میں عام طور پر تکرار ہوتی ہے،کتابوں اور مضامین و مقالات کی اس بھیڑ اور کثرت میں کبھی کبھار ایسے مضامین اور ایسی کتابیں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں جن سے دل مسرور اور آنکھیں پرنور ہوتی ہیں، ابھی چند روز پہلے اسی طرح کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے، مصنف ہیں فیصل احمد بھٹکلی، موصوف ندوہ کے ایک مقبول استاد اور اپنے ذوق تحقیق و تصنیف کی وجہ سے اہل علم میں مشہور ہیں، رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے سیرت نبوی پر 2007میں منعقدہ ایک مقابلہ میں انکی کتاب کو انعام اول کا مستحق قرار دیا گیا،، 1857سے پہلے کے مجاہدین آزادی،، بھی انکی ایک اہم تحقیقی تصنیف ہے، فیصل بھٹکلی جو بھی لکھتے ہیں تحقیق و جستجو کے بعد لکھتے ہیں، موصوف ان تمام مراجع و مصادر اور تمام مجلات اور میگزین کو کھنگھالتے ہیں جن سے انہیں کچھ بھی ملنے کا تھوڑا بھی امکان ہوتا ہے، متضاد معلومات کو روایت و درایت اور عقل و نقل کی چھلنی میں چھاننے اور پھٹکنے کے بعد لکھتے ہیں، اسوقت راقم جس کتاب ( مفتی عبد اللطیف رحمانی - احوال وآثار )کا تعارف کروانے جا رہا ہے اسکیلئے بھی جفا کش مصنف نے تین چاربرس انتھک محنت کی، ندوۃ العلماء کی دس سالوں کی سالانہ رودادوں کا از اول تا آخر مطالعہ کیا، مسلم یونیورسٹی گزٹ کی مفتی صاحب کے عہد کی فائلیں کھنگھالیں، مفتی صاحب کی تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابیں حاصل کیں، ان تمام مقامات کا سفر کیا جہاں مفتی صاحب نے تدریسی خدمات انجام دی تھیں یا جہاں انہیں مفتی صاحب کے کسی عزیز، کسی نواسی پرنواسی یا کسی شاگرد کے شاگرد کا پتہ چلا، ذوق جستجو بعض مقامات تک انہیں بار بار لے گیا، ملک و بیرون ملک میں مقیم اہل علم و تحقیق اور رشتہ داروں سے رابطے کئے، ندوۃ العلماء، مسلم یونیورسٹی، دار المصنفین، خانقاہ رحمانی مونگیر، اجمیر، گھوسی، دلمؤ، کانپور اور کاندھلہ کے سفر کئے، وہاں کی لائبریریوں اور شخصیات سے فائدہ اٹھایا، مفتی صاحب کے دور آخر کے شاگرد رشید مولانا سید یحی محدث مونگیری رح ہر مشکل مقام پر مصنف کیلئے خضر راہ بن کر سامنے آئے۔

کمال اختصار سے صاحب سوانح علامہ عبد اللطیف رحمانی کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں اور انکی علمی و تحقیقی اور تصنیفی و تدریسی خدمات کی کچھ جھلکیاں یہاں پیش کیجاتی ہیں تاکہ اندازہ ہوکہ مصنف نے اپنی تحقیق وتصنیف کیلیے کتنی اہم شخصیت کا انتخاب کیا ہے۔

اس کتاب کا تعلق اس شخصیت سے ہے جو متعدد پہلؤوں سے عظیم تھی، مفتی عبد اللطیف رحمانی کی پیدائش اترپردیش کے ضلع بجنور کے افضل گڑھ میں 1871 میں ہوئی، چند سالوں کے بعد والد صاحب اہل خانہ کے ساتھ سنبھل منتقل ہوگئے، اس طرح مفتی صاحب عبد اللطیف افضل گڑھی پھر سنبھلی ہوئے، لیکن مشہور مفتی عبد اللطیف رحمانی سے ہوئے، مفتی گویا نام کا جز ہوگیا کہ تحریک ندوۃ العلماء ( قیام 1892) نے جب دارالافتاء قائم کیا تو انہیں مفتی مقرر کیا گیا اور دارالعلوم ندوۃ العلماء ( افتتاح 1898) کے ان چار اولین اساتذہ میں ہیں جنکا انتخاب تحریک ندوہ العلماء کے روشن ضمیر بانیوں اور ذمہ داروں نے نو زائیدہ دارالعلوم میں تدریس و تربیت کیلیے کیا گیا تھا، وہ چار مدرسین یہ ہیں : مولانا حفیظ اللہ بندوی اعظمی (وفات 1943)، مولانا عبد الحی حسنی (1869-1923)، مولانا عبد الشکور فاروقی (1877-1962) اور مفتی عبد اللطیف رحمانی، مفتی صاحب پہلے مدرس پھر مدرس دوم اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ندوہ کے مدرس اول کے عہدہ پر فائز ہوئے، کچھ سالوں کے بعد ندوہ سے اپنے شیخ مولانا سید محمد علی مونگیری کے ساتھ مونگیر چلے گئے۔

مدرسہ صولتیہ مکۂ مکرمہ کے صدرا لمدرسین کے عہدہ پر

1324ہجری میں مفتی صاحب اپنے شیخ مولانا سید محمد علی مونگیری کے ساتھ سفر حج پر گئے تو مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے برادرزادے مولانا محمد سعید کیرانوی نے جو مدرسہ صولتیہ مکۂ مکرمہ کے اسوقت مہتمم تھے اصرار کرکے مفتی صاحب کو روک لیا، مولانا کیرانوی مولانا سید محمد علی مونگیری کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ مفتی صاحب کو صولتیہ کیلئے مکہ میں قیام کی اجازت دیدیں، صو لتیہ میں میں انکی تقرری بحیثیت صدر مدرس کے ہوئی، وہاں آپ نے معقولات و منقولات کی اونچی کتابیں پڑھائیں، مفتی صاحب کی تقرری کا تذکرہ روداد صولتیہ میں ایک خوشخبری اور ایک بڑی کامیابی کے طور پر کیا گیا ہے، حجاز سے واپسی کے بعد ایک بار پھر مفتی صاحب اپنے مرشد کی خدمت میں مونگیر آجاتے ہیں جہاں آٹھ نو سال تدریس اور قادیانیت کے خلاف تصنیف وتالیف اور قادیانی مبلغین سے مناظروں میں گزارتے ہیں،،

جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں

1919/20میں مفتی صاحب جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ دینیات میں استاد کی حیثیت سے بلائے جاتے ہیں اور چند برسوں کے بعد جب صدر شعبہ مولانا سید شیر علی حیدرآبادی (وفات 1936) ریٹائر ہوئے تو شعبہ کی صدارت آپ کو تفویض کی گئ، مفتی صاحب کی سبک دوشی تک مولانا مناظر احسن گیلانی نے آپکی سربراہی میں خدمت انجام دی، یہاں سے مفتی صاحب 1938 میں سبک دوش ہوئے۔

مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کی صدارت

مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کے صدر مولانا سلیمان اشرف بہاری کے انتقال سے 1939 میں جب کرسی صدارت خالی ہوئی تو یونیورسٹی کے ذمہ داروں کی نظر مفتی صاحب پر آکر ٹک گئ، آپنے اس پیشکش کو قبول کرلیا اور ایک دہائی تک ذمہ داریوں کو انجام دینے کے بعد 1949 میں اسی سال کی عمر میں سبک دوش ہوئے،،

مفتی صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، تمام علوم عقلیہ و نقلیہ پر استادانہ مہارت رکھتے تھے، علامہ سید سلیمان ندوی سمیت انکے تمام تلامذہ نے اسکی گوا ہی دی ہے، مشکل اور دقیق مباحث کی تفہیم و تدریس کا انہیں بڑا ملکہ حاصل تھا، سات دہائیوں تک انکا چشمۂ فیض جاری رہا، ہزاروں طلبہ اس چشمۂ صافی سے سیراب ہوئے۔

تلامذہ : ندوہ کے شاگردوں میں علامہ سید سلیمان ندوی، (1884-1953) مولانا ضیاء الحسن علوی (1888-1945)، سید ظہور احمد وحشی شاہ جہاں پوری(1889-1942), رکن الدین دانا سہسرامی (1887-1955)، سید عبد الغفور شرر استھانوی (1886-1959)، مولانا سید ابو ظفر ندوی ( 1889-1958)، مدرسہ صولتیہ کے شاگردوں میں مولانا سلیم کیرانوی (1895-1977)، شیخ سالم مکی (وفات 1953)،شیخ عیسی مکی (وفات 1946)، شیخ احمد قاری مکی (وفات 1959ھ)، شیخ حامد قاری مکی (وفات 1396ھ)، مونگیر کے تلامذہ میں سید لطف اللہ رحمانی ( وفات 1942)، مولانا فضل اللہ قادری مصنف فضل اللہ الصمد(1903-1979)، حیدرآباد کے تلامذہ میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ (1908-2002) اورڈاکٹر محمد غوث (1983) شامل ہیں،حیدر آباد کی طرح علیگڑھ میں مفتی صاحب سے پڑھنے والوں کی تعداد بہت ہے، ان دونوں جگہوں کے شاگرد بھی بڑے فاضل، باکمال اور دینی و عصری ثقافت کے جامع ہوئے لیکن عموما انکی خدمات اور سرگرمیوں کا دائرہ یونیوسٹیاں اور تصنیف و تالیف رہا،نیز بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے،یہاں نمایاں شاگردوں کے صرف نام بھی درج کرنے کی گنجائش نہیں ہے، سات دہائیوں تک مفتی صاحب پڑھاتے رہے، دلمؤ، کانپور، ندوہ العلماء، مونگیر، صولتیہ، حیدر آباد اور علی گڈھ میں تدریسی خدمات انجام دیں، مفتی صاحب معقولات و منقولات کے تمام علوم وفنون پوری دلچسپی سے پڑھاتے تھے، انکے آخری دور کے شاگرد ریاض الرحمان خاں شروانی حفید مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی لکھتے ہیں :انکی نگاہ بیک وقت قرآن، حدیث،فقہ، تاریخ،منطق اور کلام پر بہت گہری تھی،ان تمام علوم میں اس آخری د ور میں وہ اپنا ثانی مشکل ہی سے رکھتے تھے، مولانا عمر گھوسوی نے دلمؤ رائے بریلی میں (,وفات 1971) اوردارالعلوم دیوبند کے سابق صدرمفتی محمد سہول احمد بھاگلپوری ( وفات1948) نے کانپور میں پڑھا، مفتی صاحب نے علی گڈھ میں اپنی چاروں نواسیوں صالحہ بیگم (وفات1995بمقام کراچی )،ڈاکٹر رؤفہ اقبال مصنفہ،، عہد نبوی کے غزوات و سرایا،، (وفات 2013) ڈاکٹر حنیفہ مصنفہ،، عبد اللہ بن مسعود اور انکی فقہ،، ( وفات 2023بمقام علی گڈھ ) کوصرف ونحو، بلاغت منطق سے لیکر تفسیر وحدیث کی منتہی کتابیں بھی پڑھائیں، انکے علاوہ علیگڈھ میں دو اور لوگوں نے مفتی صاحب سے بھر پور فائدہ اٹھا یا , ریاض الرحمان خاں شر وانی (1924-2019) اور مولانا یحی ندوی (1930-2023)،جن چند شاگردوں کا یہاں ذکر کیا گیا ان میں زیادہ تر کے تذکرہ کیلئے مستقل کتاب نہیں تو کم ازکم ایک بھرپور مضمون ضرور چاھئے۔

بحیثیت مفتی

ندوۃ العلماء نے 1896میں جب دارالافتاء قائم کیا ( معلوم ہو کہ ندوہ نے ابھی اپنا دارالعلوم قائم نہیں کیا تھا ) تو مفتئ موصوف کو مفتی مقرر کیا گیا، اس وقت انکی عمر چھبیس سال تھی، مفتی صاحب کے فاضل سوانح نگار فیصل احمد بھٹکلی لکھتے ہیں :اتنی مؤقر علماء کی انجمن میں اور بڑے بڑے علماءکی موجودگی میں اس عہدۂ جلیلہ کیلئے مفتی عبد اللطیف صاحب کا انتخاب انکے علمی رسوخ، فقہی بصیرت اور کمال فضل کو بتاتا ہے،،، ناظم ندوۃ العلماء کی رپورٹوں میں استفتاآت اور جوابات کی تعداد بتاتےہوئےدارالافتاء کی کارکردگی کو سراہا گیا‌ ہے، فتاوی رشیدیہ میں ایک فتوی کے ضمن میں مفتی صاحب کا تائیدی فتوی نقل کیا گیا ہے، اس پر مفتی صاحب کا دستخط اور ندوۃ العلماء کی مہر لگی ہوئی ہے اور تاریخ ہے ٢٦/جمادی الثانی ١٣١٤ ھ، ایک اور فتوی پر جسکا تعلق جمعہ فی القری سے ہے اورجسے مشہور محدث اور شاعر و ناقد علامہ شوق نیموی عظیم آبادی نے تحریر کیا تھا مفتی صاحب نے مدلل انداز میں تائیدی فتوی لکھا، اس فتوی پر مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا احمد رضا خاں بریلوی،مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا احمد حسن کانپوری،مولانا فاروق چڑیا کوٹی اور شاہ سلیمان پھلواروی جیسے اہل علم و افتاء نے دلائل کے ساتھ تصدیقی فتوے تحریرکئے، مولانا اشرف علی تھانوی نے القول البدیع فی اشتراط المصر للتجمیع میں اس پورے فتوی کو نقل کیا ہے۔

تصنیف و تالیف کے میدان میں

مفتی صاحب ہر فن مولی تھے، قرآن و حدیث، فقہ، منطق و فلسفہ، اصول حدیث، اسماء رجال،کلام، مناظرہ اور صرف و نحو جیسے علوم آلیہ و علوم عالیہ میں استادانہ مہارت رکھتے تھے، تدریس و تفہیم کی بے پناہ صلاحیت تھی،‌ تصنیف و تالیف کا بھی اچھا ذوق تھا، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں انکی تصنیفات ہیں، صرف، نحو، کلام، منطق، رد قادیانیت، سیرت و سوانح، مشکلات القرآن، شرح حدیث اور تدوین قرآن پر محققانہ کتابین انہوں نے تصنیف کیں، انکی ایک معرکہ الآراء تصنیف تاریخ القرآن ہے، پہلی مرتبہ یہ آج سے ایک صدی پہلے خانقاہ رحمانی مونگیر سے چھپی تھی، پھر نصف صدی کے بعد شاہ ابو الخیر اکیڈمی دہلی سے چھپی، اکیڈمی نے دوسرا ایڈیشن بھی چھاپا ہے، اس نے اسکا انگریزی ترجمہ بھی چھاپا ہے، یہ انگریزی ترجمہ عبد الرحیم قدوائ کے قلم سے ہے، مولانا ابو الکلام آزاد اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں :محترم مصنف کو اسلامی علوم پر ایسا عبور ہیکہ عالم اسلام کے علماء جدید بھی شائد نہ سمجھتے ہوں،، ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی لکھتے ہیں : علامہ حمید الدین فراہی کی دلائل النظام ا ور علامہ عبد اللطیف رحمانی کی تاریخ القرآن دو ایسی کتابیں ہیں جنکی مثیل پورے اسلامی لٹریچر میں مفقود ہے ( مشاھیر قرآنیات ص 46) -

شرح ترمذی

الشرح اللطیف علی جامع الترمذی الشریف کے نام سے مفتی صاحب نے حیدرآباد کے زمانۂ قیام میں ترمذی کی مکمل شرح لکھی لیکن آجتک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکی، اس شرح کے سلسلہ میں علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید اور مدون و مرتب انوار الباری مولانا احمد رضا بجنوری لکھتے ہیں : مخدوم و محترم حضرت مولانا مفتی محمد فضل اللہ صاحب محشی الادب المفرد للبخاری نے نہایت عظیم الشان اعانت یہ فرمائی کہ حضرت المحدث العلام مولانا مفتی عبد اللطیف صاحب رحمانی ( مصنف تذکرۂ اعظم وغیرہ ) کی شرح ترمذی شریف قلمی استفادہ کیلئے عنایت فرمائی، حضرت مفتی صاحب نے ترمذی شریف پر نہایت جامع و مختصر تعلیقات محدثانہ و محققانہ طرز سے تحریر فرمادی ہیں، دارالعلوم دیوبند جیسے علمی اداروں کا فرض ہیکہ ایسی گراں قدر تصانیف کی اشاعت کریں (انوار الباری ج اول، ص:202)۔

محدث کبیر مولانا حبیب الرحمان اعظمی کی رائے تھی کہ یہ شرح پہلے بر صغیر میں چھپ جائے، پھر عالم عربی میں چھپ جائیگی، مولانا اعظمی نے کسی مکتبہ والے سے بات بھی کرلی تھی، لیکن مفتی صاحب کے شاگرد اور داماد مولانا فضل اللہ قادری اور مولانا علی میاں ندوی کی رائے ہوئی کہ عالم عربی کے کسی مکتبہ سے چھپے،‌ مولانا علی میاں ندوی کے مشورہ سے مولانا فضل اللہ صاحب نے حجاز کے ایک سفر میں شرح کا مبیضہ بنفس ‌نفیس شاہ فیصل کے ہاتھ میں دیا، انہوں نے دار الافتاء کے حوالے کر دیا، دار الافتاء نے اشاعت کی منظوری نہیں دی، شائد اسلئے کہ اس شرح میں عموما حنفی مسلک کیلئے بھی دلائل فراہم کئے گئے ہیں، بعد میں مولانا فضل اللہ صاحب نے ھندوستان میں ایک مکتبہ والے کو دیا لیکن طباعت سے پہلے مولانا فضل اللہ صاحب کا انتقال ہوگیا، مولانا فیصل احمد ندوی کی کوشش کامیاب ہوئی اور انہوں نے اس شرح کو ڈھونڈ نکالا، اب خبر ملی ہیکہ ایک صاحب علم اور صاحب تصانیف محدث کے پاس اسکا ایک حصہ پہنچ گیا ہے، اب امید کرنی چاھئے کہ بہت جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر یہ شرح لطیف اہل علم اور طالبان علوم نبوت تک پہنچ جائیگی، مفتی صاحب خالص علمی اور تحقیقی مزاج کے آدمی تھے، مختلف موضوعات پر مولانا نے قلم اٹھایا اور داد تحقیق دی، قابل ذکر بات یہ ہیکہ انکی زبان بڑی سلیس رواں اور اسلوب موضوع کے مطابق ہے، یہ زبان آج بھی نامانوس نہیں ہوئی ہے، جہانتک عربی کا تعلق ہے تو ربا سے متعلق انکا ایک عربی مضمون علامہ رشید رضا مصری نے المنار میں دوقسطوں میں چھاپا، علامہ نے مفتی صاحب کی قوت استدلال و استنباط اور شان تحقیق و تفقہ کا اعتراف کیا ہے، اس مضمون میں قرض میں ربا کے تحقق کا انکار کرنے والوں کے جتنے دلائل ہوسکتے تھے وہ سب مفتی صاحب نے اس میں سلیقہ سے جمع کردئیے ہیں، اور برصغیر کے علاوہ عالم اسلام کے تمام اہل علم اور ارباب افتاء کو دعوت دی کہ دلائل و شواھد سے اس بابت اپنی رائے کا اظہار کریں، صاحب اعلاء السنن مولانا ظفر احمد عثمانی، علامہ رشید رضا مصری اور شیخ عبد الرحمان معلمی یمنی جیسے علماء کبار نے مفصل جوابات تحریر کئے کہ قرض میں بھی ربا کا تحقق ہوتا ہے، مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ سید سلیمان ندوی، علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرہم نے اس مؤخر الذکر رائے کی تائید وتوثیق کی۔

مفتی عبد اللطیف - احوال و آثار کے مشکل پسند مصنف مولانا فیصل احمد بھٹکلی اہل علم کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انکی محنت و جانفشانی کی بدولت ایک باکمال علمی شخصیت جو گوشۂ گمنامی میں چلی گئ تھی روشنی میں آگئ اور انکا عظیم علمی کارنامہ الشرح اللطیف علی جامع الترمذی الشریف جس کا سراغ بھی نہیں مل پا رہا تھا امید ہے بہت جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر اہل علم کے دلوں کو سرور اور آنکھوں کو نور بخشے گی، مصنف کے غور وفکر اور تحقیق و مطالعہ نے دسیوں تواریخ و سنین کی تصحیح اور تضادات و تناقضات میں مطابقت و موافقت پیدا کردی، پوری کتاب قیمتی معلومات، بیش بہا افادات اور اچھوتی تحقیقات سے مالا مال ہے، غیر ضروری بلکہ بعض جگہ ضروری تفصیل سے بھی احتراز کیا گیا ہے، مصنف چاہتے تو چھ سو بتیس صفحات کی اس کتاب کی ضخامت دوگنی تین گنی کرسکتے تھے، پوری کتاب مغز ہی مغز ہے، پروف ریڈنگ بڑی محنت سے کی گئ ہے، طباعت اور کاغذ اعلی ہے نہ ادنی، شائد خیر الا مور ا و سطہا کا خیال رکھا گیا ہے، کتاب مولانا سید بلال عبد الحی حسنی مد ظلہ ناظم ندوۃ العلماء کے جامع مقدمہ سے شروع ہوتی ہے، اسکے بعد خود مصنف کا مقدمہ ہے جس میں ان دشواریوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مصنف کو دوران تالیف پیش آئیں، خلاصہ یہ کہ یہ تصنیف لطیف اہل ذوق کیلیے ایک گراں قدر تحفہ ہے،،،
آفتاب عالم ندوی جھارکھنڈ، موبائل: 7004464267

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے