نیا سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے؟
مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ
نیا سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے، رات وہی، دن وہی، زمین وہی، آسمان وہی، نہ سورج میں کوئی تبدیلی، نہ چاند میں کوئی تغیر، نہ ستاروں کی جگمگاہٹ میں کوئی کمی، نہ پہاڑوں میں کوئی اثر نہ صحراء و بیاباں میں کوئی شور، وہی صبح کا سناٹا، وہی دن کی چہل پہل، وہی شام کا نظارہ، پھر رات کی خاموشی۔
نیا سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے ؟
وہی ظالم حکمران، وہی خون کے پیاسے بھیڑئے، وہی قاتل و سفاک لوگ، وہی حق تلفی کرنے والے، آبرو لوٹنے والے، سر عام بہن بیٹیوں کی عزت سے کھیلنے والے، نفرت کے پجاری، انسانوں کو انسانوں سے لڑانے والے، مذہب کے نام پر لوگوں میں زہر گھولنے والے، امن سوز، الھڑ مچانے والے،دوسروں کا حق چھین کر عیش کرنے والے۔
نیا سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے ؟
وہی غریبی، وہی مفلسی، وہی امیروں کا سکون، وہی درد ٹھوکر کھانے والے لوگ، غربت کے مارے خود کی جان گنوانے والے، قرضوں میں ڈوبے حسین زنگی کو گدلا کرنے والے، بھوک سے بلکتے بچے، پانی کیلئے ترستے لوگ، عزت کی بھیک مانگتی ہوئی بہن بیٹاں، مفلسی کے مارے رات دن تپنے والے مزدور، غربت کے مارے ٹھنڈی میں چوک چوراہوں پر، ٹرین کی پٹریوں کے کنارے، کھلے آسمان کے نیچے ٹھٹھرتے لوگ،
نیا سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے ؟
وہی مرض، وہی ہسپتال، سکون غارت ہوتی بیماری، ہسپتالوں کے بیڈ میں زندگی کے آیام گننے والے، گھٹنے کے درد سے پریشان لوگ، آنکھوں کی بینائی سے جھوجھنے والے، گردہ کی مرض میں مبتلا افراد، علاج کے واسطے زمین جائداد فروخت کرنے والے کسان، دوائیوں کی بوجھ سے ہاتھ میں جھولا تھامے دربدر ہونے والے لاچار، بیٹوں کی شادی کی وجہ سے رات بھر بے چین رہنے والے باپ،
نیا سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے ؟
وہی مسجدیں ویران، قرآن الماریوں کی زینت، وہی سنتوں کی پامالی، آذان سن کر دور بھاگنے والے مسلمان، اسلامی تعلیمات سے منہ موڑنے والے جوان، مغربیت کے دلدادہ، حیا سوز، فاحشات کی طرف میلان، ہر عمل میں ناراضئ یزداں مول لینے والے، گناہوں اور خطاؤں کے سمند میں ڈبکی لگانے والے، مطلب پرست لوگ، دین سے غفلت برتنے والے، وہی من مانی زندگی بسر کرنے والے۔
نیا سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے ؟
کیسے تیری خوشی مناؤں، تو تو ایک ڈھلتی چھاؤں ہے سایہ کرکے گزر جانا ہے، کس منہ سے خوشی مناؤں تو نے تو ایک سال عمر حیات کی کم کردیا، اب تو تو لاکھ جتن کے باوجود حاصل نہ ہونے والا، بتا کیسے خوشی مناؤں، نہ انسانوں کا رویہ بدلا، نہ حکمرانوں کے ستم کی داستان رکی، نہ ہی اپنوں سے مامون ہوا، وہی تپش وہی دھوپ، وہی کڑاکے کی سردی میں ٹھٹھرتے غریب، نہ موسم کا مزاج بدلا، نہ صر صر نے رحم دکھائی، نہ ہی سمندروں نے ڈبونا چھوڑا، نہ ہی بھیڑوں کے دانت ٹوٹے۔
نیا سال بتا کیسے خوشی مناؤں؟
0 تبصرے