Ticker

6/recent/ticker-posts

مولانا مدنی کا بیان جبر کے خلاف ایک طاقتور آواز

مولانا مدنی کا بیان جبر کے خلاف ایک طاقتور آواز

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آفتاب ندوی جھارکھنڈ

از----- آفتاب ندوی جھارکھنڈ

ابھی نام نہاد نیشنل میڈیا اور اسکے ضمیر فروش اور بے ایمان اینکر مولانا محمود مدنی کے بھوپال بیان کو لیکر سر پر آسمان کو اٹھائے ہوئے ہیں، بیان کے کچھ ٹکڑوں کو پیش کرکے ذہنوں میں نفرت بھری جارہی ہے، مولا نا مدنی کو وطن دوستی اور ملک سے محبت و تعلق کا پاٹھ پڑھایا جارہا ہے،اور یہ پاٹھ انہیں پڑھایا جا رہا ہے جنکے پرکھوں نے وطن کیلئے وہ قربانیاں دی ہیں جنکا یہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔


یہ گودی میڈیا کیا جانے کہ مسلم علماء نے آ زادی کیلیے جان و مال کی کیسی قربانیاں پیش کی ہیں، سامراج نے مسلمانوں پر مظالم کے کیسے پہاڑ توڑے ہیں، مسلم دشمن اور نفرت کے یہ سوداگر کیا جانیں کہ انتقام میں شہیدوں اور مجاہدین کی قبروں پر ہل چلوا دئیے گئے، آج ان مجاہدین کی اولاد جب ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے، نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہے،‌قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مسجدوں، مقبروں اور گھروں کے انہدام و مسماری کو غلط اور ظلم کہ رہی ہے تو انہیں ملک کا غدار، نفرت اور انتشار پسند کہا جا رہا ہے، یہ میڈیا والے تو بہت زمانے سے ظلم کو انصاف، نفرت کو پیار اور ملک دشمنی کو وطن پرستی کہ رہے ہیں، یہ بیمان میڈیا نہ موب لنچنک کے خلاف کبھی زبان کھولتا ہے، نہ مسلمانوں کے گھروں کے ڈھائے جانے پر کچھ بولتا ہے، منی پورفسادات اور ظلم و بربریت پر چپی سادہ لینے والا یہ میڈیا اگر مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کر رہا ہے تو کوئی حیرانی کی بات نہیں، یہ انکے فکرو تربیت اور انکے ذاتی مفاد کے عین مطابق ہے، یہ اسی کی روٹی بھی کھاتے ہیں اور اپنے گمان کے مطابق بھگوان کی خوشی بھی حاصل کرتے ہیں لیکن تعجب تو ان مولویوں اور ان مسلم دانشوروں پر ہے جو سنگھ اور بی جے پی کے ورکروں اور انکے آئی ٹی سیل سے بھی بڑھ کر دریدہ دہنی اور بکواس کر رہے ہیں، نہ سینیر مدنی نے کوئی غلط بات کہی، نہ جونیر مدنی نے کوئ غیر معقول بیان دیا، مولانا محمود مدنی کی کونسی بات ملک و ملت کے مفادکے خلاف ہے، کیا پولیس اور سرکاری مشینریوں کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ اعلانیہ بھید بھاؤ کا معاملہ نہیں ہورہا ہے، صدیوں پرانی مذہبی مقامات کے نام و نشان کو کیا بغیر کسی عدالتی کاروائی کے مٹا نہیں دیا گیا، باقاعدہ قانون بنا ہوا ہیکہ پندرہ اگست 1947 میں جو مزارات، مسجد اور مندر جس حالت میں تھے اسی حالت میں باقی رکھے جائیں گے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، نہ اسکیلئے عدالت میں کوئی کیس درج ہوگا، اس کے باوجود سپریم کورٹ کی منظور ی سے متھرا اور گیان واپی کے کیس عدالت میں زیر سماعت ہیں، حالت یہ ہوگئ ہیکہ ہماری پانچ منٹ کی خاموش نماز بھی جرم بن گئ ہے، انتہا یہ ہیکہ ہم اپنے محبوب آقا، سر ور دو عالم، جان و دل سے پیارے رسول کو سر عام آقا نہیں کہ سکتے، اس عالی مقام اور پوری انسانیت کے محسن سے تعلق کا اظہار نہیں کرسکتے !!! جبکہ دوسرے لوگوں کے ذریعہ بغیر کسی پرمیشن کے آئے دن گھنٹوں روڈ جام کیا جاتا ہے، کاروائی کے بجائے ان پر پھولوں کی بارش کی جاتی ہے، بڑے بڑے مہنت اور پنڈے آئے دن زہر افشانی کرتےہیں، اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں، قرآن اور مقدس شخصیات اور ماؤوں اور بہنوں کو گالیاں دی جاتی ہیں، لیکن کاروائی تو دور کی بات ہے، ایف آئی آر تک درج نہیں کیا جاتا، مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی دونوں ملت اور ملک کے کمزور طبقوں کی طرف سے شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں، خوف، ڈر اور گھٹن کے اس ماحول میں ان کا یہ جرأت مندانہ بیان تاریکی میں ایک روشنی ہے، ملت اور تمام مظلوم اور دبے کچلے طبقات کواس سے سہارا ملا ہے، تعلیم اور معیشت میں تو ہم بہت پہلے پچھلی صف میں پہنچ چکے تھے، اب ہم سے ہمارا دین، ہماری شناخت یہانتک کہ نبی کا جاہ وجلال بھی چھینا جارہا ہے، ہر کمیونٹی کو دستور میں حق دیا گیا ہیکہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے، پر امن طریقہ پر دھرم کی تبلیغ کی بھی ملک کا دستور اجازت دیتا ہے،، لیکن مسلمانوں سے یہ حق چھینا جارہا ہے، اترا کھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کر دیا گیا ہے، لیکن آدی واسیوں کو اس سے الگ رکھا گیا ہے، اب طلاق حسن کا معاملہ عدالت پہنچ گیا ہے، آسام میں دوسری شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، اسی ریاست میں گھر کے اندر قرآن پڑھانے والے ایک مولانا صاحب کو گرفتار کرلیا جاتا ہے، کسی بھی میدان میں مسلمانوں کی ترقی قابل قبول نہیں، یہاںتک کہ تعلیمی میدان میں بھی ہماری پیش رفت اچھی نہیں لگ رہی ہے، تعلیمی اداروں اور انکے فاؤنڈر اور انتظامیہ کے خلاف سازشیں رچ کر رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہیکہ تمام قائدین ملت، تنظیموں کے تمام ذمہ داران اور تمام مسالک و مدارس کے اربابِ حل و عقد سر جوڑ کر بیٹھیں اور فکرو ‌نظر کے ہر قسم کے اختلاف سے اوپر اٹھکر قوم و ملک کو اس مصیبت سے بچانے کیلئے کوئی لائحۂ عمل، کوئی تدبیر سوچیں،،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے