Ticker

6/recent/ticker-posts

نسبت و عشق کے اسرار : قرآن و حدیث میں کچھ اشارے عالموں کے لیے ہیں

نسبت و عشق کے اسرار : کامران غنی صبا

نسبت بھی کیا چیز ہے. ایک معمولی سا لکڑی کا ٹکڑا آپ چاہیں تو جلا دیں، کوڑے میں ڈال دیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وہی لکڑی کا ٹکڑا اگر قرآن پاک کی نسبت کی وجہ سے "رحل" کہلانے لگ جائے تو آپ اسے جلانے یا کوڑے میں ڈالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے. ایسا ہی کچھ معاملہ جزدان کا ہے. قرآن سے مس ہونے کے بعد آپ اس کپڑے سے غلاظت صاف نہیں کر سکتے. ایسا نہیں ہے کہ لکڑی یا کپڑے کا ٹکڑا قرآن پاک سے مس ہو کر قرآن پاک بن گیا. بس ایک مقدس نسبت نے اس کی اہمیت میں اضافہ کر دیا. بات حجر اسود کی ہو، غلاف خانہ کعبہ کی یا آپ کا تصورِ تقدس جہاں تک جا سکتا ہو.... بات ہر جگہ نسبت کی ہی ہے. نسبت نہ ہو تو غلاف خانہ کعبہ ایک کپڑے سے زیادہ کچھ نہیں اور حجر اسود پتھر سے زیادہ کچھ نہیں۔
قرآن و حدیث میں کچھ اشارے عالموں کے لیے ہیں.... کچھ عاشقوں کے لیے. قرآن نے بتا دیا کہ قرآن پاک سے نسبت کی وجہ سے ایک رات ہزار راتوں سے افضل ہو جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ جس ذات اقدس پر اس کتاب مقدس کا نزول ہوا اس ذات کی عظمت کی انتہا کیا ہوگی. اور جس ساعتِ مقدس میں اس ذات عظیم کی اس دنیا میں تشریف آوری ہوئی اس دن اور ساعت کی تقدیس کی انتہا کیا ہوگی؟

بہت ساری باتیں اسرار کی ہوتی ہیں. عشق کے اسرار کو دلائل کی نہیں کیفیات کی ضرورت ہوتی ہے. جسے کیفیت عشق حاصل ہو گئی سمجھیے اسے اسرار تک رسائی حاصل ہو گئی. عشق میں اظہار اور نمود و نمائش کا کوئی گزر نہیں. اسی لیے کچھ خاص مواقع گرچہ بہت خاص ہیں لیکن انہیں عام نہیں کیا گیا. انہیں عید نہیں کہا گیا. اب اگر کوئی اس خاص کو عام کرنے پر بضد ہو، رازِ عشق کو زبردستی منوانا چاہے تو پھر عشق رہا ہی کہاں؟ عشق میں کوئی زور زبردستی نہیں.... کوئی دلیل و حجت نہیں..... کوئی نمود و نمائش نہیں. عشق کا حاصل محبوب کی بس ایک نظر التفات ہے. عشق والوں کو دنیا سے کیا غرض. بحث و مباحثہ عاشقوں کا شیوہ نہیں..... ہزارہا دلیل موجود ہونے کے باوجود عشق خاموش رہتا ہے..... عقل چیختی رہتی ہے....

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
بلاشبہ علم کی اپنی اہمیت ہے. لیکن علم کیفیت پیدا نہیں کر سکتا. کیفیت عشق سے ہی ممکن ہے. اسی لیے علم والوں کے یہاں کیفیت کا فقدان ملتا ہے. یہ آپ کو صوفیوں کے درویشوں کے یہاں ملے گی. علم کہے گا اچھا لباس زیب تن کر لو... اچھا کھانا کھاؤ... شان و شوکت کی زندگی گزارنے میں کوئی گناہ نہیں.... بلاشبہ علم بھی سچ کہتا ہے لیکن عشق کا زاویہ نظر کچھ اور ہی ہے. وہ کہتا ہے کہ محبوب نے کبھی شاہانہ لباس نہیں پہنا، شان و شوکت کی زندگی نہیں گزاری.... آسودہ ہو کر نہیں کھایا.... اس لیے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم بھی محبوب جیسی زندگی گزاریں..... یہ سب نسبت کی باتیں ہیں.... عشق کی باتیں ہیں... دلیل و حجت کی نہیں۔
...................
کامران غنی صبا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے