محبوب کی یاد میں محبت بھری غزلیں | محبت بھری اردو شاعری
غزل
آفتاب عالم قریشی
نہ جاگے ہیں نہ ہم سوئے ہوئے ہیں
بس اُن کی یاد میں کھوئے ہوئے ہیں
ذرا دیکھو مری نیندیں اُڑا کر
وہ کیسے چین سے سوئے ہوئے ہیں
جفا کی فصل چونکہ کاٹنی تھی
وفا کے بِیج یوں بوئے ہُوئے ہیں
تو کیا یہ بات کوئی غیر اہم ہے
جو اپنا بوجھ ہم ڈھوئے ہوئے ہیں
کسی کی نیند سے بوجھل تھی آنکھیں
ہمیں لگتا تھا وہ روئے ہوئے ہیں
بہا کر اشکِ غم آنکھوں سے اپنی
جگر کے داغ ہم دھوئے ہوئے ہیں
زمیں تو پھر، عذابوں میں گھِری ہے
فلک کس بات پر روئے ہوئے ہیں
وطن حاصل کِیا جن کے بڑوں نے
وہی فُٹ پاتھ پر سوئے ہوئے ہیں
ہمیں کب آفتاب اپنی خبر ہے
ہم اپنی کھوج میں کھوئے ہوئے ہیں
موجودہ حالات پر اردو شاعری | حالاتِ حاضرہ پر غزل
غزل
آفتاب عالم قریشی
جذبوں کی کھوکھلی کہیں بنیاد ہو نہ جائے
پیدا جہاں میں پھر کوئی اُفتاد ہو نہ جائے
ہر طائرِ چمن کو ہی لاحق یہ خوف ہے
گلشن کا باغبان ہی صیّاد ہو نہ جائے
چُھٹی نہ پاؤ گے کبھی مکتب سےعشق کے
مانگو دعا کہ تم کو سبق یاد ہو نہ جائے
ہے خُوگرانِ عدل کو دھڑکا لگا ہوا
ایوانِ عدل مائلِ بیداد ہو نہ جائے
اہلِ زمیں کا گر تُو مددگار ہے یہاں
پِھر آسماں سے کیوں تری امداد ہو نہ جائے
اِس میں جنابِ قیس کی توقیر ہے بہت
صحرا میں جا کے دل مرا آباد ہو نہ جائے
سچ کے لیے جو اُٹھّے، اُس آواز کو سلام
خاموش میرے شہر کی فریاد ہو نہ جائے
عزت نصیب ہوگی، مگر اپنے وقت پر
انسان اپنے طٙور پہ اُستاد ہو نہ جائے
گلشن پہ ظلمتوں کا تسلط ہے آفتاب
پِھر سے نیا ستم کوئی ایجاد ہو نہ جائے
اردو غزل : ڈال کر بانہوں میں بانہیں مسکرائے خواب میں
آفتاب عالم قریشی
ڈال کر بانہوں میں بانہیں مسکرائے خواب میں
وصل کے لمحات بھی آئے، تو آئے خواب میں
خواب میں جب ہم ملے، اک دوسرے میں کھو گئے
اور ٹھنڈی ہو گئی دونوں کی چائے خواب میں
اس لیے تو آہ میری، اُس تلک جاتی نہیں
میں نے اپنے دکھ ہمیشہ ہی سنائے خواب میں
سج سنوٙر کر نیند کی آغوش میں جاتا ہوں روز
سوچتا ہوں آج ہی، شاید وہ آئے خواب میں
اس کی اب تعبیر یہ ہوگی کہ وہ لوٹ آئے گا
اُس نے بازو میری جانب تھے بڑھائے خواب میں
ناز نیندوں کے اُٹھاتا ہوں فقط اس واسطے
وہ کبھی شانوں پہ میرے سر ٹِکائے خواب میں
کاش یہ منظر حقیقت میں بدل جائے کبھی
میری جانب دیکھ کر وہ مسکرائے خواب میں
خواب کے اندر ہوا تھا میرا اور اس کا ملن
اور ملن کے گیت بھی ہم نے تھے گاۓ خواب میں
عمر کی ساری تھکن جاتی رہی یوں آفتاب
دید کے دو جام جب اُس نے پلائے خواب میں
0 تبصرے