اگر انسان کہالت کو خیر باد کہہ دیگا تو وہ زندگی میں کبھی بھی ناکام و نامراد نہیں ہوگا
"کہالت" تحریر؛- عرفان بشیر اڈیجن شوپیان!
اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات کادرجہ عطا کیا ہے۔دنیا میں جس قدر بھی مخلوقات موجود ہیں ان میں انسان کا درجہ سب سے بلند اور برتر ہے۔ دنیا میں اگرچہ اللہ تعالٰی ہی سب کو رزق دینے والا ہے تاہم انسان کو اللہ تعالٰی نے ایسے اوصاف اور ایسے گن عطا کئے ہوئے ہیں کہ دیگر مخلوقات اسکے تابع ہیں اور جو آرام و آسائش انسان کو میسر ہے دیگر مخلوق اسے محروم ہیں اور انسان کی طرف اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
مذہب کی ضرورت و اہمیت
جہاں اللہ تعالٰی نے انسان کو تمام آسائشیں اور سامان میسر رکھے ہیں وہیں انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کردی گئی ہیں جن کو انجام دیکر ہی وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ایسا کرنے سے ایک تو وہ حق بندگی ادا کرسکتا ہے دوسرا وہ اوروں کے کام آکرحقوق العباد کے اصلی معنیٰ کو سمجھکر اسے اپنا سکے تاکہ دنیا اور آخرت میں وہ سرخرو ہوکر کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔
اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ہمارے اسلاف اور ہمارے درمیان اسمان و زمین کا فرق ہے جہاں وہ رات دن جفاکشی کرکے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی میسر کرتے تھے وہیں وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہوکر بندہ گی کا حق بھی ادا کرتے تھے اور اوروں کے کام آنے مین اپنی عافیت سمجھتے تھے لیکن آگر ہم اسی اثناء اپنے گریبان پر نظر ڈالیں گے تو صاف عیاں ہے کہ ہمیں زندگی گزارنے کے لیے ہر کوئی چیز آسانی سے میسر ہیے ہم زندگی کے ہر پہلو کو صرف خوشی اور مسرت کے انداز سے گزارنا چاہتے ہیں اور حق بندگی اور اطاعت رب اور بندوں کے ساتھ صلح رحمی اور حسن سلوک سے دامن چرانے میں اپنی خیریت سمجھتے ہیں جو قطعی طور ہماری اصلیت اور افادیت کے عین برعکس ہے کیونکہ جس غرض و غایت کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اور جس مقصد کے لئے اسے دنیا میں لایا گیا ہے جب وہ اسے منہ موڑ کر عیش و عشرت کی زندگی کو کو ہی ترجیح دیگا تو وہ پھر ایک سست اور کاہل انسان ہی کہلائگا اور تب وہ اس مرتبہ کو کسی بھی صورت میں حاصل نہیں کرپائگا جسے وہ اشرف المخلوقات کہلایگا۔
دیکھا گیا ہیے کہ انسان کو سخت محنت ہی اعلیٰ مقام دلا سکتی ہے چاہیے اسمیں وقت کے داؤ و پیچ ضرور اسے روڈے اٹکائیں لیکن بالآخر وہ اسمیں کامیاب و کامران ہوکر اپنے منزل کو پاہی لیتا ہیے لیکن جب انسان احساس کم تری کا شکار ہوکر سخت محنت اور جستجو کے بجاےء عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے پلنگوں پر محو نیند ہوکر ارام و آسائش کو اپنا لیتا تبھی وہ ناکامیوں سے دوچار ہوکر نہ پھر اپنے اور نہ دوسروں کے کام آتا اور پھر وہ صرف اور صرف ناکام و نامراد ہوکر زندگی سے بیزار ہوتا ہیے اور اسطرح وہ زندگی کے اصلی مقصد کو پورا نہیں کرپاتا ۔یہ ناکامیوں اور نامرادیوں کا تصور انسان کو صرف اور صرف کم ہمتی اور کاہلی کی وجہ سے ہی سامنے آتا ہے لہزا آگر انسان کہالت کے اس نامرادانہ پہلو کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے خیر باد کہہ دیگا تو وہ زندگی میں کبھی بھی ناکام و نامراد نہیں ہوگا۔
0 تبصرے