Ticker

6/recent/ticker-posts

مرزا غالب کی غزل : نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا، کا نئی غزل سے موازنہ

مرزا غالب کی غزل : نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا، کا موازنہ نئی غزل سے

یہاں پر مرزا غالب کی غزل : نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا، کا موازنہ و مناظرہ ایک نئی غزل کے ساتھ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ پہلے نئی غزل پیش کی گئی ہے اس کے بعد مرزا غالب کی غزل بھی یہاں پر درج کی گئی ہے۔ آپ تمام حضرات سے امید ہے کی مرزا غالب کی غزل اور اس نئے شاعر کی غزل كو پڑھنے کے بعد اس پر اپنا اپنا اظہار خیال کریں گے ۔ اس سے متعلقہ رائے دینے کے لیے نیچے کمنٹ باکس میں اپنا میسج ٹائپ کریں۔
اگر آپ حضرات بھی غالب کی اس زمین پر غزلیں لکھنا چاہتے ہیں تو تحریر کر کے ہمیں بھیج سکتے ہیں۔ ہم ان غزلوں کو اس ویب سائٹ پر ضرور لگائیں گے۔اس کے علاوہ آپ اپنی دیگر ادبی، علمی، فنی، مذہبی اور ہر طرح کی تخلیقات بھیج سکتے ہیں۔

مرزا غالب غزل
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبہِ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہِ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر ک

مرزا غالب کی زمین میں غزل


غزل
آج کے حالات سب، جب کھیل ہیں تقدیر کا !!
سیٹھ جی کیا فائیدہ پھر پند کا ، تقریر کا !؟!

فا ئدہ کیا شہرِ فن میں آپ کی تقریر کا !؟!
جب زبان سے کہہ دیا، سب کھیل ہے تقدیر کا !!

اک مرقع تھا کبھی یہ عیش کی تحریر کا !!
رہ گیا ہے اب سراپا درد کی تصویرکا !!

ریشمی ہے پیرہن اس پیکرِ تصویر کا !!
کیا بتاؤں وصف میں،عصرِ رواں کی ہیر کا ؟!

اک مرقع تھا کبھی یہ قبح کی تحریر کا !!
بن گیا ہے اب سراپاحسن کی تصویر کا !!

غزل
برگِ آوارہ مجھےسب لوگ کیوں کہنے لگے !؟
میں بھی اک انسان ہوں ٹھکرا یا ہوا تقدیر کا !!

تیرگی سے روشنی ہاری نہیں تا زندگی !!
دھند بھی بس ایک پردہ ہے رخ ِتنویر کا !!

ان سے ہر اک جذبہءتخریب کھا تا ہے شکست !!
جن کے دل میں بس گیا ہے حوصلہ تعمیر کا !!

کہتی ہیں ظالم لکیریں کیا تمہارے ہاتھوں کی !؟!
بیٹھ کر چھیڑا کرو بس قصہ رانجھا ہیر کا !!؟

ایک سکے کی طرح ہے یہ ہماری زندگی !!
آپ نے دیکھا ہے بس اک رخ ہی اس تصویر کا !!

دل ہوا زخمی تو لذت پا رہا ہوں زخموں کی !!
یہ اثر ہے میرے دلبر کی نظر کے تیر کا !!

میں اسیرِ عاشقی ہوں، بندہءالفت ہوں میں !!
ہے مرے اطراف حلقہ پیار کی زنجیر کا !!

شہر میں لاشیں پڑی ہیں ایکتا کی، امن کی !!؟
کیا نتیجا یہ ہے اپنے خواب کی تعبیر کا ؟!!

بےوفائی یہ کرےگی، دور/ ختم یہ ہو جائے گی !!
سیٹھ جی !،پھر فائدہ کیا آپ کی جاگیر کا !؟!

غمگیں لیلا اور مجنوں، ہوتا ہے کیوں قتل و خوں !؟
حال بد تر ہے ہماری وادیء کشمیر کا !!

اس کے سر الزام دھرنے سے تو بہتر ہے یہی !
خود کو دوں الزام یا شکوہ کروں تقدیر کا !!

ہیں جمالی بھی، جلالی بھی، مرے دلبر کے گال !!
سرخیء رخسار جیسے سیب ہو کشمیر کا !!

آپ کی آنکھوں کے بارے میں کہوں میں کیا؟، جناب !
آ نکھیں جیسے کر رہی ہوں فیصلہ تقدیر کا !!

پہلے تو یہ تھا " مدھو بالا " کے مکھڑے کی طرح !!
ہا ئے! کیوں بدلا ہے چہرہ وادیء کشمیر کا ؟!

ہوتا ہے کیوں قتل و خوں ، ہر روز فتنہ اور فساد ؟!
آج کیوں بدلا ہے منظر، وادیء کشمیر کا !؟!

یوں ہوا کیوں قتل اس کا؟،رام ! نا حق خوں بہا !
بے سبب ما را گیا اک آدمی کشمیر کا !؟

بدلو تم ذہنِ ستمگر ، بدلو دستورِعناں !!
اولیا کی سر زمیں میں کام کیا شمشیر کا !؟!

یوں ہی تو جائز نہیں ہے،مومنو، جنگ و جدال !؟
کیا یہی مفہوم ہے اس نعرہء تکبیر کا ؟!

احترامِ کل مذاہب، رام جی کرتے رہے !!
بھول بیٹھے کیوں سلیقہ لوگ اپنے پیر کا !؟!

یوں بنامِ کل مذاہب تو بھی غور و خوض کر !!
کیا ہے مقصد صوفیوں کی فکر کا،تدبیر کا ؟!

بس پتے کی بات ہونی چاہئے تقریر میں !!
گر نہیں تو فیض ہے کیا بے تکی تقریر کا !؟!

سوچ گہرائی سے اے جاوید / اے انسان ،غور و خوض کر !!
کیا ہے مقصد صوفیوں کے درس کا ،تقریر کا ؟!

شیخ صاحب، یوں ہی تو جائز نہیں جنگ و جدال !؟
مٹ گیا کیوں کر/ کیسے تصور ملک / دیش کی تعمیر کا !؟
دوستو ، برسات کے پانی کے پڑنے کے سبب !!
ہو گیا چہرہ مسخ اک خوب رو تصویر کا !!؟

ہر محبت کا عجب انجام کیوں ہوتا ہے ؟، رام !
ہو ہمارا عشق یا ہو پیار رانجھا ہیر کا !!

تم تغافل شوق سے کیجو، مگر یہ سوچیو !!
کیا مداوا کر سکو گے ہجر کی تاثیر کا ؟!

اس لئے ہم نے کیا ہے منہدم اپنا وجود !!
اس طرح پہلو نکل آئے کوئی تعمیر کا !!

چوٹیں لگتی ہیں سخنور کے جگر کو باتوں سے !!
قلب دکھ جاتا ہے اک دم صاحبِ تحریر کا !!

رفعتیں تم لوگ بھی مانو ،مگر یہ سوچ لو !!
کیا خلاصہ کر سکو گے فقر کی تاثیر کا ؟!

عمر زنداں میں گزاری، ہے یہی اس کا ثبوت !!
داغ ہے پیروں میں میرے، آہنی زنجیر کا !!

ہاتھوں میں کشکول ہیں، اپنے گریباں چاک ہیں !!
پھر بھی ہم شکوہ نہیں کرتے کبھی تقدیر کا !!

کیا شبِ ہجراں کریں گے آپ روشن اپنا دل ؟!
جب چراغِ شوق ہو جائےگا گل تقدیر کا!!

طرز تیری خوب ہے، بلکہ ہے بے شک خوب تر !!
تو مگر اسلوب لائے گا کہاں سے میر کا ؟!

سینہء شمشیر سے شمشیر کا دم نکلے ہے !!
کیا بتائیں حال ہم پھر سینہء شبیر کا ؟!

اس جدائی اور تنہائی کے عالم میں ،جناب !
روز و شب کا کاٹنا، لانا ہے جوئےشیر کا !!

ہے سفیدی صبح کی،تشبیہ جوئے شیر کی !!
ہجر کی شب کاٹنا، لانا ہے جوئے شیر کا !!

اک نہیں ہستی جنونِ مضمحل کے سامنے !!
موءے آتش دیدہ درپن حلقہء زنجیر کا !!

حیرتی ہے باوجودِ کوششِ بسیار، داس !!
آج بھی مفہوم عنقا ہے تری تحریر کا !؟

اس کو سارے لوگ لیلا کہہ کے کرتے تھے خطاب !!
قیس عاشق تھا، پریمی تھا،عرب کی ہیر کا !!

میں نے خونِ دل سے لکھی ہے غزل قرطاس پر !!
نقش کاغذ پر چمکتا ہے مری تحریر کا !!

وقت کے اقبال و غالب، اے فراق و مصحفی !!!!
رنگ لا ؤ گے کہاں سے، شا عرو ،تم میر کا !؟!

اپنے فن نے دی ہے شہرت اس جہاں میں چار سو !!
شوق ہم کو تو نہیں تھا اپنی ہی تشہیر کا !!

کر رہے ہیں استفادہ فکر و فن کے نور سے !!
شاعروں کو بھا گیا ہے یہ جہاں تنویر کا !!

مت بتا ئیں آپ ،حضرت !، جانتے ہیں رام جی !
کیا ہے مطلب اس محرر کی نئی تحریر کا ؟!

یارو !، اس کے لیکھ میں بس تلخیوں کی آگ ہے !!
مت برا مانے کوئی ، جاوید/ انسان کی تحریر کا !!!

شاعرو ، فن میں تمہارے، جدت و ندرت، سہی !!
تم مگر انداز لا ؤ گے کہاں سے میر کا ؟!

رام !، اس کے گرد آئے ہیں نظر، اربابِ فن !!
لوگوں نے جادو نہیں دیکھا مری تحریر کا !؟!

رام!، غزلوں میں کسی کی جدت و ندرت ،سہی !!
وہ مگر اسلوب لائے گا کہاں سے میر کا !؟!

یارو !، میرے نطق میں جب تلخیوں کی آگ ہے !!
کیوں نہ پھر ہر لفظ ہو شعلہ فشاں تقریر کا ؟!

اس کو سارے لوگ غالب کہہ کے کرتے ہیں/تھے خطاب !!
" رام" شیدائی ہے اس کی شو خیء تحریر کا !!

یارو !،اس کے نطق میں بس تلخیوں کی آگ ہے !!
ہم برا مانیں نہیں جاوید/ انسان کی تقریر کا !!

رام داس راجکمار جانی دلیپ کپور پریمی انسان پریم نگری،
حضرت جاوید اشرف قیس فیض اکبر آبادی منزل، خدیجہنرسنگ ہوم 'رانچی ہل سا ئڈ، امام با ڑہ روڈ، رانچی - 834001 ، جھارکھنڈ، انڈیا - ایشیا-

مرزا غالب کی غزل : نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا


نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا

شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے
دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا

لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل
نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا

خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع
پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا

وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
مرزا غالب

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے