Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو غزل : رکھ موت کی لذت دم شمشیر کے آگے ۔ سرفراز بزمی

اردو غزل : رکھ موت کی لذت دم شمشیر کے آگے ۔ سرفراز بزمی

غزل
رکھ موت کی لذت دم شمشیر کے آگے
رقصاں ہو اجل دست زرہ گیر کے آگے

آئینہء ادراک پہ سب عکس پریشاں
خاموش جنوں حسن کی تقریر کے آگے

تاثیرغلامی کہ غلامی کہ غلاموں کی نگاہیں
اٹھتی ہی نہیں حلقہء زنجیر کے آگے

دربار معلی کے ابوالفضل یہ فیضی
سب کاسہ بکف اکبر تصویر کےو آگے

اس شیخ کی دنیا کو ضرورت ہے بہت آج
"گردن نہ جھکے جس کی جہانگیر کے آگے"

دل ہیبت اغیار سے خالی ہو تو بزمی
سب ہیچ ترے نعرہء تکبیر کے آگے

سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان انڈیا 09772296970

اردو غزل : اجل ! شب فراق میں چراغ دل کو کیا ہوا

28 فروری 2021
از سرفراز بزمی

اجل ! شب فراق میں چراغ دل کو کیا ہوا
بجھا بجھا جلا ہوا ، جلا جلا بجھا ہوا

ستم شعار جب ہوئے اندھیری شب کے حوصلے
لہو سے روشنی ہوئی، جنوں غزل سرا ہوا

میں ظلمتوں کی سلطنت میں جگنؤں کی فوج سے
عروس شب کے گیسوئے طلب سنوارتا ہوا

پکار کر بچشم نم ، بلا رہی تھی شام غم
ڈرے نہ ہم، ہوا بہم، نصیب کا لکھا ہوا

قبول کر نہ بے بسی لب فرات تشنگی
عصا ہوا تو نیل کی ندی پہ راستہ ہوا

کٹھن تو تھا بہت سفر، مگر جنوں تھا ہم سفر
"پہونچ گیا ہوں رہزنوں سے راہ پوچھتا ہوا"

وہ جس چمن کی بات تھی خزاں اسی کو کھا گئی
وہ جس شجر پہ ناز تھا وہی نہ اب ہرا ہوا

حیات بخش ساز پر صدائے قم بلند کر
ہر اک مقام سے گزر جمود توڑتا ہوا

یہ تشنگی کا پاس ہے نفس نفس اداس ہے
لہو کا اک لباس ہے غنیم کا دیا ہوا

محبتوں کے قافلے رکے ہوۓ تھکے ہوے
عداوتوں کے شہر میں دھواں دھواں اٹھا ہوا

کبھی وصال یار پر کبھی فراز دار پر
تمہارا بزمی حزیں کہاں کہاں لٹا ہوا

سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان
انڈیا 09772296970

نومبر 2021کو انڈین فرینڈس کلب ریاض کے زوم آن لائن مشاعرے میں پیش کی گئ میری طرحی غزل

ہاں بکھرنے دے تسلی سے دل بسمل مجھے
اے دھڑکتے دل ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے

ابر نیساں ، چادر شفاف بر محمل مجھے
چاند کیا ہے؟ بس کسی رخسار کا اک تل مجھے

زلزلے ہر سانس میں ہر ہر نفس کرب حیات
" چین سے جینے نہ دے گا اضطراب دل مجھے"

سر ہتھیلی پر لیے جب میں سر مقتل گیا
دیکھتا تھا دم بخود خنجر بکف قاتل مجھے

اب یہ میرے ذہن کا بدلاؤ ہے یا بے بسی
جانے کیوں وہ سنگ دل لگتا ہے دریا دل مجھے

سبز گہرے رنگ کی چادر لپیٹے کوہسار
خضر صورت آ کبھی ان وادیوں میں مل مجھے

آزماتا ہے مگر یہ خوش نصیبی کم نہیں
اس نے سمجھا ہے جو اپنے پیار کے قابل مجھے

وقت آنے دے پسینہ آئے گا ہر موج کو
تو سمجھتا ہے کوئی کٹتا ہوا ساحل مجھے

فتنہ سامانی کےدن ، ساغر بلب ، شیشہ بدست
موت کا ساماں نہ ہوجائے تری محفل مجھے

آج بھی شاہد ہے بزمی وادئ جبرالٹر
کشتیاں اپنی جلائیں تب ملا ساحل مجھے

سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان
انڈیا 09772296970

Sarfaraz Bazmi
Sarfaraz Bazmi


ایک طرحی غزل آپ کی خدمت میں پیشِ خدمت
از سرفراز بزمی

ترے ہجر نے عطا کی یہ عجیب بے قراری
" نہ سکت ہے ضبط غم کی نہ مجال اشکباری"

مرے سومنات دل پر صف غزنوی سے بڑھ کر
تری شبنمی ادائیں، ترا طرز غمگساری

میں کہاں ہوں اور کیا ہوں ،تو کہاں ہے اور کیا ہے؟
اسی جستجو میں گزری ، کبھی رات ساری ساری

یہ ستیزہ گاہ عالم، یہ حریف زلف برہم
نہ جنون فتنہ ساماں، نہ خرد کی ہوشیاری

"تو مری نظر میں کافر ، میں تری نظر میں کافر"
میں اسیر زلف جاناں ، تو حریص شہریاری

مری خشک کشت دل پر ، ترے لفظ برق مضطر
کہ دھواں دھدھک نہ جائے، تری تہمتوں پہ واری

یہ مجاوران کعبہ، انھیں کیا ہوا خدایا !
ترے دوستوں سے نفرت، ترے دشمنوں سے یاری

کوئ رستمی سے کہدے، کوئ مرحبی سے کہدے
میں غلام مصطفی ہوں، مرا شوق جانثاری

ہے بیان حال گلشن، یہ جلے جلے نشیمن
یہ گھٹی گھٹی فضائیں، یہ گلوں کی آہ و زاری

اے غرور بندہ پرور، تجھے ہو جو خوف محشر
تو سریر سلطنت بھی ھے کلاہ خارداری

رہ زندگی میں بزمی، یہ متاع دل کی بازی
کبھی رہزنوں سے ہاری، کبھی رہبروں سے ہاری

سرفراز بزمی
سوائ مادھوپور
راجستھان انڈیا
919772296970

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے