Ticker

6/recent/ticker-posts

رشتوں کا قرض، ایسے چکانا پڑا مجھے: غزل اردو شاعری Ghazal Urdu Shayari

رشتوں کا قرض، ایسے چکانا پڑا مجھے: غزل اردو شاعری Ghazal Urdu Shayari

غزل
رشتوں کا قرض ایسے چکانا پڑا مجھے
خوابوں کا روز خون بہانا پڑا مجھے

میں روح چاہتا تھا سدا، اور وہ بدن
سو اپنا ہاتھ اس سے چھڑانا پڑا مجھے

سب کچھ گنواکےجس کو کمایاتھا،ہائےوقت!
وہ بھی انا کی بھینٹ چڑھانا پڑا مجھے

گھر میں بھی رہ کے روح عرب میں پڑی رہی
مہنگا کچھ اتنا ملک میں, دانہ پڑا مجھے

وہ چھن نہ جائے اس لئے کرتا ہوں اسکی قدر
بےمول ہی بھلے وہ خزانہ پڑا مجھے

غربت پہ اپنی پھوٹ کے رویا میں بےشمار
جب پنچھیوں کو چھت سے اڑانا پڑا مجھے

جب ظلم آسمان کی حد سے بھی بڑھ گیا
آخر کہ سر, زمیں سے اٹھانا پڑا مجھے

طاہرسعودکرتپوری

وہ سب کی آنکھ کا تارا ہوا مرےباعث : غزل اردو شاعری Ghazal Urdu Shayari

وہ سب کی آنکھ کا تارا ہوا مرےباعث
اُسے بس اتنا خسارہ ہوا مرے باعث

تمہارےواسطے اےدوست! اُس کو چھوڑ دیا
نہ بھولنا، وہ تمہارا ہوا مرے باعث

مرے مزار سے کچھ چینٹیوں کو رزق ملا
چلو کسی کا گزارہ ہوا مرے باعث

کمال ہے کہ انہیں مجھ سے ہی شکایت ہے
جنہیں نصیب کنارہ ہوا مرے باعث

تمام عیب و ہنر اس نےمجھ سےسیکھےہیں
وہ سرد اشک، شرارہ ہوا مرے باعث

یہ کم نہیں کہ اُسے اِس کا اعتراف بھی ہے
وہ لفظ، لفظ سے پارہ ہوا مرے باعث

طاہرسعودکرتپوری

پیار کے معنیٰ گھنٹوں تک سمجھاتے تھے : غزل اردو شاعری Ghazal Urdu Shayari

ghazal-urdu-pyar-shayari-tahir-masood

پیار کے معنیٰ گھنٹوں تک سمجھاتے تھے : غزل اردو شاعری Ghazal Urdu Shayari

غزل
پیار کے معنیٰ گھنٹوں تک سمجھاتے تھے
ایسے جھوٹا پیار وہ سچ منواتے تھے

یوں بھی گزرے دن اچھے کہلاتے تھے
لڑکی چھوڑو، لڑکے تک شرماتے تھے

خود سے بڑھ کر خود کا دشمن کوئی نہیں
اکثر میرے بابا یہ فرماتے تھے

چلتے تھے استاد کے پیچھے جب تک ہم
ادنی ہوکر بھی اعلیٰ کہلاتے تھے

کیا انساں تھے دشمن تک کے رونےپر
سب کچھ طاق میں رکھ کراشک بہاتےتھے

پہلے گھر گھر جائز روزی ہوتی تھی
پہلے چھت پر خوبب پرندے آتے تھے

ان تک میری وہ چیخیں بھی کب پہنچیں
وہ چیخیں جو بہرے تک سن پاتے تھے

ہم نے برسوں سانپ کو دودھ پلایا ہے
ہم جانی دشمن کے بھی کام آتے تھے

طاہر ایسا عشق کہاں اب باقی ہے
جس کی آنچ سے دل کندن بن جاتے تھے
طاہر سعود کرتپوری

اردو غزل : جنہیں خلد چاہئے خلد دے جنہیں مال چاہئے مال دے

غزل
جنہیں خلد چاہئے خلد دے جنہیں مال چاہئے مال دے
مجھے کچھ نہ دے مجھے کچھ نہ دے مجھےصرف عشقِ کمال دے

کسی سرخ پھول کے سرخ لب کسی شامِ رنج کے پیچ و خم
کبھی یوں ورق پہ اتار دے کہ ورق کی چیخ نکال دے

نئے سورجوں کو وجود دے کسی آسمان کو فتح کر
کوئی ایسا نام کا کام کر کہ عدو بھی جسکی مثال دے

میں نئے زمانے کا قیس ہوں، یہ کہوں گا یہ تری بھول ہے!!
ترے در کو چھوڑ کےجاؤں گا یہ خیال دل سےنکال دے

ترے پاس ایسے سوال ہیں، کہ جو ماورائے خیال ہیں
میں امامِ نحوِ خیال ہوں مجھے دے تو ایسےسوال دے

یہ سفیدوسرخ جو پھول ہیں،انہیں یاد سارے اصول ہیں
انہیں بے وفائی مزید دے، انہیں اور حسن وجمال دے

یہ مذاق کیسا مذاق ہے اسے عشقِ حق میں قرار ہے
دلِ چشمِ سنگ کو کچھ گھڑی،غمِ عشقِ چشمِ غزال دے

طاہر سعود کرتپوری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے