ناول ابن الوقت کا تنقیدی جائزہ Novel Ibn ul Waqt Ka Tanqeedi Jaiza
ناول ابن الوقت کو ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے آخری دور میں لکھا تھا۔ان کے سماجی اور سیاسی تصورات اس وقت تک پوری طرح سے پختہ ہو چکے تھے۔ نذیر احمد نےکبھی بھی مغربی تمدن کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی انھوں نے کبھی اس کی مذمت ہی کی لیکن اُنھوں نے کبھی یہ بھی نہیں چاہا کہ ہندوستان مکمل طور پر مغربی تمدن کو اختیار کرلے۔ ایسا چاہنے کے پیچھے اُن کی کچھ وجوہات بھی تھیں۔ انھوں نے ناول ابن الوقت میں مغربی زندگی اور وہاں کی تہذیب کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ناول ابن الوقت کا تنقیدی جائزہ
ناول ابن الوقت کو لکھتے وقت نذیر احمد کو اس بات کا مکمل شعور ہو چُکا تھا کہ سماج کے ایک فرد کے بدلنے سے پورے سماج میں تبدیلی ممکن نہیں ۔تقلید پسندی کی اندھی ہوا کو وہ سماج کے لیے مفیدنہیں سمجھتے تھے۔ ناول کا ہیرو ابن الوقت انگریزوں کی اندھی تقلید میں اپنے سماج سے مکمل طور پر الگ ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ سماج کی ہمدردیوں سے محروم بھی ہو گیا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے یہ ناول ۱۸۸۸ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد لکھا تھا۔ اپنی ملازمت کے طویل سلسلہ سے سبکدوش اور وظیفہ پانے کے بعد نذیر احمد کا مغربی تمدن کے خلاف آواز اٹھانا سماجی زندگی اور اس کی تبدیلیوں پر ان کی گہری نگاہ کا پہلا باقاعدہ ثبوت دیتی ہے۔ انہیں اپنی ملازمت کے دوران میں بے شمار انگریزی پرست ہندوستانی عہدے داروں سے سابقہ پڑ ا تھا اور ان کی دوراندیش نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہایک بہت بڑا ہندستانی طبقہ مغربی زندگی کا شکار ہوتا جا رہاہے۔
ابن الوقت کا تنقیدی جائزہ
ہمارا معاشرہ اپنی جاندار اور زندہ پائندہ تہذیب و روایات کو ترک کر کےمغربی تمدن کے چمک دمک میں خود کو گم کر دینے میں اور اس بےحیائی کےسیلاب میں اپنے آپ کو بہا دینے میں ہی اپنی نجات سمجھ رہا ہے۔ اسی لئے ڈپٹی نذیر احمدنے مغربی تمدن کی اندھی تقلید کے خلاف اپنے ناول نگاری کے ذریعے آواز بلند کی۔ مغرب کی اچھی چیزوں جن کے بغیر اس زمانے میں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے ڈپٹی نذیر احمد ان کی مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ اسی لئے تو جب انگریزی حکومت نے تعلیم کی اشاعت کی کوشش کی تب نذیر احمد نے اسکی کوئی مخالفت نہیں کی بلکہ ایک قدم مزید آگے بڑھ کر اور قوم کو عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو سنجیدگی کے ساتھ احساس دلا کر انفرادی طور پر ڈپٹی نذیر احمد نے اس اہم ذمہ داری کو پورا بھی کیا۔ ڈپٹی نذیر احمد کا ناول مراۃ العروس اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی سب سے بڑی اور اہم کوشش ہے ۔ اس ناول میں انہوں نے بڑے موثر اور خوبصورت انداز میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انگریزی تعلیم ناگزیر ہے۔
ناول ابن الوقت میں مغربی تہذیب
ڈپٹی نذیر احمد نے ناول ابن الوقت میں مغربی تہذیب کے ساتھ آئی ہوئی سائنس کی برکت کا خوشی خوشی خیر مقدم کیا اور سائنس کی ابتدائی معلومات کو ”بنات النعش“ لکھ کر عورتوں کے ذہن نشین کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد نے بہت سارے وجوہات سے عورتوں کو سماج میں بےحد کمزور پایا اور بہت ضروری بتایا کہ پہلے عورتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لئے اُنھوں نے دو اہم ناولیں مراۃ العروس اور بنات النعش لکھی۔ اس کے علاوہ اور بہت سی باتوں کے زہنی بالیدگی کے لیے سائنس کے مختلف مسائل پر بھی اپنی تحریروں کے ذریعے بھرپور روشنی ڈالی ۔ اسی سلسے کو آگے بڑھانے کے لئے بنات النعش میں زمین، ہوا کا ادب، کشش اتصال مقناطیس، زمین گول ہے اور آفتاب کے گرد گھومتی ہے اور اس قسم کے اور بہت سے مسائل کو بیان کیا کہ زندگی کے رشتے منطقی طور پر سمجھ میں آ سکے اور موضوعات سے ہٹ کر ہندستانی عورتیں بھی حقیقت کی روشنی میں چلنے پھرنے لگیں اور عقل کی توانائی کے ساتھ آگے سکے۔
ڈپٹی نذیر احمد مغرب کی ان تمام چیزوں کو جو عقل کی توانائی اور زندگی کے رشتے کو منطقی طور پر سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو اختیار کر لینے میں ملک اور قوم کی ترقی سمجھتے تھے۔ اسی لئے صرف اندھی تقلید اور مغربی زندگی کی مخالفت کرتے ہوئے وہ دیکھ رہے تھے کہ مغرب کی تہذیب و تمدن کا یہ سیلاب اپنی رو میں مشرقی تہذیب، مشرقی تمدن اور ان سب سے زیادہ اہم یہ کہ مذہبی اقدار کو پوری طرح سے تباہ وبرباد کرتےجارہا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد صاحب یہ محسوس کر رہے تھے کہ انگریزی وضع کے ساتھ مذہبی احکام کی بجا آوری کسی طرح ممکن نہیں اس لئے وہ ناول ابن الوقت میں اسکے انگریزی وضع اختیار کرنے کے بعد جو تبدیلیاں آئیں ہیں انہیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’الغرض انگریزی سوسائٹی میں داخل ہونے کے خبط نے اسکو ایسا بے چین کر دیا تھا کہ دن رات دوچار منٹ کے لیے بھی شاید اس کو خوشی ہوئی ہو ورنہ جب دیکھو منقبض جب سنو آزردہ ذرا سوچنے اور خیال کرنے کی بات ہے کہ جو شخص دنیا میں اس قدر من موہک ہو اس کو رمنِ داری سے کیا سروکار سچی دینداری کی شناخت ہے زہد جتنا جس سے ہو سکے۔‘‘
ابن الوقت کے نظریات
نذیر احمد نے ابن الوقت میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغربی تمدن کی پیروی کے نتیجے میں انسان مذہب سے دور اور بیگانہ ہونے لگا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتانے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ مغربی تمدن کی تقلید سے صرف دین ہی تباہ و برباد نہیں ہوتا بلکہ ہماری دنیا بھی خراب ہو رہی ہے اس لیے کہ مغربی طرز کی زندگی بڑی مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ہم ہندوستانیوں کے لیے اس مہنگی زندگی کی مشکل اخراجات برداشت کرنا نا ممکن ساہے۔ نذیر احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اپنی چادر سے باہر پاؤں پھیلانے والوں کا كيا حشر ہوتا ہے۔
ابن الوقت میں نذیر احمد نے یہ بتایا کہ انسان جب غیر فطری زندگی گزارنے لگتا ہے تب زندگی اس پر بوجھ بن جاتی ہے اور کبھی کبھی مصیبت بھی لگنے لگتی ہے۔ نذیر احمد نے اس بات کو بڑے موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ ابن الوقت کی اس کیفیت کی حالت وہ یوں بیان کرتے ہیں۔
’’وہ بھائی بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں کی مفارقت کی خیال سے متاذی ہوتا تھا رشتہ دار تو رشتہ دار اُسے ہندوستانی سوسائٹی کے چھوٹ جانے کا بھی افسوس تھا ہم نے سنا ہے کہ اسنے بارہا اپنے راز داروں سے کہا کہ میرا یہ حال ہے کہ انگریزی کھانے کھاتے ہوئے اتنی مدت ہوئی کہ ایک دن میری سیری نہیں ہوئی اور میں ہر خواب میں اپنے تئیں ہندوستانی کھانے کھاتے دیکھتا ہوں۔ ‘‘
ابن الوقت کے چھوٹے چھوٹے واقعات
ابن الوقت میں نذیر احمد نے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے ابن الوقت کی شخصیت کے انتشار کو واضح شکل دیا ہے جس نے اس کی سماجی زندگی کو مکمل طور پر خراب کر دیا اور باوجود گورنمنٹ میں اثر ورسوخ، قابلیت و لیاقت ، ذہانت، بردباری، ذہانت داری کے وہ زندگی میں مصیبت اٹھاتا ہے اور ناکام ہوتا ہے۔
ابن الوقت کے تضاد
ابن الوقت کے تضاد کے طور پر نذیر احمد حجۃ الاسلام کا کردار پیش کرتے ہیں ۔ جو اپنی پرانی اور قدیم وضع کو آخر تک قائم رکھتا ہے اور کسی بھی قیمت پر اپنی مذہبی اور مشرقی وضع کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ بھی ڈپٹی ہی تھے اور انیسویں صدی کے نمائندہ مسلمانوں کی سماجی اور نفسیاتی زندگی کے تضاد کی کیفیت کو پیش بھی کرتے ہیں۔ابن الوقت اس لحاظ سے ان کی بہترین کہانی ہے ۔ یہ ناول اپنے زمانے کی سماجی زندگی کے اہم اور بنیادی پہلوؤں کے مکمل احاطہ کرتی ہے۔
ناول ابن الوقت کا تنقیدی جائزہ
ناول ابن الوقت ان بد گمانیوں اور شکوک کا اظہار ہے جو اخلاقی بدنظمی اور ذہنی انتشار کا نتیجہ تھا۔ اس ناول میں اس زمانے کے سماجی اور سیاسی عوامل و محرکات کی تصویر ہے۔ ناول ابن الوقت میں اس دور کے انگریز ی حکومت اور ہندوستانی محکوموں کے تعلقات کی ترجمانی ملتی ہے۔
ناول ابن الوقت میں زمانے کی عکاسی
ڈپٹی نذیر احمد نے اس ناول میں زمانے کی عکاسی کے ساتھ ہی اس زمانے کے بہت اہم مسئلے کو بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے ہندوستانیوں کو ذہنی طور پر بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ مغربی اثرات سے پیدا ہونے والے خطروں کو محسوس کر کے ان حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان کو مغربیت کی غلامی سے نجات دلانے کی ضرورت بتائی ہے۔ اس عہد کے بعض ارباب بصیرت نذیر احمد، شبلی اور اکبر الہٰ آبادی نے مغربی تہذیب و تمدن کی مخالفت کر کے ہندوستانیوں کے دلوں میں مغربی تمدن کے نقص سے غور و فکر کا خیال پیدا کیا۔جس کی وجہ سے ان میں خود آگاہی پیدا ہوئی جس نے انہیں شدید ذہنی غلامی سے محفوظ رکھا۔ اس طرح ایک ایسا چراغ ان کے دلوں میں روشن کر دی جو بہت دنوں بعد ’’ترک موالات‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوئی اور آزادی کی راہ کو مکمل طور پر روشن کر دیا۔
0 تبصرے