Ticker

6/recent/ticker-posts

ناول مراۃالعروس کا خلاصہ | Novel Mirat Ul Uroos Ka Khulasa In Urdu

ناول مراۃالعروس کا خلاصہ | Novel Mirat Ul Uroos Ka Khulasa In Urdu

ناول مراۃالعروس کے مصنف ڈپٹی نذیر احمد کو اردو ادب کے پہلے ناول نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔اردو کے نثری ادب میں ناول نگاری کی صنف سے متعارف کرا کر انہوں نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد ہیں۔انھونے نے ۱۸۶۸ء میں اردو ادب کا اوّلین ناول مِراۃُالعَرُوس ‘‘ لکھ کر اردو ادب میں اِک نئی صنف کا اضافہ کیا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کرنے کا کام اپنے ذمے لیا، یہ بات اردو ادب کے ساتھ ساتھ خود نذیر احمد کے لیے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

ناول مراۃالعروس کا مقصد

ناول مراۃالعروس میں ہمارے روز مرہ کی زندگی کے واقعات کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں قلمبند کیا گیا ہے۔ ناول مِراۃُالعَرُوس کا مقصد خاص طور سے عورتوں کی تربیت کرنا ہے۔

ناول مراۃالعروس کی زبان

ڈپٹی نذیر احمد خالص دہلوی ادب کی زبان میں ہی تخلیق عمل کو انجام دیتے تھے۔مِراۃُالعَرُوس کے علاوہ انہوں نے بنات العش اور توبہ النصوح جیسے ناول بھی تخلیق کیے۔ بےشک وہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکئےجائینگے۔

ناول مِراۃُالعَرُوس کا خلاصہ

ناول مِراۃُالعَرُوس ایک ایسا اصلاحی ناول ہے جس کی مدد سے اس کے مصنف عورتوں کی تعلیم و تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ مصنف نے طرح طرح کے حالات و واقعات اور ان سے پیدا ہونے والے مشکلات اور انسانی زندگی میں عورتوں کو پیش آنے والے مسائل کا حل بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔

ناول مِراۃُالعَرُوس کے مختلف باب ہیں پہلا باب میں تمہید کے طور پر عورتوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت اور ان عورتوں کی خراب حالت کے بارے میں چند نصیحت آموز ج جملے ملتے ہیں۔

اس باب میں ڈپٹی نذیر احمد نے عورتوں کی پڑھائی لکھائی کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جاہل اور پڑھی لکھی عورت کا سچائی کے ساتھ موازنہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ عورتوں کو خاص طور پر پردے میں رہتے ہوئے بھی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت بتائی ہے۔

ناول مِراۃُالعَرُوس کے کرداروں کا تعارف

ناول مِراۃُالعَرُوس کے دوسرے باب میں قصّے کا آغاز اور جن کرداروں کا اس قصے میں بیان ملتا ہے۔ ان کے مختصر حالاتِ زندگی پیش کی گئی ہے۔ اکبری اپنے والدین کی پہلی بیٹی ہے اور وہ اپنی نانی کے احمقانہ لاڈ پیار کی وجہ سے بہت زیادہ بگڑ گئی ہے۔تیسرے نمبر کی اولاد اصغری ہے جو بزرگوں کی سیرت اور ان کی روک ٹوک میں پل بڑھ کر ہر ہنر سے واقف ہو گئی ہے۔ ان دونوں بہنوں کا رشتہ ایک ہی خاندان میں دو بھائیوں سے طے ہو گیا ہے۔ اکبری کا نکاح بڑے بھائی محمد عاقل سے ہو گیا ہے اور اصغری کی منگنی چھوٹے بھائی محمد کامل کے ساتھ ہو گئی ہے۔

ناول مِراۃُالعَرُوس کا خلاصہ

ناول مِراۃُالعَرُوس کے تیسرے باب سے آٹھویں باب تک اکبری کی شادی اور شادی کے بعد کے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اکبری کا رشتہ اس کی بدمزاجی کی وجہ سے کہیں بھی طے نہیں ہو پا رہا ہے پھر بھی اکبری کے والد نے اپنے خاص دوست محمد فاضل کے دونوں لڑکوں سے اپنی دونوں لڑکیوں کا رشتہ طے کر آئے ہیں۔ شادی کے کچھ مہینے بعد ہی اکبری نے اپنے شوہر سے الگ گھر کا مطلبہ کرنے لگتی ہے جب محمد عاقل نے اس کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگی کہ:
چاہتی کیا ہیں۔ میرے پاس کسی کے آنے اور بیٹھنے تک کی روادار نہیں۔ تیوری تو ان کی میں جانتی ہوں۔ خدا نے چڑھی ہوئی بنائی ہے۔ مگر آج تو انھوں نے چنیا اور زلفن اور رحمت اور سلمتی منھ در منھ سب کی فضیحتی کی۔‘‘

محمد عاقل اسے سمجھانے لگے کہ بی بی یہ سب تو غریب ہیں۔ چلو غریب ہونا کوئی عیب نہیں لیکن ان سب کی عادتیں بھی تو اچھی نہیں ہیں۔ اس بات پر اکبری ایسی بگڑی کہ اپنے میکے جا بیٹھی۔ اکبری کی خالہ اسے واپس لائیں تو عید کے روز وہ دوبارہ ناراض ہو کر اپنی ماں کے گھر چلی گئی۔ محمد عاقل عید گاہ سے واپس آیا تو والدہ نے اسے سسرال بھیجا جہاں اس کا اپنی ساس سے الگ گھر لینے پر بحث و مباحثہ ہوا۔ اصغری نے بہنوئی کی خدمت کی اور محمد عاقل اصغری سے خوب متاثر ہوئے۔ گھر آکر محمد عاقل نے اپنی والدہ اور چند احباب سے مشورہ کیا اور یوں محمد عاقل اور اکبری الگ گھر میں شفٹ ہوگئے۔

اکبری الگ گھر چلی تو گئی لیکن اپنی بدانتظامی کے باعث ہر چیز خراب کرتی گئی۔ کھانا ہر روز باہر سے آتا۔ ایک روز اکبری گھر کھلا چھوڑ کر سوگئی اور چور پورے گھر کا سامان لوٹ کر لے گئے۔ محمد عاقل کی ماں اور ساس نے اپنے گھر سے کچھ سامان بھیج کر ان کے نقصان کی کچھ بھرپائی کردی لیکن پھر اکبری نے ایک عورت کے ہاتھوں اپنے تمام زیورات گنوا دئیے۔ اس سب کے بعد اکبری کی ساس اپنے چھوٹے بیٹے محمد کامل کی شادی کہیں اور کرنا چاہتی تھیں لیکن محمد عاقل نے اصغری کی کچھ اتنی تعریف کی کہ محمد کامل اور اصغری کا بیاہ ہوگیا۔

اصغری کی شادی کے دوران اس کے والد کو دور دراز علاقے سے چھٹی نہیں ملی لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کو بھی تمام ذمہ داری سمجھا کر بھیج دیا اور اصغری کے لیے ایک خط بھیجا جس میں انھوں نے اسے سسرال میں رہنے کے اطوار بتائے تھے۔ اصغری نے سسرال میں جاتے ہی وہاں کے کاموں میں دلچسپی لینا شروع کردی اور اپنی نند محمودہ کو بھی پڑھانے لگی۔ اصغری جوں جوں گھر میں کاموں میں دلچسپی لینے لگی اس نے دیکھا کہ گھر کا نظام گھر کی ماما عظمت کے ہاتھوں میں ہے اور آئے دن گھر کی چیزیں اور راشن بھی غائب ہوتا ہے۔

اصغری جوں جوں گھر کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لینے لگی ماما عظمت کے ہاتھوں سے چیزیں نکلنے لگیں اور انھوں نے پے در پے اصغری پر وار کرنا شروع کردیے۔ انھوں نے محمد کامل اور اس کی ماں کو اصغری سے بدگمان کرنا شروع کردیا۔ اصغری کو تمام حالات محمودہ کی زبانی پتہ چلے تو اس نے اپنے بڑے بھائی کو خط لکھا اور انھیں کہا کہ آپ مجھے مشورہ دیں کہ کیا کروں اور آپ اپنی نوکری پر سے واپس آتے ہوئے دوسرے شہر سے میرے سسر کو بھی لیتے آئیں۔ ایسے میں ماما عظمت نے گھر نیلام ہونے کی خبر اصغری کی ساس کو سنائی لیکن اصغری نے اسی وقت اپنی عقل مندی سے اپنی ساس کو پرسکون کردیا اور دوبارہ ان کے دل میں گھر کرلیا۔

اصغری کی ساس پیسوں کی کمی کے باعث پریشان تھی اور اب شب برات بھی آنے والی تھی اور انھیں خیال تھا کہ اب محمودہ اور محمد کامل کو پٹاخے چھوڑنے کے لیے پیسے چاہیے ہوں گے۔ اصغری کو جب ساس سے اس بات کا علم ہوا تو اس سے اپنے شوہر کے سامنے اپنی نند کو پٹاخے پھوڑنے کے نقصانات اور اپنی ساس کی پریشانی کا بتایا۔ آخر کار محمودہ اور محمد کامل نے پٹاخے پھوڑنے کا ارادہ ترک کردیا اور ساس کے دل میں اصغری کا مقام کچھ مزید زیادہ ہوگیا۔

شب برأت گزری کہ اصغری کے کہنے پر اس کے والد اصغری کے سسر کو شہر لے آئے۔ سسر کا آنا تھا کہ اصغری نے تمام ادھار والوں کو بلوایا اور حساب کروایا جہاں ماما عظمت کی چالاکیاں سب کے سامنے آگئیں اور محمد فاضل نے انھیں کام سے نکال دیا۔ اصغری کے مشورے پر ایک نئی ماما کو کام پر رکھا گیا اور اصغری کے مشورے سے ہی اس کی تنخواہ قرار پائی۔

اصغری کے ساس سسر میں گھر کے خرچے پر بحث ہوئی تو اصغری نے سسر کا ساتھ دیتے ہوئے ساس کو سمجھایا اور گھر خرچ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اصغری نے اپنے شوہر کو بھی پڑھنے کی جانب متوجہ کیا اور خود بھی لڑکیوں کا مکتب بٹھایا۔ دراصل ہوا کچھ یوں کہ حسن آراء جو بہت بدتمیز تھی اس کی خالہ اصغری کے میکے والے محلے میں رہتی تھیں اور حسن آراء اصغری کے سسرالی محلے میں رہتی تھی۔ خالہ جب حسن آراء کے گھر آئیں تو اس کی ماں کو مشورہ دیا کہ اسے اصغری کے پاس پڑھاؤ۔ اصغری تو نوکری پر نہ آئی لیکن حسن آراء کو اس کے گھر بھیجا جانے لگا اور یوں اصغری کے پاس صبح سے شام دیر تک بہت ساری لڑکیاں آنے لگیں۔

اصغری نے عمدہ طریقے سے لڑکیوں کو پڑھانا شروع کیا اور لڑکی کی والدہ کی شکایت پر انھیں بھی ایک دن اپنے مکتب بٹھایا۔ اصغری اپنے شوہر کو نوکری پر آمادہ کرتی ہے اور پھر دوسرے شہر جانے کا موقع ملے تب بھی اسے آمادہ کرتی ہے۔ محمد کامل ترقی پاتے ہیں اور شروع شروع میں باقاعدگی سے خرچہ اور خط بھیجتے ہیں لیکن پھر کچھ وقت بعد محمد کامل کے خطوط میں وقفہ آنے لگا اور اصغری کے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔

اصغری محمد عاقل اور محمودہ کو مکتب کی ذمہ داری دیتی ہے اور اکبری کو اپنی ساس کے ساتھ واپس آنے کا کہتی ہے۔ اکبری ویسے ہی اکیلے رہتے ہوئے تنگ آچکی ہوتی ہے سو وہ واپس آجاتی ہے۔ اصغری اپنے شوہر کے پاس جاتی ہے اور وہاں رہ کر انھیں دوبارہ راہِ راست پر لاکر کچھ وقت بعد واپس آتے ہوئے اپنے سسر کی طرف جاتی ہے اور انھیں اب پینشن لے کر آرام کرنے کا کہتی ہے اور اپنی جگہ محمد عاقل کو نوکری پر لگوانے کا مشورہ دیتی ہے۔ اصغری واپس آتی ہے اور حسن آراء کے بھائی سے محمودہ کی نسبت طے کر ساس سے مشورہ کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں لڑکے والے اتنے امیر ہیں لیکن اصغری کی وجہ سے حسن آراء کی ماں ہاں کہہ دیتی ہے اور محمودہ کی منگنی طے پاجاتی ہے۔

شادی کے لیے جہیز کا مسئلہ ہوتا ہے تو اصغری اپنے سسر کو مشورہ دیتی ہے وہ اپنے سیٹھ کے پاس جائیں اور انھیں دعوت دیں وہ یقیناً انھیں پیسے دیں گے۔ یوں اصغری کے پاس اپنی جمع پونجی ہوتی ہے اور محمد کامل بھی پیسے بھیجتے ہیں۔ محمودہ کا بیاہ ہوجاتا ہے اور اسے بہترین جہیز بھی ملتا ہے۔ محمودہ کے سسر کچھ وقت اس پر نظر رکھتے ہیں اور اس کی صلاحیتوں کو مان کر اپنی جائداد محمودہ اور اس کے شوہر کے نام کر کے مکہ شریف چلے جاتے ہیں۔ اصغری کے یہاں اولاد ہوتی لیکن اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اصغری کی ایک بیٹی کی وفات پر اس کے والد اسے خط لکھتے ہیں اور اسے صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ آخر میں اصغری کا ایک بیٹا بچتا ہے جس کی شادی محمودہ کی بیٹی سے طے پاتی ہے اور یوں اصغری اپنی سمجھ بوجھ سے ایک بہترین زندگی گزر کرتی ہے۔ یوں اردو کے اس پہلے ناول میں مصنف نے دو بہنوں کے ذریعے عورتوں کو زندگی بسر کرنے کے متعلق اہم نصیحتیں کی ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے